"DVP" (space) message & send to 7575

یہ گاندھی کی نہیں ‘ گوڈسے کی پیروی ہے

مدھیہ پردیش کانگرس کے نائب صدر راج پٹیریا نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو ''قتل‘‘ کرنے کا ذکر کیا تھا اور اب وہ صفائی دیتے پھر رہے ہیں کہ ''قتل‘‘ کرنے سے ان کی مراد نریندر مودی کو انتخابات میں شکست دینا تھی۔ اب وہ اپنے بچاؤ میں یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ گاندھی اور لوہیا کے بھگت ہیں۔ وہ اپنے اس بیان کی وجہ سے گرفتار تو ہو ہی چکے ہیں لیکن اُن کے اس بیان کی وجہ سے نریندر مودی کے حوالے سے اُن لوگوں میں بھی‘ جو اُن کے حامی نہیں ہیں‘ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ اگر آج گاندھی اور لوہیا زندہ ہوتے تو وہ اپنا ماتھا پیٹ لیتے۔ نہ صرف بھاجپا کے رہنما راج پٹیریا کے اس بیان کی مذمت کر رہے ہیں بلکہ کئی کانگرسی رہنما بھی اُن کے اس بیان کو غلط قرار دے چکے ہیں۔ وہ مدھیہ پردیش میں کانگرس کے سینئر رہنما ہیں‘ ماضی میں وہ نہ صرف قانون ساز اسمبلی کے ممبر بلکہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اس بیان سے بھارت میں نریندر مودی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کانگرس کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا راج پیٹریا یہ بیان دیتے ہوئے بھول گئے تھے کہ سونیا گاندھی کے جنم دن کے موقع پر نریندر مودی نے ان کی لمبی عمر اور ان کی اچھی صحت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ اگر کچھ کانگرسی اور صوبائی رہنما نریندر مودی کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں تو وہ ان کی ڈٹ کر مخالفت ضرور کریں لیکن ان کے قتل کی بات کرنا اور اپنے آپ کو گاندھی کا پیروکار کہنا تو اُلٹے بانس بریلی پہنچانے کے مترادف ہے۔ گاندھی کے پیروکاروں کا ایسا طرزِ عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ گوڈسے کے پیروکاروں کا طرزِ عمل ہے۔ اس طرح کے بیان کیا یہ ثابت نہیں کرتے ہیں کہ کانگرسی رہنما اس وقت گہری مایوسی کے دلدل میں پھنس چکے ہیں؟ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگرسی رہنمائوں‘ بالخصوص بزرگ رہنمائوں کو شاید ایسا نظر آنے لگا ہے کہ اب وہ کسی صورت نریندر مودی کو ہرا نہیں سکتے۔ اُن کی یہی گھٹن اب اُن کے ایسے غیر سنجیدہ بیانوں میں ظاہر بھی ہو رہی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ اس سے پہلے کبھی کسی بھارتی وزیراعظم کے خلاف اس طرح کا زہریلا بیان نہیں دیا گیا ۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ بیان اس سیاسی جماعت کے رہنما کی طرف سے آیا ہے‘ جس جماعت کے دو وزیراعظموں کا قتل ہو چکا ہے اور جس کا ایک رہنما ایک بڑے حادثے کا شکار بھی ہو چکا ہے۔ اس طرح کا بیان راج پٹیریا کی بیمار ذہنیت کا ثبوت تو دیتا ہی ہے‘ ساتھ ہی اُن کے اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو بھارتی سیاسی رہنما خود کو تجربہ کار کہتے ہیں‘ انہیں اصل میں سیاست کی کتنی سمجھ بوجھ ہے۔ میرے نزدیک نریندر مودی پر بھارت کے ٹکڑے کرنے کے الزام لگانا اور یہ کہنا کہ صرف کانگرس ہی بھارت کو جوڑنے کی بات کر رہی ہے‘ مضحکہ خیز ہے۔ بھارتی آئین کی حفاظت کے لیے مودی کا قتل ناگزیر قرار دینا راہل گاندھی کی ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ مدھیہ پردیش کی سرکار نے اس کانگرسی رہنما کو گرفتار کرکے جیل بھی بھیج دیا ہے لیکن یہ ایسے اشتعال انگیز بیان کی کم سے کم سزا ہے۔ کانگرس کے لیے زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ وہ اپنی عزت بچانے کے لیے ایسے سر پھرے رہنمائوں کو پارٹی سے فوراً نکال باہر کرے۔ اس اشتعال انگیز بیان بازی کے افسوس ناک واقعے سے بھارت کی دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کو بھی یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ جو کچھ بولیں‘ سوچ اور سمجھ کر بولیں۔
توانگ پر خالی خولی شور
سمجھ میں نہیں آتا کہ توانگ کے علاقے میں ہوئی بھارتی اور چینی فوجیوں کی مڈبھیڑ پر اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کر دیا ہے؟ بھارتی میڈیا کے مطابق 9دسمبر کو بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور ان جھڑپوں کے کچھ دیر بعد دونوں طرف کے فوجی پیچھے ہٹ گئے۔ اس واقعے کے بعد بھارتی کمانڈر کی چینی کمانڈر سے فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں امن و سکون کی بحالی کے لیے تبادلۂ خیال کیا گیا۔اگر چینی فوجی بھارتی سرحد میں آ جاتے اور بھارتی زمین پر قبضہ کر لیتے تو یہ یقینا بھارت کے لیے باعثِ تشویش ہوتا لیکن اگر اُس میں بھی بھارتی سرکار کی کوئی لا پروائی یا کمزوری کارفرما ہوتی تو اپوزیشن کا ہنگامہ جائز تھا۔ 9دسمبر کو ہوئے اس واقعے کی خبر نے ایک ہفتے بعد طول پکڑا ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اپوزیشن کا اس مدعے کو لے کر احتجاج کرنا دراصل پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ ان دنوں بھارت سرکار کو لتاڑنے کے لیے کانگرس اور اپوزیشن کے پاس کوئی خاص مدعے نہیں ہیں۔ اسی لیے توانگ کے معاملے کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا کام بھارت سرکار کو لگاتار پن چبھاتے رہنا ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے‘ لیکن اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ چین سے پٹنے کی من مانی تشریح کا پرچار کرنے سے بھارتی فوجیوں پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ گلوان‘ توانگ‘ لداخ‘ اروناچل جیسے برفیلے علاقوں میں بھارتی فوجی جس طرح اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں‘ اس پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بھارتی پارلیمنٹ سے اُنہیں الٹا پیغام بھیجنا کہاں تک مناسب ہے؟ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں جو حقائق پیش کیے ہیں‘ ان سے تو لگتا ہے کہ چینی فوجیوں نے توانگ سیکٹر میں گھس پیٹھ کی جوکوشش کی تھی‘ وہ تو ناکام ہو ہی گئی ہے بلکہ اس مڈبھیڑ میں چینی فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں اور اپنے بہت سے ہتھیار چھوڑ کر انہیں اپنی سرحد سے بھاگنا پڑا ہے۔ اس مڈبھیڑ کے بعد دونوں فوجوں کے کمانڈروں کے درمیان ہوئی بات چیت کے بعد سرحد پر امن و امان قائم ہے۔ چینی سرکار کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چین کی سرحد پر اب امن قائم ہے لیکن بھارتی اپوزیشن پتا نہیں کیوں بے چین ہے۔ بھارتی اپوزیشن کو تو جیسے خالی خولی شور مچانے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے۔ ایسے ہی امریکہ کو کوئی نہ کوئی مدعا چاہیے‘ جس کی بنیاد پر بھارت چین کشیدگی کا الاؤ جلتا رہے۔ بھارت اور چین کہہ رہے ہیں کہ توانگ سیکٹر میں امن قائم ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ ابھی تک مڈبھیڑ کا راگ الارپ رہی ہے۔ یہی رویہ اس کا ہمیشہ تائیوان کے حوالے سے بھی رہا ہے۔ بھارت سرکار مگر اس حوالے سے کافی سمجھداری اور تحمل سے کام لے رہی ہے۔ بھارت سرکار کو چین سمیت ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے لیکن کسی بھی حالت میں کسی سپر پاور کا مہرہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت چین کے سرحدی علاقوں میں چین اپنی فوجی تیاری میں کافی مستعدی دکھا رہا ہے لیکن بھارت کی تیاری بھی کم نہیں ہے۔ بھارت چین سرحد اتنی اچھی طرح سے متعین نہیں ہے جتنی کہ کبھی ''برلن وال‘‘ ہوا کرتی تھی‘ اسی لیے دونوں طرف سے کبھی جان بوجھ کر اور کبھی انجانے میں تجاوز ہو جاتا ہے۔ ان معمولی مڈبھیڑوں کو ضرورت سے زیادہ طول دینا ٹھیک نہیں ہے۔ دونوں طرف کے فوجیوں کے درمیان بات چیت کا ہونا تو اچھی بات ہے‘ لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اس مدعے پر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان‘ جو قریبی دوست رہے ہیں‘ سیدھی بات چیت کیوں نہیں ہو رہی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں