گجرات‘ دہلی اور ہماچل کے ریاستی انتخابات کے نتائج کا سبق کیا ہے؟ دہلی اور ہماچل میں بھاجپا ہار گئی ہے اور گجرات میں اس کو تاریخی جیت نصیب ہوئی ہے۔ ہماری اس چناوی چرچا کا مرکز بھارت کی تین بڑی اور مرکزی پارٹیاں ہیں؛ بی جے پی (بھاجپا)‘ کانگرس اورعام آدمی پارٹی (عاپ)۔ان تینوں پارٹیوں کے ہاتھ ایک‘ ایک ریاست آ گئی ہے۔ دہلی کا چناؤ تو لوکل تھا لیکن اس کی اہمیت ریاستی انتخاب جیسی ہی ہے۔ دہلی کا یہ مقامی چناؤ ریاستی الیکشن سے کسی طور کم نہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کو بھاجپا کے مقابلے زیادہ سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن اس کی جیت کو چمتکاری نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہاں پر بھاجپا کے ووٹ پچھلے چناؤ کے مقابلے میں بڑھے ہیں اور 'عاپ‘ کے گھٹے ہیں۔ 'عاپ‘ کے منتریوں پر لگے الزامات نے اس کے آسمانی اداروں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بھاجپا نے اگر مثبت پرچار کیا ہوتا اور متبادل منصوبے پیش کیے ہوتے تو اسے شاید زیادہ سیٹیں مل جاتیں۔عام آدمی پارٹی نے 250میں سے 134وارڈز میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 2017ء میں اسے 272 میں سے صرف 48 وارڈز میں کامیابی ملی تھی۔ اسی طرح بھاجپا نے 104 وارڈز میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 2017ء کے مقامی چنائو میں اس نے دہلی میں 181 وارڈز میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بھاجپا نے دہلی کی تینوں مقامی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر ساری اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار لانے کی کوشش اس لیے کی تھی کہ اروند کجریوال کے ٹکر میں وہ مضبوط اور متفقہ امیدواروں کو کھڑا کر سکے۔ بھاجپا کی یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ ادھر کانگرس کا پتّا دہلی اور گجرات‘ دونوں جگہوں پر صاف ہو گیا ہے۔ گجرات میں کانگرس دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی یہ تو لگ رہا تھا لیکن اس کی حالت اتنی پتلی ہو جائے گی‘ اس کا شاید بھاجپا کو بھی اندازہ نہیں تھا۔بھاجپا کے پاس گجرات میں نہ تو کوئی بڑاچہرہ تھا اور نہ ہی راہل گاندھی وغیرہ نے انتخابی مہم میں سرگرمی دکھائی۔ سب سے زیادہ دھکا لگا ہے عام آدمی پارٹی کو۔گجرات میں عام آدمی پارٹی نے بڑھ چڑھ کر کیاکیا دعوے نہیں کیے تھے لیکن مودی اور امیت شاہ نے گجرات کو اپنی عزت کا سوال بنا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ بھارت کے کسی وزیراعظم نے اپنی آبائی ریاست کے چناؤ میں اتنا پیسہ بہایا ہو، جتنا مودی نے گجرات میں بہایا ہے۔ البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ عام آدمی پارٹی کی گجرات میں الیکشن کمپین اتنی زبردست رہی کہ اس نے بھاجپا کے پسینے چھڑا دیے تھے۔ گجرات میں بھاجپا کو مسلسل ساتویں دفعہ کامیابی ملی ہے۔ اس نے 182سیٹوں میں سے 156 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی پر خود بھاجپا بھی حیران نظر آتی ہے۔ مودی نے گجرات کا دھنے واد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گجرات نے تو کمال کر دیا ہے۔ کسی دور میں پورے بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھی جانے والی کانگرس محض 17 سیٹیں جیت سکی ہے۔ پچھلے انتخابات میں کانگرس نے گجرات سے 77 سیٹیں جیتی تھیں مگر اب اس کی 60 سیٹیں گھٹ گئی ہیں۔ کانگرس کے گجرات انچارج رگھو شرما نے یہ بدترین انتخابی نتائج دیکھنے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ عاپ کو یہاں 5سیٹیں ملی ہیں۔ جہاں کانگرس جیسی آل انڈیا پارٹی کو 17 سیٹیں ملی ہوں‘ وہاں عام آدمی پارٹی کی 5 سیٹیں بھی بڑی کامیابی کے برابر ہیں۔ اروند کجریوال کا یہ پینترا بھی بڑا مزیدار ہے کہ دہلی کی مقامی انتظامیہ چلانے میں انہوں نے مودی سرکار کا اشیرباد مانگا ہے۔ اس چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو حسبِ توقع کامیابی نہیں ملی لیکن اس کی آل انڈیا پارٹی ہونے کی شبیہ کو مضبوطی ضرور ملی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 2024ء کے عام چناؤ میں مودی کے مقابلے میں اروند کجریوال کا نام مضبوط متبادل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ پھر بھی ان تینوں چناؤ میں ایسا اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ 2024ء میں مودی کو اقتدار سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ دہلی اور ہماچل میں بھاجپا کی ہار کی اصلی وجہ مقامی پن ہے۔ مودی کو کانگرس ضرورچنوتی دینا چاہتی ہے لیکن اس کے پاس نہ تو کوئی نیتا ہے اور نہ ہی راج نیتی ہے۔ ہماچل میں اس کی کامیابی کی اصلی وجہ بھاجپا کی اندرونی لڑائی اور غیر مستحکم حکومت ہے۔ وہاں 68 سیٹوں میں سے کانگرس کو 40 پر جیت ملی ہے جبکہ بھاجپا 25 سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی ہے۔ہماچل پردیش نے اپنی روایت برقرار رکھی ہے۔ وہاں 1985ء کے بعد سے کوئی بھی پارٹی مسلسل دو بار حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ ادھر چھتیس گڑھ میں ودھان سبھا کی سیٹ کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب میں کانگرس نے بھاجپا کو21 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی ہے لیکن ابھی تک بھاجپا کے لیے کوئی بڑی چنوتی اگلے انتخابات کے حوالے سے دکھائی نہیں دے رہی۔ جب تک ساری اپوزیشن جماعتیں ایک نہیں ہو جاتیں‘ 2024ء میں بھی مودی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ ان تینوں ریاستوں میں ہوئے چناؤ نے تینوں پارٹیوں کو فتح بھی دلائی ہے اور تینوں کو سبق بھی سکھایا ہے۔
ایشیا: نئی پہل کی ضرورت
پچھلے سال اگست میں کابل پر طالبان کا قبضہ ہوتے ہی بھارت سرکار حیران ہو کر رہ گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ بھارت کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ابھی ہم چپ کر کے بیٹھے ہیں اور صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ میں نے طالبان کے کابل پر قبضے سے ایک یا دو دن پہلے ہی لکھا تھا کہ بھارت سرکار کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارت کے کچھ تجربہ کار افسران کی پہل پر بھارت سرکار نے ٹھیک راستہ اختیار کیا۔ اس نے دوحہ (قطر) میں موجود طالبان عناصر سے رابطہ بڑھایا، افغانستان کو ہزاروں ٹن گندم اور دوائیاں بھیجنے کا اعلان کیا اور طالبان سرکار سے بات چیت کا آغاز کیا۔ بھارت نے کابل میں موجود اپنے سفارت خانے کو بھی فعال کر دیا۔ ادھر طالبان رہنماؤں اور ترجمان نے بھارت کی مدد کا شکریہ ادا کیا، حالانکہ بھارت سرکار نے ابھی تک ان کی سرکار کو قبول نہیں کیا ہے۔ اس بیچ رواں سال جنوری میں بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی نے وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں کے سربراہوں سے براہِ راست بات چیت کی۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں افغانستان کے بارے میں بھارت کی تشویش کو ظاہر کیا۔ افغانستان میں دہشت گرد قوتیں اب زیادہ سرگرم نہ ہو جائیں‘ اس لحاظ سے بھارت نے کئی پڑوسی ممالک کے نمائندوں کی کانفرنس بھی منعقد کی تھی۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے نئی دہلی میں پانچ وسطی ایشیائی ممالک؛ ترکمانستان، قازقستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغزستان کے سکیورٹی مشیروں کی پہلی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں اہم موضوع یہی تھا کہ افغانستان کو دہشت گردی کا اڈہ بننے سے کیسے روکا جائے۔ دنیا بھر سے دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کے قبائلی علاقوں میں اپنا جال پھیلاتی ہیں۔ ان کی طاقت کا اصل سر چشمہ وہ پیسہ ہے، جو منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ سے ان کو ملتا ہے۔ تمام سکیورٹی صلاح کاروں نے ان ذرائع پر سخت پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ تمام نمائندوں نے طالبان سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو کسی بھی طرح کی سہولت نہ لینے دیں۔ اپنی اس درخواست کو انہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2593 کے مطابق ہی بتایا ہے۔ اس پہل کا کچھ نہ کچھ ٹھوس اثر ضرور ہوگا لیکن یہ اس مسئلے کا فوری مگر عارضی حل ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان یورپی یونین کی طرح ایک مشترکہ پارلیمنٹ، مشترکہ عدلیہ، مشترکہ بازار، مشترکہ کرنسی، آزاد تجارت اور آزاد نقل و حرکت کا نظام قائم ہو۔ اگر بھارت اس کی پہل نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟ سرکاریں کریں یا نہ کریں‘ ان ممالک کے عوام ایک عہد ساز علاقائی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس میں ایران، میانمار اور ماریشس کو بھی شامل کر لیں تو ان 16ممالک کو ملا کر جس علاقائی اتحاد کا قیام عمل میں آئے گا‘ اس سے ایشیا 10سالوں میں ہی یورپ سے زیادہ خوشحال ہو سکتا ہے۔