"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں علاج مہنگا کیوں ہے؟

اس بار بھارت کی راجیہ سبھا (لوئر ہائوس) میں ایسے دو پرائیویٹ بل پیش کیے گئے ہیں جو معلوم نہیں قا نون بن پائیں گے یا نہیں، لیکن اگر ان پر کھل کر بحث ہوگئی تو وہ ملک کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ پہلا بل سب کے لیے یکساں نجی قانون (پرسنل لاء) بنانے کے بارے میں ہے اور دوسرا ہے علاج میں لوٹ مار کو روکنے کے لیے۔ پرسنل لا یعنی شادی بیاہ، طلاق، جہیز، جانشینی سے متعلق قانون۔ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ سارے ملک کے لوگوں کو ایک ہی طرح کا نجی قانون ماننے میں زیادہ فائدہ ہے۔ ہزاروں سال پرانے قوانین سے چپکے رہنے کی بجائے نئے حالات کے مطابق جدید قانون پر عمل کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے بھارت کے لوگوں کو آزاد ہونے کا موقع آسانی سے مل جائے گا۔اسی طرح سے بھارت میں لوگوں کو مناسب علاج اور انصاف پانے میں بہت دقت ہوتی ہے۔ ہسپتال اور عدالتوں کے معاملات لوگوں کو لوٹ ڈالتے ہیں۔ اسی لیے ہسپتالوں، ڈاکٹروں کی فیس، دوائیوں اور ٹیسٹوں کی قیمتوں پر کنٹرول لگانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ میری رائے میں تو میڈیکل اور تعلیم یا یوں کہیں کہ علاج اور انصاف ہر شہری کو مفت ملنا چاہئے۔ اسی لیے راجیہ سبھا کے موجودہ اجلاس میں یہ جو بل علاج کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا ہے، اسے متفقہ طور پر پاس کر کے لوک سبھا (اپر ہائوس)کو بھیجا جانا چاہئے۔ اس بل میں شاید یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ غیر سرکاری ہسپتالوں میں سرجری اور کمروں کی فیسوں میں مچ رہی لوٹ پاٹ کو روکا جائے یا تو پرائیویٹ ہسپتال ایک دم ختم کر دیے جائیں اور اگر ان کو رہنے دیا جائے تو انہیں پانچ نہیں‘ سات ستارہ ہوٹل بننے سے روکا جائے۔آج کل ہیلتھ انشورنس مڈل اور اَپر کلاس کے مریضوں کو کچھ ریلیف ضرور فراہم کرتی ہے لیکن وہ ہسپتالوں کی لوٹ پاٹ کا نیا ہتھیار بن گئی ہے۔ بھارت کے پرائیویٹ ہسپتالوں کی موٹی فیس اور سرکاری ہسپتالوں کی لاپروائی ان میں بھرتی ہوئے کئی مریضوں کو پہلے سے بھی زیادہ بیمار کردیتی ہے۔ جس دوا کی قیمت دو روپے ہے، وہ سو روپے میں بکتی ہے اورجو ٹیسٹ 50 روپے میں ہوسکتا ہے، اس کے لیے 500 روپے ٹھگ لیے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق بھارت میں2021ء میں علاج کی مہنگائی 14 فیصد تک بڑھ چکی تھی اور اس کی وجہ سے بھارت کے ساڑھے پانچ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آگئے تھے۔ بھارت میں علاج پر غریب شہریوں کو اپنے کُل خرچ کا لگ بھگ 63فیصد پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بھارتیہ شہریوں کی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے بہت سے دوسرے اقدامات بھی ضروری ہیں لیکن ان کے علاج کو سستا کرنے میں پارلیمنٹ کو کوئی ہچکچاہٹ کیوں ہونی چاہئے؟ ادھر پنجی میں بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی نے اتوار کو پوری دنیا میں آیوروید کو فروغ دینے کی اپیل کی۔ عالمی آیوروید کانگریس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی جی نے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ 30 سے زیادہ ممالک نے آیوروید کو روایتی نظام طب کے طور پر قبول کیا ہے۔ ہمیں مل کر اسے دوسرے ممالک میں پھیلانا ہے‘ ہمیں آیوروید کو پہچان دینی ہوگی۔ حکومت آیوش کنسورشیم تیار کرنے پر بھی کام کر رہی ہے۔ آیوش صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ سرکار کے آنکڑوں کے مطابق آیوش میں 40 ہزار چھوٹی اور درمیانی صنعتیں مصروف ہیں جو مقامی معیشت کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ آیوش انڈسٹری جو آٹھ سال پہلے 20 ہزار کروڑ روپے کی تھی‘ آج بڑھ کر 1 لاکھ 50 ہزار کروڑ روپے کی ہو گئی ہے۔ یعنی سات گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ مستقبل قریب میں مزید بڑھے گی۔ جڑی بوٹیوں کی دوائی تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے کی ہے جبکہ روایتی ادویات کا بازار پھیل رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آیوروید اور نیچروپیتھی کو فروغ دینا چاہیے۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی مخالفت
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد سرکار کے خلاف اسی طرح مظاہرے شروع ہوگئے ہیں،جیسے کہ سری لنکا اور میانمار کی سرکاروں کے خلاف احتجاج ہوئے تھے۔ میانمار کی فوج نے وہاں توڈنڈے کے زور پر عوام کو ٹھنڈا کردیا لیکن سری لنکا کی سرکار کو الیکشن میں مات کھانا پڑی ہے۔ ''بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے مظاہروں میں دس لاکھ لوگ جمع ہوئے ہیں اور انہوں نے شیخ حسینہ واجد سے استعفیٰ مانگا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 2024ء میں چناؤ ہونے تک ڈھاکہ میں کوئی نگران سرکار مقرر کی جائے۔ بی این پی کے ساتوں ایم پیز نے اپنے استعفوں کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چناؤ فوراً کرائے جائیں کیونکہ شیخ حسینہ واجد نے ہر بار دھاندلی کرکے چناؤ جیتا ہے۔ بی این پی کو بنگلہ دیش کے دائیں بازو کے طبقا ت کے علاوہ جماعت اسلامی کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بنگلہ دیش کی بی این پی کی رہنمابیگم خالدہ ضیا نے اعلان کیا ہے کہ شیخ حسینہ واجد سرکار کی حکومت میں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے‘لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم گھٹ گیا ہے اور سرکار بھارت کے اشاروں پر ناچنے لگی ہے۔ وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے مفادات کی بالکل بھی پروا نہیں کرتی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کے مظالم اور بھارتیہ ناانصافی پر حسینہ واجد سرکار کی خاموشی انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ان الزامات کے باوجود خالدہ ضیا کی ریلی کے مقابلے میں حسینہ واجد کی طرف سے منعقد چٹ گاؤں اور کاکس بازار کی ریلیوں میں کئی گنا زیادہ لوگ شامل ہوئے تھے۔ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے دن کے موقع پر منعقد بی این پی کی ریلی کا مقصد یہ بھی تھا کہ اسے امریکہ اور یورپی ممالک کا تعاون بھی ملے گا لیکن انہی ممالک کے کئی نیتاؤں اور اخباروں نے خالدہ ضیا کی پارٹی اور جماعت اسلامی پر ان کی حکمرانی کے دور میں ناانصافی اور دہشت گردی کو پھیلانے کے الزامات لگائے تھے۔ ان دونوں پارٹیوں کو بنگلہ دیش کے عوام پاکستان پرست سمجھتے ہیں۔بھارت کے تئیں حسینہ واجد سرکار میں اب بھی شکر گزاری کا جذبہ ہے۔بھارت نے بہت سے ٹاپو(جزیرے) ڈھاکہ کو دے دیے تھے۔ قدرتی آفات کے دوران بھی بھارت سرکار نے بنگلہ دیشیوں کی مددبہت جوش و جذبے سے کی۔ حسینہ واجد سرکار نے بھی بھارت کے شمال مشرقی صوبوں کو سمندر تک پہنچنے کی زمینی رسائی فراہم کر رکھی ہے جبکہ خالدہ ضیا سرکار کے زمانے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ 30 نومبر کے بعد سے اس کے تقریباً 2000 کارکنوں اور حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اس اقدام کا مقصد احتجاجی مظاہرے کو طاقت کے ذریعے روکنا ہے۔ کچھ مغربی ممالک اور اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی گمبھیر سیاسی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈھاکہ ویسے تو شروع ہی سے بھارت اور امریکہ کا حلیف چلا آ رہا ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے چین سے مضبوط روابط استوار کرنے کی بھی کوشش کی ہے جس کے بعد بیجنگ نے بنگلہ دیش میں انفراسٹرکچر کے متعدد منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ حالیہ مہینوں میں ملک بھر میں ہونے والی بجلی کی بندش اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے باعث متعدد مظاہرے ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم حسینہ واجد سے فوری استعفے اور نگران حکومت کے تحت نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس وقت بنگلہ دیش کے معاشی حالات کچھ خراب ضرور ہیں‘ بنگلہ دیشی ٹکے کی قدر میں 25 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جس سے خوراک کی درآمد کی لاگت بڑھ گئی ہے اور غریب اور نچلے متوسط طبقے کو نقصان پہنچا ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ نیپال اور سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش میں بھی سرکار کی تبدیلی کے لیے حالات تیار ہوگئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں