پچھلے دنوں دہلی سرکار کے ایک وزیر راجندر پال گوتم کو اس لیے استعفیٰ دینا پڑگیا کہ اس نے امبیڈکر بھون کی ایک مذہب تبدیلی کی تقریب میں حصہ لیا تھا۔ اس تقریب میں نچلی ذات کے بیشتر ہندوؤں نے بدھ مت قبول کیا تھا۔ اور امبیڈکر نے 1956ء میں بدھ مت قبول کرتے ہوئے جو عہد اپنے پیروکاروں سے کروایا تھا‘ اسے بھی اس تقریب میں دہرایا گیا۔ اس عہد میں 22 شقیں شامل تھیں۔ جن میں سے پہلی پانچ شقیں ایسی تھیں جن میں ہندوؤں کے مختلف دیوتاؤں کی پوجا کے خلاف عزم کیا گیا تھا۔ بھاجپا کے کچھ رہنماؤں نے اسی بات کو مسئلہ بناتے ہوئے کیجر یوال کی 'عاپ‘ پارٹی پر ہلہ بول دیا ہے۔ اب اس ڈر سے کہ کہیں عاپ پارٹی کے ہندو ووٹوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے‘ کیجریوال سرکار کے اُسی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے وزیر راجندر پال گوتم نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ یہ شرم کی بات بھاجپا اور 'عاپ‘ دونوں کے لیے ہے۔ بھاجپا کے لیے اس لیے ہے کہ آج کل وزیراعظم نریندر مودی امبیڈکر کی جتنی زیادہ تعریفیں کرتے پھر رہے ہیں‘ اتنی توعاپ پارٹی کے کسی رہنما نے بھی نہیں کی ہوں گی۔ اگراس عہد سے آپ کو اتنی نفرت ہے تو ملک میں بھاجپا کے لوگ امبیڈکر مخالف مہم کیوں نہیں چلاتے؟ امبیڈکر کی مورتیوں پر وہ مالا کیوں چڑھاتے ہیں؟ امبیڈکر کی کتابوں پر وہ پابندی کیوں نہیں لگاتے؟ امبیڈکر ہی نہیں‘ ملک کے دیگر مہاپرشوں کی بھی آپ مذمت کیوں نہیں کرتے؟ وہ بھی ہندوؤں کے بیشتر دیوتائوں کو بھگوان نہیں مانتے ہیں۔ بدھ اور مہاویر تو بھگوان کی کسی کو نئی زندگی دینے کی طاقت سے ہی انکار کرتے ہیں۔ دراصل وہ سب ہندو بھگوانوں کی نفی کرتے ہیں۔ کیا یہ سب ہندو مخالف ہیں ؟ کیا یہ سب بھارت کے دشمن ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ ان نچلی ذات والے بدھوں‘ سکھوں اور عیسائیوں کو کیا سوچ کرریزرویشن دے رہے ہیں؟کیا یہ ڈھونگ نہیں ہے؟ بھاجپا سے بھی زیادہ ڈرپوک نکلی عام آدمی پارٹی!اس نے اپنے وزیر کو استعفیٰ کیوں دینے دیا؟ وہ ڈٹی کیوں نہیں ؟ اس نے نظریاتی آزادی کے لیے جنگ کیوں نہیں چھیڑی؟ کیونکہ بھاجپا‘ کانگرس اور دیگر پارٹیوں کی طرح وہ بھی ووٹ کی غلام ہے۔بھارتی پارٹیوں کو اگر سچ اور ووٹ میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو ان کی ترجیح ووٹ ہی رہے گی۔ 2020ء کے الیکشن میں اقلیتوں نے عام آدمی پارٹی کو جھولیاں بھر بھر کر اس لیے ووٹ دیے تھے کہ وہ اُن کے مسائل کو حل کرے گی اور مشکل وقت میں اُن کا ساتھ دے گی‘ لیکن آج عوام یہ سوال کرر ہے ہیں کہ اس اقدام کے بعد بی جے پی اور عام آدمی پارٹی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ اس کا جواب آپ کو نہیں ملے گا۔گزشتہ سالوں میں اروند کیجریوال کے اقلیتوں سے روا رکھے گئے رویوں سے ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ اس معاملے میں بی جے پی سے ایک قدم آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص مسلم معاملات پر مسلسل خاموشی یہ بتاتی ہے کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم کی حیثیت سے سیاست کر رہے ہیں۔ 2020ء میں تین دن تک شمال مشرقی دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوتے رہے لیکن دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اگر وہ فساد زدہ علاقوں میں جاکر صبر و تحمل کا پیغام دیتے تو لوگ اُن کی بات ضرور سنتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو ختم کرنے کے لیے اگر کوئی محنت کر رہا ہے تو وہ صرف راہل گاندھی ہے۔ وہ روزانہ 25 کلو میڑ پیدل مارچ کررہا ہے۔ وہ اس لیے کہ جب نفرت ختم ہوگی تو بھارت میں خوشحالی آئے گی اور بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔لیکن جس عام آدمی پارٹی کو اقلیتوں نے ووٹ دیا‘ اُن کی طرف سے بدلے میں اقلیتوں کو صرف خاموشی نصیب ہوئی‘ جس کے سبب اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ راجندر پال گوتم کے استعفے کے بعد اب اگلے دہلی ایم سی ڈی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو اقلیتوں کا ووٹ ملنا بہت مشکل ہے۔
غیر ضروری فکرمندی
بھارت‘ چین اور امریکہ کے درمیان آج کل جو کہی سنی چل رہی ہے وہ بہت مزیدار ہے۔ اس کے کئی طرح کے مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ چینی سرکار کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اترا کھنڈ میں بھارت‘ چین سرحد پر امریکی اور بھارتی افواج کی جو مشقیں چل رہی ہیں‘ وہ بالکل غیر مناسب ہیں۔ یہ 1993ء اور 1996ء کے بھارت‘ چین سمجھوتوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مئی 2020ء میں گلوان گھاٹی میں جو مڈبھیڑ ہوئی وہ بھی مذکورہ سمجھوتوں کی خلاف ورزی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ کی یہ جنگی مشقیں چین مخالف ہتھکنڈا نہیں ہیں۔ دونوں ممالک اس طرح کی کئی جنگی مشقیں پہلے بھی کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ یہ بھارت کا چین کو دھمکانے کا کوئی پینترا بھی نہیں ہے۔ یہ مشقیں تو درحقیقت ہمالیائی علاقوں میں اچانک آنے والے زلزلے‘ سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ اور زمین پھٹنے جیسے حادثات کا سامنا کرنے کی تیاری کی مشقیں ہیں۔ قدرتی آفات کے شکار افراد کی مدد کے لیے ہسپتال فوراً کیسے کھڑے کیے جائیں‘ ہیلی پیڈ کیسے بنائے جائیں‘ پل اور سڑکیں آناً فاناً کیسے تیار کی جائیں اور زخمیوں کی زندگی کی حفاظت کیسے کی جائے۔ دونوں افواج کی یہ مشقیں ان سب انتظامات کو قلیل وقت میں یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ چین کی سرحد سے تقریباً 100میل دور بھارت کی سرحد میں ہو رہا ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ چین ان مشقوں پر اس لیے نالاں ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات آج کل کافی تلخی بھرے ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت چینی ترجمان کے اس قول سے بھی سچ ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ کی کوشش یہی ہے کہ بھارت اور چین کے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ چین نہیں چاہتا کہ اس کے پڑوسی بھارت کے ساتھ اس کے رشتے خراب ہوں۔ اگر سچ مچ ایسا ہے تو چینی حکمرانوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ بحرہند کے خطے میں چین اپنے جنگی جہاز کیوں اڑائے رکھتا ہے؟ وہ سری لنکا‘ مالدیپ‘ میانمار اور نیپال میں بھی اپنا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ چین کا 2021ء کا فوجی بجٹ جو کہ 209 بلین ڈالر کا تھا وہ بھارت‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور تائیوان کے کل بجٹوں سے بھی زیادہ تھا؟ چین کا ایک طرف یہ کہنا کہ وہ بھارت سے اپنے اچھے تعلقات بنانا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنے امریکہ مخالف رویے کو درمیان میں گھسیٹ لاتا ہے۔ بھارت کی پالیسی تو یہ ہے کہ وہ امریکہ اور چین اور امریکہ اور روس کے جھگڑوں میں غیر جانبدار بنا رہتا ہے۔ نہ تو وہ چین مخالف اور نہ ہی وہ روس مخالف بیانات کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ سے اس کے دوطرفہ تعلقات خالص اپنے دم پر ہیں۔ اسی لیے چین کا تشویش مند ہونا غیر ضروری ہے۔