بھارت کی ریاستوں‘ کرناٹک اور گجرات کے میڈیکل کالجوں نے غضب کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے سٹوڈنٹس کی فیس بڑھا کر تقریباً 2 لاکھ روپے ماہانہ کر دی ہے یعنی ہر طالب علم کو ڈاکٹر بننے کے لیے اب تقریباً 25 لاکھ روپے ہرسال جمع کرانا پڑیں گے۔ اگر ڈاکٹری کی پڑھائی پانچ سال کی ہے تو انہیں سوا کروڑ روپے صرف فیسوں کی مد میں بھرنا پڑیں گے۔ آپ ہی بتایئے کہ ملک میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے ایک بچے کی تعلیم پر سوا کروڑ روپے خرچ کر سکتے ہیں؟ چاہے جو ہو‘ لوگوں کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر تو بنانا ہی ہے‘ تو ایسے میں وہ کیا کریں گے؟ وہ بینکوں، پرائیویٹ اداروں، سیٹھوں اور اپنے رشتے داروں سے قرض لیں گے اور اس کا بیاج بھی بھریں گے کہ بچوں کو کسی طرح ڈاکٹری کی ڈگری دلا دیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ پھر وہ اپنا قرض کیسے اتاریں گے؟ یا تو وہ کئی غیر قانونی ہتھکنڈوں کا سہارا لیں گے یا ان کا سب سے سادہ طریقہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے ڈاکٹر بن جانے والے بچوں سے کہیں کہ تم مریضوں کو ٹھگو‘ ان کا خون چوسو اور جو قرض ہم نے تمہاری پڑھائی کے لیے لیا‘ وہ چکائو۔ اس ٹارگٹ کی تکمیل کے لیے آج بھی کئی بھارت کے کئی پرائیویٹ ہسپتالوں میں زبردست لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ ہسپتالوں کے کمرے پانچ ستارہ ہوٹلوں کے کمروں سے بھی زیادہ سجے دھجے ہوتے ہیں۔ کسی مریض کی ایک بیماری کی وجہ کا پتا کرنے کے لیے ڈاکٹر لوگ درجنوں ٹیسٹ کروا دیتے ہیں جس سے مریض کا مرض شیطان کی آنت بن جاتا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور اس سے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو مریض سے موٹی رقم وصول کرنے کا ایک مستقل بہانہ مل جاتا ہے۔ بھارت کے ڈاکٹر اپنا دھندہ شروع کرنے سے پہلے ''یونانی دارشنک‘‘ کے نام سے ''چلی ہپو کریٹک‘‘ حلف لیتے ہیں۔ جس میں انسانی اخلاقیات اور اصولوں کی پاسداری کی ڈھیروں باتیں شامل ہیں۔ کیا وہ اس حلف کا پالن سچے من سے کبھی کرتے ہیں؟ ان ڈاکٹروں کی پڑھائی کی یہ لاکھوں‘ کروڑوں روپے کی فیس اس حلف کی خلاف ورزی کی سب سے پہلی وجہ ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے کالجوں کی اس قدر بھاری فیسوں پر سخت اعتراض کیا ہے اور اس نے ایک پٹیشن پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کالجوں نے اپنی فیس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے‘ انہوں نے خالص لالچ کا ثبوت دیا ہے۔ کالج کی یہ فیس سرکاری و سماجی ضابطوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کی فیس کے دم پر بنے ڈاکٹروں سے عوامی خدمت کی امید کرنا بے معنی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت کے 100 کروڑ سے بھی زیادہ افراد مناسب تعلیم و تربیت اور معقول علاج سے محروم رہتے ہیں۔ اتنی آبادی تو پورے یورپ کی کل ملا کر بھی نہیں ہو گی جتنے لوگ بھارت میں سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ یونیسکو نے بھارت میں جانچ پڑتال کر کے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کے 73 فیصد ماں باپ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہاں پڑھائی کا معیار گھٹیا ہوتا ہے۔ وہاں سے پڑھے ہوئے بچوں کو اچھی نوکریاں نہیں ملتی ہیں کیونکہ ان کی انگریزی کمزور ہوتی ہے۔ سرکار کے نکمے پن کی وجہ سے آج تک بھارت غلامی کے دور میں جی رہا ہے جہاں سرکاری نوکریوں میں انگریزی لازمی ہے۔ انگریزی میڈیم سے پڑھے ہوئے امیروں کے بچے بڑے ہو کر یا تو سرکاری نوکریاں ہتھیا لیتے ہیں یا پھر امریکہ اور کینیڈا بھاگ جاتے ہیں۔ غیر سرکاری سکولوں، کالجوں کی فیسیں 50‘ 50 ہزار روپے مہینہ تک ہے۔کتنے لوگ ہیں بھارت کے جو ہر مہینے اتنی فیسیں افورڈ کر سکتے ہیں؟ آج کل ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھارت میں ٹھگی کے سب سے منافع بخش ٹھکانے بنے ہوئے ہیں۔ ملک کے غریب، گرامین، پچھڑے اور آدی واسی لوگ مناسب تعلیم اور علاج کے بغیر ہی اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ سرکاری سکول اور ہسپتال ان کی سیوا جس طرح سے کرتے ہیں‘ وہ کس سے چھپا ہوا ہے؟ پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج کرانے یا نجی سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کئی غریب لوگ اپنی زندگی تک گروی رکھ دیتے ہیں۔ اب کالجوں‘ یونیورسٹیوں کی فیسیں بڑھنے کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہو گا کہ غریب، گرامین اور محنت کش طبقوں کے بچے ڈاکٹری کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ وہ اتنی موٹی فیسیں کیسے بھریں گے؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے ڈاکٹروں میں زیادہ تر وہی ہوں گے جن کے ماں باپ اونچی جاتیوں کے ہوں گے‘ مالدار ہوں گے‘ بڑے شہروں سے ہوں گے اور تعلیم یافتہ ہوں گے۔ اس طرح کے طبقوں سے آنے والے نوجوان ڈاکٹروں میں عوامی خدمت اور تحمل والا مزاج کتنا ہو گا‘ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
یوکرین: مودی خود پہل کریں
بھارتیہ وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے دہلی میں ہوئے ایک سیمینار میں کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے مابین بھارت کی ثالثی کی بات بہت غیر پختہ ہے، یعنی ابھی یہ بات کافی کچی ہے۔ یہ بات انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہی ہے ۔ یہ سوال کسی نے اس لیے ان سے پوچھ لیا تھا کہ وہ7‘ 8 نومبر کو دو روزہ دورے پر ماسکو گئے تھے اور اس وقت سرکار اور میڈیا کی جانب سے یہی دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ وہ روس اور یوکرین کی جنگ کو رکوانے اور دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کرنے کے لیے روس جا رہے ہیں۔ ایسا لگ بھی رہا تھا کہ بھارت ایسا ملک ہے جو دونوں ممالک کے مابین ثالثی کر سکتا ہے اور اس جنگ کو رکوا سکتا ہے۔ ایسا لگنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے اس جنگ کے دوران غیر جانبدار رہنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام پلیٹ فارمز پر یوکرین کے بارے میں اگر ووٹنگ ہوئی ہے تو اس نے کسی کے بھی حق میں یا کسی کے بھی خلاف ووٹ نہیں دیا۔ وہ غیر جانبدار رہا اور اس نے کسی ایک طرف جھکنے سے انکار کیا۔ بھارت نے روس کے دبائو میں آ کر یوکرین کی انسانی مدد سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچا اور امریکہ کے دبائو میں آ کر یورپی نیٹو ممالک کی طرح روس کے تیل اور گیس کو ہاتھ نہ لگانے والا قرار نہیں دیا۔ جنگ کے پچھلے 8 مہینوں میں اگر اس نے یوکرین کو اناج اور دوائیاں بھیجی ہیں تو روس سے تیل بھی خریدا ہے۔ اس کے دونوں ملکوں سے تعلقات بنے رہے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے دونوں ملکوں کے نیتائوں سے براہِ راست بات چیت کی ہے۔ نریندر مودی نے صرف یوکرین کے صدر ولودومیر ریلنسکی اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ہی بات نہیں کی بلکہ جنگ رکوانے کے لیے امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے نیتائوں سے بھی درخواست کی۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں صدر پوتن سے کہا تھا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ایک دم صحیح مطالبے کو کوئی کیوں نہیں سن رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو مجھے یہ دکھائی پڑتی ہے کہ اس وقت ساری دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ایک طرف امریکی خیمہ ہے اور دوسری طرف روس‘ چین کا خیمہ ہے۔ یہی صورتحال کوریا جنگ اور سویز نہر کے معاملے پر بھی کئی دہائی پہلے دکھائی پڑی تھی۔ لیکن تب جواہر لال نہرو جیسا تجربہ کار شخص ان معاملوں میں ثالثی کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس وقت بھارت کمزور تھا لیکن آج بھارت اس دور کی نسبت کافی مضبوط ہو چکا ہے۔ اگر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی خود پہل کریں اور اس جنگ کو رکوا دیں تو کوئی حیرانی نہیں کہ روس‘ یوکرین جنگ تو رک ہی جائے‘ عالمی سیاست بھی دو خیموں میں بٹنے سے بچ جائے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا نریندر مودی ایسی پہل کرنا چاہیں گے؟