26 نومبر کو بھارت میں یومِ آئین کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسی روز تامل ناڈو کے ایک شخص نے یہ کہہ کر خود کشی کر لی کہ مرکزی سرکار تامل لوگوں پر زبردستی ہندی تھوپ رہی ہے۔ خود کشی کی یہ خبر پڑھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی نے ہندی کو دوسروں پر لادنے کی بات تک نہیں کی ہے۔ تامل ناڈو کے سکولوں میں کہیں بھی ہندی لازمی نہیں ہے۔ ہاں‘ گاندھی جی کی پہل پر جو 'جنوبی بھارت ہندی پرچار سبھا‘ بنی تھی وہ آج بھی لوگوں کو ہندی سکھاتی ہے۔ ہزاروں تامل افراد اپنی مرضی سے اس کے امتحانات میں حصہ لیتے ہیں، خودکشی کرنے والا فرد چاہتا تو وہ اس کی بھی مخالفت کر سکتا تھا لیکن مخالفت کا یہ کیا طریقہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی ہی جان لے لے۔ جو غیر ہندی لوگ ہندی نہیں سیکھنا چاہتے‘ انہیں پوری آزادی ہے لیکن وہ براہِ کرم یہ بھی سوچیں کہ ایسا کر کے وہ اپنا کون سا فائدہ کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے آپ کو بہت خبطی نہیں ثابت کر رہے؟ صرف تامل زبان کے ذریعے کیا وہ تامل ناڈو کے باہر کسی سے کوئی لین دین‘ کوئی معاملہ کر سکتے ہیں؟ 10 سے 15 فیصد تامل لوگ انگریزی سیکھ لیتے ہیں‘ وہ تو بھارت کے اندر یا دیگر ملکوں میں نوکریاں حاصل کر لیں گے کیونکہ مرکز کی سبھی سرکاریں ابھی تک غلامی کا طوق یعنی انگریزی کو اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ خود سے پوچھیں کہ بھارت کے عام لوگوں کے ساتھ وہ کس زبان میں بات کریں گے؟ اس میں شک نہیں کہ ہر ایک علاقے کی مقامی زبان اتنی ہی قابلِ احترام ہے جتنی کہ ہندی، لیکن ہر ایک بھارت واسی کو اگر قومی سطح پر کام کرنا ہے تو وہ قومی زبان کو نظر انداز کیسے کر سکتا ہے؟ جب ایچ ڈی دیو گوڑا بھارت کے وزیراعظم بنے تھے‘ تب وہ ہندی کا ایک فقرہ بھی ٹھیک سے بول نہیں پاتے تھے۔ لیکن انہوں نے مجھ سے ہندی سیکھی اور شمالی بھارت کے سبھی پروگراموں میں وہ ہندی میں پڑھ کر ہی اپنی تقریر کرنے لگے تھے۔ ہندی اور دیگر بھارتیہ زبانوں کے بیچ کوئی تضاد نہیں ہے، سیاسی بہکاوے میں آ کر کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانا ٹھیک نہیں ہے۔ غیر ہندی ریاستوں کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ان پر ہندی تھوپنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ان کے بچوں کو ان کی اعلیٰ تعلیم ان کی مادری زبان کے ذریعے دی جانے لگے تو وہ ہندی کو رابطے کی زبان کے طور پر بخوشی قبول کرلیں گے۔ جنوبی بھارت کے نیتا 'ہندی لاؤ اورانگریزی ہٹاؤ‘ کی مخالفت کر سکتے ہیں لیکن 'تامل پڑھاؤ‘ کی مخالفت کس منہ سے کریں گے؟ میں پچھلے 60‘ 70 سالوں سے اس مدعے پر برابر بولتا اور لکھتا رہا ہوں اور اپنے اس نظریے کی خاطر جیل بھی گیا ہوں جبکہ بھارت کی تقریباً سبھی پارٹیوں کے رہنمائوں، حکومتوں اور چیف منسٹرز سے بھی میں درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہندی تھوپنے کے بجائے آپ صرف انگریزی ہٹانے کا کام کریں۔ انگریزی ہٹے گی تو اپنے آپ نیچے سے ہندی نکل آئے گی۔ ہندی کے علاوہ کون سی زبان ایسی ہے جو بھارت کی دو درجن زبانوں کے درمیان پل کا کام کر سکے؟ اب بھارت کے یوم آئین پر وزیر قانون کرن رجیجو نے یہ اعلان کیا ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں کا ترجمہ علاقائی زبانوں میں کرانے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ عدالتوں کی بحث بھی ہندی اور علاقائی زبانوں میں ہی کی جائے تاکہ لوگ ٹھگے نہ جائیں۔وہ جان سکیں کہ عدالت نے کیا فیصلہ کس بنیاد پر دیا ہے اور یہ کہ استغاثہ اور وکیلِ صفائی نے کیا بحث کی ہے۔ یہاں تو لوگوں کو عمر بھر کے لیے قید کی سزا ہو جاتی ہے مگر انہیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ انہیں کس جرم میں سزا دی گئی ہے اور یہ کہ ان کے وکیل نے ان کے دفاع میں کیا کہا۔ دوسری طرف ہندی بھاشا بولنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ کم سے کم ایک مقامی بھارتیہ زبان کا بول چال جتنا علم ضرور حاصل کریں تاکہ غیر ہندی افراد کو لگے کہ ہم ان کی زبانوں کا بھی پورا احترام کرتے ہیں۔ بھارت سرکار کو چاہیے کہ نہرو دور کے تین زبانوں کے فارمولے کے بجائے وہ اب دو زبانوں کا فارمولا لاگو کرے اور اگر کوئی غیر ملکی زبان پڑھنا چاہے تو اسے مختصر مدت کی تربیت کی بھی سہولت دی جائے۔
کورونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے
چین کے حالات آج کل عجیب منظر پیش کر رہے ہیں۔ چین میں آج کل کئی جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں اور حکومت کے خلاف ہونے والے کچھ مظاہروں میں شدت بھی آئی ہے۔ کچھ افراد چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہزاروں مظاہرین نے شنگھائی میں سڑکوں پر مظاہروں میں شرکت کی۔ کچھ طلبہ نے بیجنگ اور نینجنگ میں اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں مظاہرے کیے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مظاہرہ شمال مغربی شہر ارمچی میں ہوا جہاں ایک عمارت میں آتشزدگی کے باعث دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پچھلے 33 سالوں میں اتنے زبردست مظاہرے چین میں نہیں ہوئے۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب یہ مانا جارہاہے کہ ماؤزے تنگ کے بعد موجودہ صدر شی جن پنگ سب سے زیادہ مقبول اور طاقتور حکمران ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہیں چین کے صدارتی عہدے کے لیے تیسری بار منتخب کیا گیا ہے لیکن تقریباً 10شہروں کی یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر حکومت اور حکمران پارٹی کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سارے اخبارات اور ٹی وی چینل یہ مان کر چل رہے ہیں کہ یہ مظاہرے کورونا کی عالمی وبا کے دوران جاری پابندیوں کے خلاف ہو رہے ہیں۔ عبوری طور پر یہ بات صحیح ہے۔ چین میں کورونا کی شروعات ہوئی اوروہ ساری دنیا میں پھیل گیا لیکن دنیا سے تو وہ تقریباً رخصت ہو گیا ہے لیکن چین میں اس کا قہر ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق 40ہزار لوگ اب بھی چین میں اس وبا سے متاثر پائے گئے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے دو‘ ڈھائی سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ جب سے کورونا مہاماری شروع ہوئی ہے‘ چین میں اس تعداد میں لوگ اس وبا سے متاثر نہیں ہوئے۔ چینی سرکار نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی شہروں میں دفتروں، بازاروں، کارخانوں، سکولوں اور کالجوں سمیت تقریباً ہر جگہ سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے، پیداوار گھٹی ہے اور لوگوں میں ذہنی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ اس لیے لوگ ان پابندیوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور ان پابندیوں کو ہٹانے کی مانگ کررہے ہیں لیکن وہ اب اس سے بھی زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں۔ وہ نعرے لگا رہے ہیں حکومت کے خلاف۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ وجہ ہے چینی لوگوں کا تانا شاہی سے تنگ ہونا۔ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے خبردار کیا ہے کہ چین نے اب برطانوی اقدار اور مفادات کے لیے ایک نظاماتی چیلنج‘ کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کو چین کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بدلنا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے مظاہروں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن بدامنی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو جمع ہونے اور پُرامن طریقے سے ان پالیسیوں، قوانین یا حکم ناموں کے خلاف احتجاج کرنے کا حق دیا جانا چاہیے جن سے انہیں مسئلہ ہے۔ ان مظاہروں سے متعلق چینی سرکار کا کہنا ہے کہ اگر وہ تالا بندی کھول دے گی تو 80 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 50کروڑ لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کئی تجزیہ کاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ پالیسیوں میں نرمی مزید تباہی کا باعث بن سکتی ہے اور چین کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مغلوب کر سکتی ہے۔ پچھلے ماہ صدر شی نے اپنی زیرو کووڈ حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پابندیوں نے ہی لوگوں کو محفوظ کیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی زیرو کووڈ پالیسی کی بدولت ہی140 کروڑ آبادی والے ملک میں ہلاکتوں کو قابو میں رکھا گیا۔ اگر اس وبا نے خوفناک شکل اختیار کر لی تو لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار نے اپنے اداریے میں بھی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ زیرو کووڈ پالیسی پر عمل درآمد کریں اور یہ کہ فتح ہزار مشکلات کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ آئے گی۔ دونوں فریقوں کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ تحریک بے قابو ہوگئی تو کوئی تعجب نہیں کہ اس کا خمیازہ مدتوں تک بھگتنا پڑے۔