"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: الیکشن کمشنر کا انتخاب کیسے ہو؟

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور کسی بھی جمہوریت کی جان ہوتی ہے چناؤ میں۔ کسی بھی جمہوریت میں ہونے والے عوامی نمائندوں کے چناؤ غیر جانبدار ہوں‘ یہ اس کی پہلی شرط ہے۔ اس لیے بھارت میں ایک مستقل الیکشن کمیشن بنا ہوا ہے لیکن جب سے الیکشن کمیشن بنا ہے اس کے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنروں کی تقرری مکمل طور پر سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ بھارتیہ سپریم کورٹ کے جسٹس کے این جوزف کی قیادت والے پانچ ججوں کے بینچ نے جو ریمارکس دیے‘ ان میں پورا مدعا بیان کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ''چاہے کانگرس کی قیادت والی یو پی اے کی سرکار رہی ہو یا موجودہ این ڈی اے کی سرکار‘ ایک کے بعد ایک آنے والی سرکاروں نے چنائو کمیشن کی آزادی کو پوری طرح سے تباہ کر دیا ہے‘‘۔ ''1996ء کے بعد سے کسی بھی چیف چناؤ کمشنر کو اس عہدے پر 6سال کی ٹرم پوری نہیں کرنے دی گئی اور چیف چناؤ کمشنر کی سلیکشن سے متعلق آئین کی شق کا سبھی سیاسی پارٹیوں نے اپنے مفاد میں فائدہ اٹھایا ہے جس سے اس کے معیار میں گراوٹ آنے لگی‘‘۔ ''یو پی اے سرکار نے اپنے 10 سالوں میں 6 چیف الیکشن کمشنر لگائے اور موجودہ این ڈی اے سرکار نے آٹھ سالوں میں آٹھ چیف الیکشن کمشنر لگائے ہیں۔ آئین میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے‘‘۔ بینچ نے کہا کہ آئین کی دفعہ 324 چیف چناؤ کمشنر اور چناؤ کمشنروں کی تقرری کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ اس کے لائحہ عمل کے بارے میں نہیں بتاتی جسے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا گیا تھا لیکن پچھلے 72 سالوں میں کسی پارلیمنٹ نے ایسا نہیں کیا جس سے مرکز کی طرف سے اس کا استحصال ہو رہا ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلاتے ہوئے کہا ''شری سیشن نے چناؤ کمیشن کو آزاد بنانے کے لیے کئی فیصلے لیے‘ کمیشن کو ان جیسے شخص کی ضرورت ہے۔ بنا متاثر ہوئے آزاد فیصلہ لینے کے لیے انسان کا کردار اہم ہے۔ ہمیں ایسا ہی شخص چاہئے‘‘۔ بینچ نے مزید کہا ''کسی سے بھی متاثر ہوئے بغیر آزادانہ فیصلہ لینے میں اہل مضبوط کردار والے غیر سیاسی شخص کو اس عہدے پر لگانا یقینی بنایا جائے۔ چناؤ کمشنروں کی تقرری غیر جانبدار اور شفاف ہونی چاہئے‘‘۔ بھارت کے چناؤ کمیشن نے سرکاری پارٹیوں کے خلاف بھی کئی بارکارروائیاں کی ہیں لیکن مانا یہی جاتا ہے کہ ہر سرکار اپنے مند پسند نوکر شاہوں کو ہی اس عہدے پر مقرر کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ لاکھ غیر جانبدار دِکھیں لیکن بنیادی طور پر وہ حکمران جماعت کے مفادات ہی کا تحفظ کرتے رہیں۔ اسی بنیاد پر بھارتیہ سپریم کورٹ میں ارون گوئل کی تازہ ترین تقرری کے خلاف بحث چل رہی ہے۔ گوئل 17نومبر تک مرکز کی بھاجپا سرکار کے سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن انہیں 18نومبر کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دی گئی اور 19نومبر کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔ اس سے پہلے عدالت اس معاملے پر غور کر رہی تھی کہ چناؤ کمشنروں کی تقرری کے عمل میں سدھار کیسے لایا جائے۔ کسی بھی افسر کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل کا نوٹس دینا ہوتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سرکار نے تین دن بھی نہیں لگائے اور گوئل کو چیف الیکشن کمشنر کی کرسی پر لا بٹھایا۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟ اسی سوال کو لے کر سپریم کورٹ نے اب سرکار کی سخت کھنچائی کی ہے۔ عدالت نے سرکار کو حکم دیا ہے کہ گوئل کی اس آناً فاناً تقرری کے راز کو وہ آشکار کرے۔ تقرری کی فائل عدالت کے سامنے پیش کی جائے۔ عدالت کی رائے ہے کہ چناؤ کمشنرز کی تقرری صرف سرکار کے ذریعے ہی نہیں کی جانی چاہئے۔ اپوزیشن جماعت کے نیتا اور چیف جسٹس کو بھی بورڈ میں شامل کیا جانا چاہئے۔ عدالت کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے لیکن عدالت کو فی الحال یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی تقرری کو رد کر سکے۔ حقیقت میں گوئل کی تقرری کو عدالت رد نہیں کرنا چاہتی لیکن وہ دو چیزیں ضرور چاہتی ہے۔ ایک تو یہ کہ تقرری بورڈ میں سدھار ہو اور دوسرا چناؤ کمشنر کم سے کم اپنی 6 سال کی مدت پوری کریں۔پچھلے کچھ وقت کے دوران جس طرح چناؤ کمیشن کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان اٹھے ہیں‘ انہیں دیکھتے ہوئے عدالت کی تجاویز کو جلد سے جلد لاگو کیا جانا چاہئے۔
مہسا امینی کی ہلاکت پر زور پکڑتی تحریک
ایران میں احتجاج کے معاملوں نے طول پکڑ لیا ہے۔ پچھلے دو ماہ سے جاری احتجاج میں اب تک 400 لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں 58 بچے بھی شامل ہیں۔ ایران کے گاؤں اور شہر شہر میں آج کل ویسے ہی پُرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں جیسے اب سے تقریباً 50سال پہلے شہنشاہِ ایران کے خلاف ہوتے تھے۔ اُس کی وجوہات تو کچھ اور تھیں اور اس کی کچھ اور لیکن یہ معاملہ اس لیے بھڑک اٹھا کہ 16ستمبر کو مہساامینی نامی ایک لڑکی کی پولیس کی حراست میں موت ہو گئی تھی۔ اسے کچھ دن پہلے ہی گرفتار کیا گیا تھا اور جیل میں مبینہ طور پر اس کی بری طرح سے پٹائی ہوئی۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے حجاب ٹھیک سے نہیں پہن رکھا تھا۔ اس وجہ سے پہلے بھی کئی ایرانی خواتین کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑا اور جیل بھی بھگتنا پڑی ہے۔ کئی لڑکیوں نے تو ٹی وی چینلوں پر معافی مانگ کراپنی جان بچائی۔ یہ عوامی غصہ شدت والا روپ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ لوگوں نے ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے آبائی گائوں میں واقع ان کے گھر‘ جس کو ایک میوزیم کی شکل دی جا چکی ہے‘ کو بھی نشانہ بنایا اور اسے آگ لگا دی۔ اب لوگ نہ تو پیشوائوں کا احترام کر رہے ہیں اور نہ ہی صدر ابراہیم رئیسی کے سخت انتباہ کی پروا کر رہے ہیں۔ ایرانی فوج کے چیف میجر جنرل حسین سلامی نے پچھلے دنوں ایک بیان میں کہا کہ یہ تحریک مقامی نہیں ہے‘ ایران کے بیشتر عوام پکے مسلم ہیں اور وہ حجاب کو بیحد ضروری مانتے ہیں لیکن امریکہ، اسرائیل اور کچھ مقامی ایران مخالف دیشوں نے ایرانی عوام کو بھڑکا دیا ہے۔ لیکن اصلیت تو یہ ہے کہ بہت کچھ وہاں جبر کے زور پر چل رہا ہے۔ پچھلے 50‘55 سالوں میں مجھے ایران میں کئی بار رہ کر پڑھنے اور پڑھانے کاموقع ملا ہے۔ شہنشاہ کے زمانے میں ایران کی خواتین اپنے لباس اور عمل میں یورپی خواتین سے بھی زیادہ جدید لگتی تھیں لیکن اس وقت بھی میں ایران کے درجنوں گاؤں میں حجاب، نقاب اور برقع پہننے والی خواتین کو دیکھتا تھا۔ اب کافی عرصے سے عوام کا دم گھٹ رہا ہے۔ معاشی پابندیاں بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہسا امینی کا یہ معاملہ اتنا طول پکڑ گیا ہے حالانکہ اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ چند دن قبل فٹ بال کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں ایران کی ٹیم نے اپنے قومی ترانے کو گانے سے منع کر دیا تھا۔ ایرانی لوگ اپنی اس ٹیم کو قومی اعزاز کی علامت مانتے ہیں۔ اسی طرح ایران میں موجود ایک مشہور فٹ بالر کو حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ مہسا امینی کی ہلاکت نے اقتصادی مشکلات میں پھنسے ایران کے کھڑے پانی میں پتھر کا کام کیا ہے۔ کچھ دن پہلے ایران میں جاری مظاہروں کے خلاف تحقیقات کی قرارداد انسانی حقوق کونسل کے جنیوا میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں بھی منظور کی گئی۔ اس میں ایران میں عوامی مظاہروں کو دبانے کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی مشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کے حق میں 25 اور مخالفت میں صرف 6 ووٹ آئے جبکہ 16 رکن ممالک ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ پاکستان اور چین نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا، بھارت، یو اے ای اور قطر ووٹ نہ ڈالنے والے ممالک میں شامل رہے جبکہ امریکہ، برطانیہ، جاپان سمیت دیگر یورپی ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں