بھارتیہ فوج سے غلامی کی علامتوں کوہٹانے کی مہم کا تہِ دل سے سواگت کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان پر سے دو سو سال کا انگریز راج تو 1947ء میں ختم ہوگیا تھا لیکن اس کا ثقافتی، لسانی اور تعلیمی راج آج بھی بھارت میں کافی حد تک برقرار ہے۔ جو پارٹی‘ یعنی کانگرس دعو یٰ کرتی رہی ہے کہ بھارت کو آزادی دلانے کا! اس نے انگریز کی دی ہوئی سیاسی آزادی کو توقبول کر لیا لیکن اسے جوکام خود کرنا چاہیے تھا یعنی دیش کے ہر شعبے سے غلامی کی علامات کو دور کرنا‘ اس میں اس کا کردار بہت ہی سستی بھرا رہا ہے۔ یہ کام اب بھاجپا سرکار کچھ حد تک ضرور کر رہی ہے۔ اس کے نیتاؤں کو اس غلامی کی اگر پوری سمجھ ہو تو وہ اس ختم ہوتے ہوئے سال میں ہی مکمل محکومیت مکت مہم کی شروعات کر سکتے ہیں۔ بھارتی فوج میں غلامی کی ایک علامت کو اس وقت ہٹایاگیا جب جہاز بردار جنگی بیڑے آئی این ایس وکرانت کو سمندر میں چھوڑا گیا۔ اس جہاز پر لگے ہوئے سینٹ جارج کے نشان کو ہٹا کر اس کی جگہ شیواجی کی علامت لگا ئی گئی۔ یہ معاملہ صرف علامتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جاتیوں کے نام پر موجود بھارتی فوج کی ٹکڑیوں کے بھی نام فوراً بدلے جانے چاہئیں۔ 1857ء کی تحریک آزادی سے گھبرائے انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے لوگوں کو ذاتوں اور مذہب کے نام پر بانٹنے کے لیے مختلف ترکیبیں لڑانا شروع کی تھیں‘ ان میں سے یہ بھی ایک بڑی ترکیب تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف شہروں اور گاؤں کے نام بھی انگریز افسروں کے نام پر رکھ دیے تھے۔ جگہ جگہ ان کے پتلے کھڑے کر دیے تھے۔ چند مہینے قبل بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی نے سینٹرل وسٹا کا افتتاح کرتے وقت سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا تھا کہ وہ ملک کی غلامانہ ذہنیت کو ختم کر نے کا کام کر رہے ہیں۔ جارج پنجم کی جگہ انہوں نے سبھاش بابو کا شاندار پتلا کھڑا کیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اب سے تقریباً 50سال پہلے احمد آباد میں لگا ایک انگریز کا پتلا میں نے خود توڑا تھا‘ وہ بھی راج نارائن جی (جنہوں نے الیکشن میں اندرا گاندھی کو شکست دی تھی)کے کندھے پر چڑھ کر۔ کانگرس سرکاروں نے سڑکوں کے کچھ نام تو بدلے لیکن بھارتی فوج میں اب بھی انگریزوں کا چلن چل رہاہے۔ کانگرس سرکار کی وزارتِ دفاع کی ہندی کمیٹی کا ممبر ہونے کے ناتے میں نے انگریزی میں چھپے فوج کے سینکڑوں دستورالعمل کو ہندی میں بدلوایا تھا تاکہ عام فوجی بھی انہیں آسانی سے سمجھ سکیں۔ غلامی کی علامات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں راجہ کا راج نہیں سیوک کی سیوا چل رہی ہے؛ تاہم ایک بڑا اور بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا کچھ سڑکوں اور شہروں کے نام بدل دینے اور قومی ہیروز کی مورتیاں کھڑی کر دینے سے آپ انگریز کے زمانے سے چلی آ رہی غلامانہ ذہنیت سے آزادی پا سکتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسی نوٹنکیاں بے معنی ہوتی ہیں‘ ان سے بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا ہے لیکن بھارت کی آزادی کے 75 سال بعد بھی سرکاروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ دیش کی رگ رگ میں غلامی رچی ہوئی ہے۔ اب بھی ہمارے سیاستدان نوکر شاہوں کے نوکر ہیں۔ بھارت کے سارے قانون‘ ساری اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ سمیت ملک کا تمام انصاف کس کی زبان میں ہوتا ہے؟ کیا یہ سارے اہم کام بھارت کی زبانوں میں ہوتے ہیں؟ یہ سب بھارت کے پرانے مالک‘ انگریزوں کی زبان میں ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے نام سے چلنے والی زیادہ تر مہمات اور ملک کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے نام بھی ہمارے پرانے مالکوں کی زبان میں رکھے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کا کام صرف زبان چلانا ہے۔ اصلی دماغ تو نوکر شاہوں کا چلتا ہے۔ بھارت کے نوکر شاہ اور دانشور لارڈ میکالے اور لارڈ کرزن کے تعمیر کردہ سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ جب تک اس سانچے کو توڑنے والا کوئی گاندھی یا دین دیال بھارت میں پیدا نہیں ہوگا‘ یہ غلامانہ ذہنیت بھارت میں دندناتی رہے گی۔جہاں تک بھارتیہ فوج کا تعلق ہے تو اس وقت فوج میں 150ایسے قوانین، نام، انعام، روایات، رسم و رواج اور طور طریقے ہیں جن کا بھارتیہ کَرن ہونا ضروری ہے۔ ''بیٹنگ دی ریٹریٹ‘‘ تقریب میں ''اوائیڈ وتھ می‘‘ گانے کی جگہ لتا منگیشکر کے ''اے میرے وطن کے لوگو!‘‘ کوشروع کرنا ایک اچھا اقدام ہے۔ لیکن جہاں تک بھارتی فوج میں سے غلامی کی علامات ختم کرنے کا سوال ہے تو اسے انگریزوں کے رسم و رواج سے آزاد کرانا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری ہے فوج کو خود کفیل بنانا!آج بھی بھارت کو اپنے اہم ہتھیاروں کو دوسرے ملکوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے جن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر آزادی کے صد سالہ جشن تک ہم پوری طرح سے خود کفیل ہو جائیں اور امریکہ اور یورپی دیشوں کی طرح ہتھیار برآمد کرنے والے بن جائیں تو بھارت کے لیے اس سے خوش آئند بات اور کیا ہو سکتی ہے؟
امریکہ میں پچاس لاکھ بھارتی
بھارتیہ نژاد‘ جنہیں ہم این آر آئی( نان ریذیڈنٹ انڈین)کہتے ہیں‘ تقریباً دو کروڑ ہیں اور اس وقت ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تقریباً درجن بھرممالک ایسے ہیں جن کے صدر، نائب صدر، وزیراعظم اور فارن منسٹر جیسے اہم عہدوں پر بھارتیہ نژاد براجمان ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک تو اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس بھی بھارتیہ نژاد ہیں۔ بھارت کے لوگ جس ملک میں بھی جاکر بسے ہیں‘ وہ اس ملک کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ گئے۔ اس وقت دنیا کی سپر پاور امریکہ میں 50 لاکھ لوگ بھارتیہ نژاد آباد ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی بڑی تعداد میں بھارتیہ لوگ نہیں بستے۔ حتیٰ کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے اتنے زیادہ لوگ کسی دوسرے ملک میں آباد نہیں ہے۔ یہ 50 لاکھ بھارتی نژاد امریکہ میں سب سے زیادہ خوشحال، پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ غیر ملکی مانے جاتے ہیں۔ایسا کئی سرویز نے ثابت کیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت سے اتنا زیادہ برین ڈرین ہوا ہے۔ اگر امریکہ میں 200 سال پہلے ہندوستانی لوگ بسنا شروع ہوجاتے تو شاید امریکہ بھی ماریشس اور سورینام وغیرہ کی طرح ہندوستان جیسا ملک بن جاتا لیکن بھارتیوں کی امریکہ میں امیگریشن 1965ء میں شروع ہوئی تھی۔ اِس وقت میکسیکو کے بعد بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جس کے سب سے زیادہ لوگ جا کر امریکہ میں بستے ہیں۔ میکسیکو توامریکہ کا پڑوسی ملک ہے لیکن بھارت اس سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے۔ بھارت کے زیادہ تر اوور سیز پُرجوش نوجوان ہوتے ہیں جو وہاں پڑھنے جاتے ہیں اور پھر وہیں رہ جاتے ہیں یا پھر یہاں سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ نوکریوں کی تلاش میں امریکہ جاکر بستے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے ماں باپ بھی وہاں بسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارتیہ نژاد امریکیوں کی اوسط عمر 41 سال ہے جبکہ دیگر ممالک کے لوگوں کی 47 سال ہے۔ بھارت کے کُل این آر آئیز میں سے 80 فیصد لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔ دیگر غیر ملکی افراد میں سے صرف 15 فیصد ہی اچھے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر بھارت کے 50 فیصد سے زیادہ لوگ گریجویٹ سطح تک پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ بھارتیہ نژاد لوگوں کی اوسط فی کس آمدنی ڈیڑھ لاکھ ڈالرسالانہ ہے۔ اوسط امریکیوں اور دیگر غیر ملکیوں کی اوسط آمدن اس کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم یعنی صرف 70 ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی نژاد امریکہ میں اوسط امریکیوں سے بھی زیادہ کما رہے ہیں۔ آج بھارتیہ لوگوں کو آپ امریکہ کی ہر ریاست اور ہر شہر میں دندناتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اب سے تقریباً 50‘ 55 سال پہلے میں جب نیویارک کی سڑکوں پر گھومتا تھا تو کبھی کبھی کوئی بھارتی ٹائمز سکوائر پر نظر آ جاتاتھا لیکن اب ہر بڑے شہر اور ہر ریاست میں بھارتی ریستورانوں میں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھارتی سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی بھرمار ہے۔ امریکہ کی کئی اعلیٰ کمپنیوں اور سرکاری محکموں کے سربراہان تک بھارتیہ نژاد لوگ ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ آج سے 24 سال پہلے میں نے جو لکھا تھا‘ وہ جلد ہی پورا ہو جائے اوربرطانیہ کی طرح امریکہ کی حکومت بھی کسی بھارتیہ نژاد شخص کے ہاتھ میں آ جائے۔