"DVP" (space) message & send to 7575

راہل گاندھی کی حقیقت سے ناواقفیت

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور کانگرس کے راہل گاندھی کے بیانوں پر بھارت میں شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ پتا نہیں ان دونوں پارٹی رہنمائوں کے بیانوں پر بھاجپائیوں کو اتنے ناراض ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ جہاں تک بلاول کا سوال ہے تو میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مجھ سے ملنے اکثر دبئی میں آیا کرتا تھے۔ اب وہ پاکستان کی ایک پارٹی کے سربراہ اور وزیر خارجہ بن گئے ہیں۔ ان کے منہ سے اگر کوئی بھارت مخالف بیان نہیں نکلے گا تو پاکستان میں انہیں کون گانٹھے گا؟ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے بھی آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ بھارت سے اگر ایک ہزار سال تک بھی لڑنا پڑے تو وہ لڑتے رہیں گے۔ بے نظیر سے میں جب‘ جب ملا تو میں نے ان سے کہا کہ ایسی بیان بازی اور اشتعال انگیزی مدبر سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتی اور یہی وجہ ہے کہ بینظیر بھٹو کی باتیں ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہوا کرتی تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ بلاول بھی بڑے ہو کر اس مدعے پر دھیان دیں گے لیکن انہوں نے نیویارک میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا موازنہ اسامہ بن لادن سے کر دیا جس پر بھاجپائیوں نے بھارت میں ملک گیر احتجاج کیا۔ اب جبکہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم عمران خان کافی متوازن اور حقیقت پسندانہ بیانات دے رہے ہیں‘ بلاول نے ایسا بیان دے کر حالات کو تلخ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ایک وزیر شازیہ مری نے بھارت کو ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دی ہے۔ شازیہ مری نے بلاول بھٹو کی حمایت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار لڑے گی تو پھر وہ جواب بھی سنے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت سے شکایت نہیں بلکہ بھارت میں نریندر مودی کی موجودہ حکومت سے شکایت ہے۔ اسی طرح راہل گاندھی نے توانگ میں ہوئی کھٹ پٹ اور بھارت‘ چین مڈبھیڑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہہ دی ہیں کہ جو ''الٹے بانس بریلی کو‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ گلوان وادی واقعے کے بعد اور اس سے پہلے چین نے جو بھارت کی زمین چھینی ہے، اس کے بارے میں مودی چپ کیوں ہیں۔ راہل کو شاید پتا نہیں کہ ان کے پر نانا نہرو جی کے زمانے میں بھارت کی تقریباً 38ہزار مربع کلومیٹر زمین پر چین نے قبضہ کر لیا تھا اور 1962ء کی جنگ میں بھارت کو بھاری شرمندگی اٹھانا پڑی تھی۔ پچھلی پانچ‘ چھ دہائیوں کے دورِ حکومت میں کیاکانگرس پارٹی نے اس زمین کی واپسی کے لیے کبھی کوئی ٹھوس کوشش کی؟راہل کے والد وزیراعظم راجیو گاندھی تو چینی نیتاؤں سے گلے ملنے کے لیے 1988ء میں چین بھی پہنچ گئے تھے۔ایک طرف راہل کا کہنا ہے کہ آزادی کی تحریک میں ان کی جماعت نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، امبیڈکر جی، چندر شیکھر آزاد‘ سبھی نے اپنے اپنے وقت میں نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولی تھی۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے نکلے ہیں اور دوسری طرف ایسی اشتعال انگیز بیان بازی کر رہے ہیں۔ کانگریس کے اراکین نے پیر کو چین کے بھارتی علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں راجیہ سبھامیں بحث کرانے کا مطالبہ کیا اور اس کی اجازت نہ ملنے پر ایون سے واک آؤٹ بھی کیا۔ کانگرس نے مودی سے توانگ کے ایشو پر سات سوال پوچھے ہیں، ان میں سے کچھ تو بالکل صحیح ہیں جواپوزیشن پارٹیوں کو اٹھانا ہی چاہئیں لیکن یہ سوال جس طرح سے پوچھے گئے ہیں‘ وہ بھارت کے قومی مفادات کو نقصان تو پہنچاتے ہی ہیں‘ فوجیوں کا مورال بھی گراتے ہیں۔ بھارتیہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی راہل کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی تذلیل نہ کی جائے‘ جوانوں کے لیے ''پٹائی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے راہل کا نام لیے بغیر سوال پوچھا کہ چین کے بارے میں ہمارا رویہ غیر سنجیدہ تھا تو سرحد پر فوج کس نے بھیجی تھی؟ کانگرس کی راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کا چین سے جو لین دین رہاہے‘ وہ ان بیانوں سے برابر اجاگر ہوتا ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو اور راہل گاندھی جیسے نوجوان نیتاؤں کو اس طرح کے بیانات دیتے وقت کچھ تجربہ کار صلاح کاروں سے مشورہ ضرور کرلینا چاہئے۔
ملائم سنگھ کو عوام کی شردھانجلی
گجرات‘ دہلی اور ہماچل کے ریاستی انتخابات کے چناؤ میں بھارت کی تینوں بڑی پارٹیاں (بھاجپا، کانگریس اور عام آدمی پارٹی) ایک‘ ایک جگہ سے جیت گئیں لیکن دو‘دو جگہ سے وہ ہار بھی گئیں۔ اگرچہ دہلی کا چناؤ تو لوکل تھا لیکن اس کی اہمیت ریاستی انتخاب جیسی ہی تھی اور دہلی کا یہ مقامی چناؤ ریاستی الیکشن سے کسی طور کم نہیں تھا۔ ان اہم چناؤ کے علاوہ کچھ ضمنی چناؤ بھی الگ الگ ریاستوں میں ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور رہا اترپردیش کے مین پوری سے ڈمپل یادیو کا چناؤ لوک سبھا کے لیے۔ ڈمپل یادیو اکھلیش یادو کی بیوی اور ملائم سنگھ یادیو کی بہو ہیں۔وہ تقریباً3لاکھ ووٹوں سے جیتی ہیں۔ انہوں نے بھاجپا کے امیدوارو ں کو ہرایا ہے لیکن بھاجپا کاایک امیدوار رام پور سے جیت گیا ہے۔ یہ بھی بھاجپا کی قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ ڈمپل یادیو کو ہرانے کے لیے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ڈمپل کے خلاف ایسے امیدوار کو کھڑا کیاگیا تھا جو پہلے سے اس علاقے کا نامی گرامی نیتا رہا تھا۔ اس کے علاوہ ملائم سنگھ یادیو پچھلے چناؤ میں صرف 94ہزار ووٹوں سے جیتے تھے جبکہ بہوجن سماج پارٹی کی حمایت بھی انہیں حاصل تھی لیکن اس بار اکھلیش یادیو نے ڈمپل کو اپنے دم پر لڑاکر الیکشن جتوایاہے۔ یہ ایک امیدوار کی معمولی جیت نہیں ہے‘ یہ اکھلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی کی نئی انتخابی حیثیت کا اعلان ہے۔ یہ جیت اتر پردیش ہی نہیں پورے بھارت کی سیاست کو نئی سمت دے سکتی ہے۔ دو ماہ قبل ہوئے ملائم سنگھ یادیو کے دیہانت کے بعد یہ ایک منفرد نیتا کو عوام کے ذریعے دی گئی نمناک شردھانجلی ہے۔ جیسے 1984ء میں راجیو گاندھی کی بے مثال جیت اندرا گاندھی کو دی گئی عوام کی شردھانجلی تھی۔ اس چناؤ کے دوران یہ بھی اچھا ہواکہ اکھلیش یادیو اور ان کے چاچا شوپال یادیو کے بیچ صلح ہوگئی اور دونوں کی پارٹیوں کا الحاق ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے لوک سبھا چناؤ میں ہوتا کیاہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے کچھ زبردست اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے عوام کے دلوں میں انہوں نے گہری جگہ بنالی ہے لیکن مین پوری کی حمایت سماج وادی پارٹی میں نئی جان پھونک سکتی ہے؛ اس شرط کے ساتھ کہ اکھلیش یادیو اور شوپال یادیو صرف کرسی اور ریوڑیاں بانٹنے کی سیاست میں نہ پھنسے رہیں۔ اس وقت اکیلی بھاجپا ہے جو ایک نظریے کو لے کر اس پر چلنے کی کوشش جیسے تیسے کرتی رہتی ہے، بقیہ تمام پارٹیاں ووٹ اور نوٹ کے جھانجھ پیٹتی رہتی ہیں۔ ملائم سنگھ کو بھی یہ سب کرنا پڑتا تھا لیکن وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے سچے پیروکار کی طرح اقدار کی سیاست کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ انہوں نے لوہیا کے بعض انقلابی اقدامات کو نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ انہوں نے میرے ساتھ مل کر ''انگریزی ہٹاؤ تحریک‘‘ اور ''بھارت‘ پاک مہاسنگھ‘‘ کے مدعوں پر کافی کام کیاتھا۔ وہ کرسی کی سیاست میں تو کامیاب تھے ہی لیکن اصولوں اور نظریات پر بھی ان کا پورا دھیان تھا۔ وہ اتر پردیش کے چیف منسٹر نہ بھی بنتے تو بھی ان کا شمار بھارت کے بڑے نیتاؤں میں کیا جاتا۔ وہ اصولی تحریکوں میں میرے ساتھ جڑ کر سبھی پارٹیوں کے نیتاؤں کے ساتھ مل بیٹھنے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں تھے۔ کرسی جیتنااچھا ہے لیکن یہی آخری ٹارگٹ نہیں ہونا چاہئے۔ کرسی کھسکنے کے بعد دنیا کے بڑے بڑے نیتا تاریخ کے کوڑے دان میں جاسماتے ہیں۔ اکھلیش یادیو جیسے نوجوان نیتاؤں سے یہ امید کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ بھی اقداری سیاست اور عوامی مدعوں پر کام کریں گے تاکہ بھارت مضبوط اور خوشحال تو بنے ہی، ساتھ ہی قدیم آریہ ورت کے پڑوسی ملکوں کا بھی عروج ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں