بھارت میں کئی لوگ اس پر شادیانے بجا رہے ہیں کہ یکم دسمبر سے بھارت جی 20 (بیس دیشوں کے گروپ کی) تنظیم کا ایک سال کے لیے صدر بن گیا ہے۔ سلامتی کونسل کا بھی وہ اس ماہ کے لیے صدر ہے۔ یقینا بھارتیہ خارجہ پالیسی کے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے لیکن یہ ایک بڑی چنوتی بھی ہے۔ سلامتی کونسل اس وقت پچھلے کئی ماہ سے یوکرین کے سوال پر آپس میں منقسم ہے۔ اس کی میٹنگوں میں سرد جنگ کے دور جیسا گرما گرم ماحول دکھائی پڑتا ہے۔ تقریباً تمام اہم تجاویز آج کل 'ویٹو‘ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر یوکرین کے سوال پر۔ یوکرین کا سوال اس بار جی 20 کی بالی میں ہوئی میٹنگ میں بھی چھایا رہا۔ ایک طرف امریکہ اور یورپی ممالک تھے اور دوسری طرف روس اور چین۔ ان تمام عالمی نیتاؤں نے ایک دوسرے پر لفطی حملہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن پھر بھی ایک متفقہ اعلامیہ بالی اجلاس کے بعد جاری ہوا تھا۔ اس کامیابی کا کریڈٹ بھارت کو نہیں ملا تھا لیکن جی 20 نے بھارت والا درمیانی راستہ ہی اپنایا تھا۔ بھارت اس سارے قضیے میں شروع ہی سے غیر جانبدار رہا ہے۔ نہ تو وہ روس کے ساتھ گیا ہے اور نہ ہی امریکہ کے! اس نے امریکی مخالفت کے باوجود روس سے اضافی تیل خریدنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جبکہ یورپی اقوام نے ہر روسی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے یہ بھی کہا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے۔ بھارت کے اس بیان سے امریکہ بھی خوش ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر بحر الکاہل اور بحیرہ ہند میں چوگٹا (کواڈ) چلا رہا ہے اور مغربی ایشیا میں بھی اس نے اپنے نئے چوگٹے میں بھارت کو جوڑ رکھا ہے۔ جی20 کی صدارت کرتے ہوئے بھارت کو پانچوں سپر پاورز کو تو پٹائے رکھنا ہی ہوگا اس کے ساتھ ساتھ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی اقتصادی ترقی کا بھی راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ جی 20 کی صدارت ملتے ہی بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کے نام سے اخباروں میں جو تحریر چھپی ہے‘ اس میں ہمارے نوکرشاہوں نے جی 20 کے گھسے پٹے مدعوں کو ہی دہرایا ہے۔ ان میں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور مل سکتی ہے لیکن یہ کام توکسی بھی قوم کی سربراہی میں ہو سکتے ہیں۔ بھارت کو یہ جو موقع ملا ہے‘ اس کا استعمال اگر بنیادی اور ہندوستانی نقطہ نظر سے کیا جاسکے تو ہی کوئی نمایاں تبدیلی آ سکتی ہے اور بھارت کو ملی یہ صدارت یاد رکھی جا سکتی ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر جی 20 ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی عدم پھیلائو، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے عالمگیر مدعوں پر کچھ ٹھوس فیصلے کر سکے تو ہی بھارت کو ملی یہ صدارت تاریخی ثابت ہو سکتی ہے۔ ہنس کی چال چلتے چلتے ہم اپنی چال ہی نہ بھول جائیں۔ مغربی اقوام کے نقلچی بن کر اس بڑی تنظیم کے ذریعے ایسا کون سا چمتکار بھارت کر سکتا ہے جو اس سے قبل والے نہیں دکھا سکے؟ کیا ہم نے بھارت میں کچھ ایسا کرکے دکھایا ہے جو کیپٹل ازم اور سوشلزم کا متبادل بن سکے؟ بھارت اور دنیا میں تیزی سے پھیلنے والی معاشی عدم مساوات، مذہبی منافرت، ایٹمی عدم تحفظ، بے حد صارفیت، ماحولیاتی نقصانات وغیرہ جیسے مدعوں پر بھارت کے پاس کیا کوئی ٹھوس آپشنز ہیں؟ اگر ایسے کوئی آپشنز بھارت دے سکے، کچھ سخت فیصلے کر سکے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی کرا سکے تو ہی وہ ساری دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بن سکتا ہے وگرنہ بھارت کو ملی یہ اہم صدارتیں تاریخ کے رجسٹر میں ایک روایتی صفحے کا اضافہ کر کے ختم ہو جائیں گی۔
سب کے لیے ایک جیسا قانون کیسے؟
بھاجپا کئی سالوں سے مسلسل وعدہ کر رہی ہے کہ وہ پورے ملک میں سب کے لیے سول قانون ایک جیسا بنائے گی۔ وہ یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی بات اپنے چناوی منشوروں میں برابر کرتی رہی ہے۔ ذاتی معاملوں میں یکساں قانون کا مطلب یہی ہے کہ شادی، بیاہ، طلاق، وراثت اور جہیز وغیرہ کے قوانین تمام مذاہب، ذاتوں اور خطوں میں یکساں ہوں۔ بھارت کی دِقت یہ ہے کہ یہاں پر الگ الگ مذاہب میں ذاتی قوانین الگ الگ تو ہیں ہی‘ مختلف ذاتوں اور خطوں میں الگ الگ سے ہٹ کر‘ متضاد روایات بھی پائی جاتی ہیں؛ جیسے ہندو میرج ایکٹ کے مطابق ہندوئوں میں ایک شادی یا ایک بیوی کو ہی قانونی مانا جاتا ہے لیکن اسلامی شریعت کے مطابق ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی آزادی ہے۔ بھارت کے کچھ شمالی حصے میں ایک عورت کے بیک وقت کئی شوہر ہو سکتے ہیں۔ بھارت کے جنوبی صوبوں میں ماما‘بھانجی کی شادی کو بھی درست مانا جاتا ہے۔ آدی واس علاقوں میں ''بہو پتنی پر تھا‘‘ ابھی بھی رائج ہے جس میں بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کی جاتی ہیں۔ اسی طرح سے شادی بیاہ اور طلاق سے متعلق روایات بھی الگ الگ ہیں۔ یہی بات آبائی جائیداد کی وراثت پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ان سوالوں پر آئینی ایوانوں میں کافی بحث بھی ہوئی اور پورے ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ کی بات کہی گئی لیکن آج تک کسی مرکزی یا صوبائی سرکار کی ہمت نہیں پڑی کہ سب کے لیے ایک جیسا ذاتی قانون بنا دے۔ اب اترا پردیش، گجرات، آسام اور اتراکھنڈ کی سرکاروں کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش کی سرکار بھی یکساں ضابطۂ اخلاق نافذ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ویسے بھارت میں غیر سامی مذاہب یعنی ہندو، جین، سکھ، بودھ وغیرہ پر تو یہ پہلے سے نافذ ہے لیکن عیسائی، مسلم، یہودی وغیرہ اور دوسرے ممالک میں پیدا ہونے والے دیگر دھرموں کے لوگ اپنے مذہبی قوانین کو ہی نافذ کرنے پر بضد ہیں۔ یکساں سول کوڈ کو وہ بھاجپا کے ''ہندو کرن‘‘ یعنی سب کو ہندو بنانے کے نعرے کی تعمیل مانتے ہیں۔ کچھ دھرموں کے حوالے سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ دھارمک قوانین کی اپنے علاقے کے حوالے سے تشریح کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں۔ عرب ملکوں میں رہنے والے پیدائشی یہودیوں اور یورپ کے یہودیوں میں سب سے بڑا فرق ان کی ٹوپی کا انداز ہے اور دونوں ہی فرقے اپنے اپنے طریقے کو درست کہتے اور اس پر جمے ہوئے ہیں۔ اسی طرح نیپال کے ہندو اور بھارت کے ہندوئوں میں کئی چیزوں پر اختلاف ہے۔ ادھر افغانستان میں آج کل جو پابندیاں دھرم کے نام پر لگائی جا رہی ہیں وہ باقی کسی مسلم ملک میں نہیں ملتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے مجھے یہی پوچھنا ہے کہ آپ اپنے دھرم پر چلنا چاہتے ہیں یا دوسروں کی نقل اور روایات کو دھرم کا نام دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ بھاجپا کی حکومت والی جو جو ریاستی سرکاریں یہ اعلان کر رہی ہیں کہ وہ یونیفارم سول کوڈ اپنے اپنے راجیوں میں نافذ کرنے والی ہیں‘ وہاں سبھی جگہ چنائو ہو رہے ہیں۔ جہاں جہاں چناؤ ہوتے ہیں‘ وہیں پر اس طرح کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ کیوں کیے جاتے ہیں؟ کیونکہ ہندوؤں کے تھوک ووٹ بٹورنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور عیسائیوں‘ یہودیوں‘ مسلمانوں کو بھی کہا جاتا ہے کہ تمہیں فرسودہ قوانین سے ہم نجات دلائیں گے۔ یہ بات سننے میں بہت اچھی لگتی ہے، اتنی کہ کوئی پارٹی یا نیتا اس کی مخالفت نہیں کر پاتا لیکن پھر بھی کسی سرکار کی آج تک ہمت نہیں پڑی کہ وہ بھارت کے تمام شہریوں کے لیے ذاتی اور خاندانی معاملات میں ایک طرح کا قانون بنا سکے؟ وجہ وہی ہے کہ سبھی ہندو، سبھی مسلمان، سبھی سکھ، سارے آدی واسی اور سارے عیسائی شادی بیاہ اور ذاتی جائیداد کے معاملوں میں اپنی اپنی‘ الگ الگ روایات کو مانتے ہیں۔ جب ایک مذہب کے فرقوں میں آپس ہی میں اتحاد نہیں ہے تو تمام طبقوں کے لیے بالکل ایک جیسا قانون کیسے بن سکتا ہے۔ اسی لیے ہر سرکار مشکل میں پڑی رہتی ہے کہ یکساں سول کوڈ نافذ کرے یا نہ کرے اور بھاجپا کے لیے تو یہ بڑا دردِ سر ہے کیونکہ یہ اس کا بنیادی انتخابی مدعا رہا ہے۔ بھاجپا سرکار نے 2016ء میں لاء کمیشن سے بھی اس مدعے پر رائے مانگی تھی لیکن اس کی رائے یہی تھی کہ بالکل ایک جیسا قانون سب پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ ڈریس کوڈ کو لے کر تو قانون پر عمل کیا جا سکتا ہے مگر کسی پر بھی اپنی مذہبی پہچان ترک کرنے یا چھپانے کی زور زبردستی نہیں کی جا سکتی۔