نیپال ہمالیائی سلسلے کے ساتھ واقع متعدد خوبصورت وادیوں‘ بے شمار ٹھنڈی آبشاروں‘ ہزاروں ندی نالوں اور بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں پر مشتمل ایک ایسا ملک ہے جس کے جغرافیائی محلِ وقوع کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے اور بھارت کے ساتھ اس کی 800 کلو میٹر لمبی سرحد لگتی ہے۔بھارت کے اس ہمسایہ ملک میں گزشتہ مہینے کے آخری عشرے میں پارلیمنٹ اور سات صوبائی اسمبلیوں میں نئے نمائندوں کے انتخاب کے لیے انتخابات منعقد ہوئے‘ جن میں تقریباً ایک کروڑ اسی لاکھ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ نیپال میں ہونے والے ان عام انتخابات سے قبل جن پارٹیوں نے اتحادی حکومت بنائی ہوئی تھی وہ پھر سے جیت گئی ہیں۔ انہیں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کے ذریعے 165میں سے 90سیٹیں ملی ہیں۔ نیپال میں مخلوط انتخابی نظام اپنایا گیا تھا جس کے تحت وفاقی پارلیمنٹ کے کل 275 اراکین میں سے 60فیصد کا انتخاب فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کے ذریعے کیا گیا اور باقی 40فیصد اراکین کا انتخاب متناسب انتخابی نظام کے ذریعے کیا گیا۔ ایوانِ زیریں کی 165 نشستوں کے لیے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کے تحت 2412 امیدوار اور متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت 110 نشستوں کے لیے 2199 امیدوارمیدان میں اُترے تھے۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کے تحت پرانے حکمران اتحاد کو 165 میں سے 90 نشستیں حاصل ہونے کے بعد اب نیپالی کانگرس کے رہنما شیر بہادر دیوبا پھر سے نیپال کے وزیراعظم بن جائیں گے حالانکہ اُن کی پارٹی کو 57سیٹیں ملی ہیں اور پرچنڈ کی کمیونسٹ پارٹی کو صرف 18 سیٹیں ملی ہیں لیکن جہاں تک ان پارٹیوں کو پڑنے والے ووٹوں کا سوال ہے تو پرچنڈ کی پارٹی کو 27 لاکھ 91 ہزار 734 ووٹ ملے ہیں اور نیپالی کانگرس کو 26لاکھ 66ہزار 262 ووٹ ہی مل پائے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی کہ اب حکومت میں کمیونسٹ پارٹی کا اثر و رسوخ ماضی کی نسبت زیادہ رہے گا۔ اب دیوبا کی حکومت میں کمیونسٹ پارٹی کا کردار بہت اہم ہوگا۔ دیوبا دوبارہ وزیراعظم تو بن جائیں گے لیکن انہیں اب ان کمیونسٹوں کی بات پر زیادہ دھیان دینا ہوگا جو کبھی نیپالی کانگرس کے کٹر مخالف رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی بغاوت کے دوران نیپالی کانگرس کے کئی کارکنان کا بے دردی سے قتل کیا تھا۔ یہ جنوبی ایشیا کی سیاسی مجبوری ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے کٹر مخالفین بھی گلے ملنے لگتے ہیں۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ نیپال کے سابق وزیراعظم کے پی اولی کی کمیونسٹ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دیوبا سرکار کی ناک میں دم کیے رکھے گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اولی کے اتحاد سے نکل کر کچھ پارٹیاں ایم پی دیوبا کی حمایت کرنے لگیں کیونکہ انہیں پتا ہے کہ اولی نے مسلسل بھارت مخالف جھنڈا اٹھائے رکھا تھا جبکہ بھارت کے بغیر نیپال کا گزارہ مشکل ہے۔ اولی نے قبائلیوں پر اتنے مظالم کیے تھے کہ بھارت کو ان کے خلاف سخت اقدامات کرنا پڑے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بھارت سے متصل سرحد کے لپولیکھ علاقے پر نیپال کا دعویٰ بھی کیا تھا جس پر بھارت سرکار بہت نالاں ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ الیکشن میں اولی کی پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔ جہاں تک دیوبا کا تعلق ہے‘ پرچنڈ اور اولی ان دونوں کے مقابلے زیادہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاسی رہنما ہیں۔ ان تینوں نیپالی وزرائے اعظم کے ساتھ میں کئی بار کھانا کھا چکا ہوں اور اُن کے ساتھ نیپال کے حالات پر گفتگو بھی کر چکا ہوں۔ دیوبا ابھی کچھ ماہ پہلے بھارت کے دورے پر بھی آئے تھے۔ اُن کی پالیسی یہ ہے کہ وہ چین سے اپنے تعلقات خراب کیے بغیر بھارت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت بھی نیپالی کانگرس کی‘ جس کے کوئرالہ وغیرہ جیسے سیاسی رہنما ہمیشہ بھارت کے حامی رہے ہیں‘ پوری مدد کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر دیوبا اور پرچنڈ کے درمیان ہم آہنگی قائم رہی تو یہ حکومت اپنے پانچ سال بھی پورے کر سکتی ہے۔ یہ نیپالی جمہوریت کی پہچان بن چکی ہے کہ وہاں حکومتیں پلک جھپکتے ہی تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن نیپالی جمہوریت کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ وہاں نہ تو راج شاہی کا بو ل بالا ہوپاتا ہے اور نہ ہی وہاں کبھی فوج شاہی کا جھنڈابلند ہوتا ہے۔ نیپال کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کو ملک کے جمہوری سفر میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جارہا ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ اس سے نیپال میں سیاسی استحکام کے دور کا آغاز ہوگا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا کیونکہ گزشتہ کافی عرصہ نیپال سخت انتشار اور سیاسی عدمِ استحکام کا شکار رہا ہے۔اس لیے موجودہ انتخابات‘ جنہیں نیپال میں ایک مستحکم حکومت اور جمہوری استحکام کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے‘ کے بعد اُمید کی جا رہی ہے کہ نئی حکومت نیپال کو ایک مستحکم انتظامیہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی اور اس مقصد کے لیے نیپال کو بھارت جیسے ہمسایہ ملک کی طرف سے جس امداد اور تعاون کی ضرورت ہوگی اُسے وہ فراہم کیا جائے گا۔
بھارت میں مذہبی آزادی؟
امریکہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا کے 14 ممالک میں مذہبی آزادی کو خطرہ ہے۔ بھارت کوان 14دیشوں میں شامل نہیں کیا۔ کانگرسی اور کمیونسٹ لوگ اسے امریکہ کی لاپروائی کہیں گے یا وہ یہ مان کرچلیں گے کہ امریکہ نے ان ملکوں کے ساتھ بھارت کا نام اس لیے نہیں جوڑا ہے کہ وہ اسے چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔اس رپورٹ میں روس‘ چین کے ناموں پر خاص زور دیا گیا ہے۔ اگر امریکہ نے بھارت کو چین کے خلاف ڈٹائے رکھنے کی خواہش کی وجہ سے ہی اس فہرست میں بھارت کا نام نہیں جوڑا گیا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اس میں سعودی عرب کا نام کیوں جوڑا ہے؟ سعودی عرب سے تو امریکہ کے تعلقات کافی قریبی ہیں۔ جہاں تک روس اور چین کا سوال ہے ان دونوں دیشوں سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن وہاں مذہبی آزادی کے دعووں پر سچ میں عمل نہیں ہو رہاہے۔ 'جہوواز وٹنیس‘ فرقے کے لوگوں پر روس میں سخت پابندی ہے۔ انہیں سخت سزائیں بھی ملتی رہتی ہیں جبکہ روس اپنے آپ کو کمیونسٹ نہیں سیکولر ملک کہتا ہے۔ چین بھی مذہبی آزادی کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس نے بودھ‘ تاؤ‘ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی مذاہب کو اجازت دے رکھی ہے لیکن تبتی بودھوں کو وہاں ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔جہاں تک ایران کا سوال ہے وہاں کٹر نظریات کا بول بولا ہے۔ ایران میں بہائی اور پارسی لوگوں کی زندگی محال ہے۔ سرکاریں توان کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہیں لیکن سماج اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں تو متعدد نرم اور سخت مذہبی پابندیاں جاری ہیں۔ دنیا کے تقریباً 40‘45 ممالک ایسے ہیں جن میں مذہبی آزادی کی صورتحال مثالی نہیں۔ بھارت میں بھی یہی حالات ہیں اور اس کا خوفناک غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ہمارے نیتا مذہب اور دھرم کے نام پر ہمیشہ تھوک ووٹ کباڑنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ لالچ اور خوف کی بنیاد پر بھارت میں بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کا دھندہ بھی چلاہوا ہے۔ اس چھوٹ کی سب سے بڑی وجہ ہندو مذہب ہے جس میں سینکڑوں باہمی متضاد فرقے ہیں۔ایک ہی گھر میں کئی فرقوں کو ماننے والے لوگ ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں۔اس لئے بھارت کو مذکورہ فہرست میں شامل نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے؛ تاہم یہ مان کر چلنا ہو گا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کی سرکار میں بعض اقلیتوں کیلئے حالات خوفناک ہو گئے ہیں۔