راجستھان میں راہل گاندھی نے انگلش میڈیم کی پڑھائی کی اور جم کر وکالت کی۔ راہل نے کہا کہ بھاجپا انگریزی کی پڑھائی کی اس لیے مخالفت کرتی ہے کہ وہ ملک کے غریبوں‘ کسانوں‘ مزدوروں اور گاؤں کے بچوں کا بھلا نہیں چاہتی ہے۔بھاجپا کے نیتا اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کے سکولوں میں کیوں پڑھاتے ہیں؟یاد رہے کہ بھاجپا سرکار نے دو سال پہلے جو تعلیمی پالیسی مرتب کی تھی اس کے تحت پرائمری سکولوں میں انگریزی میں تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بھارت کے قیام کے بعد ایسا پہلی بار ہوا۔حکومت کی توقع یہ ہے کہ یہ اصلاحات بھارتی سکولوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں بڑی تبدیلی کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں؛ تاہم کانگرس کے نیتا اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ اگرچہ راہل نے جو الزام بھاجپا کے نیتاؤں پر لگا یاوہ زیادہ تر صحیح ہی ہے‘ لیکن راہل ذرا خود بتائیں کہ وہ خود اور اس کی بہن کیا ہندی میڈیم کی پاٹھ شالہ میں پڑھے ہیں؟بھارت کے سارے نیتا لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کے سکولوں میں اسی لیے بھیجتے ہیں کہ بھارت دماغی طور پر اب بھی غلام ہے۔ اس کی تمام اونچی نوکریاں انگلش میڈیم سے ملتی ہیں۔ اس کے قوانین انگریزی میں بنتے ہیں۔ اس کی سرکاریں اور عدالتیں انگریزی میں چلتی ہیں۔ بھاجپا نے اپنی نئی تعلیمی پالیسی میں پرائمری تعلیم کو اپنی زبان کے ذریعے سے چلانے کی درخواست کی ہے جو بالکل صحیح ہے‘ لیکن بھاجپا اور کانگرس‘ دونوں کی کئی صوبائی سرکاریں انگلش میڈیم سکولوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ کسی غیر ملکی زبان کو پڑھنا ایک بات ہے اور اس کو اپنی پڑھائی کا ذریعہ بنانا بالکل دوسری بات ہے۔ میں نے پہلی کلاس سے اپنی بین الاقوامی پی ایچ ڈی تک کے امتحانات ہندی میڈیم سے دیے ہیں۔ اپنی زبان کے ذریعے سے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غیر ملکی زبانوں کا بائیکاٹ کر دیں۔میں نے ہندی کے علاوہ سنسکرت‘ جرمن‘ روسی اور فارسی زبانیں بھی سیکھیں۔ انگریزی توہم پر تھوپ ہی دی جاتی ہے۔ راہل کی یہ دلیل صحیح ہے کہ غریب اور دیہی طبقے کے بچے انگریزی سکولوں میں نہیں پڑھتے‘ اس لیے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ بھی انگریزی پڑھیں امریکہ جا کر امریکیوں کو بھی مات دیں۔ راہل کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی لیکن میں پوچھتا ہوں کہ ہمارے کتنے سٹوڈنٹس امریکہ یا دیگر ملکوں میں جاتے ہیں؟ کچھ ہزار سٹوڈنٹس کی وجہ سے کروڑوں سٹوڈنٹس کا دم کیوں گھونٹا جائے؟ جنہیں بدیش جانا ہو‘ وہ سال‘ دو سال میں اس ملک کی زبان ضرور سیکھ لیں‘ لیکن کسی غیر ملکی زبان کو 16 سال تک اپنی پڑھائی کا میڈیم بنائے رکھنا اور اسے کروڑوں بچوں پر تھوپ دینا کون سی عقلمندی ہے؟ ہرن پر گھاس کیوں لادی جائے؟ اگر ہمارے نیتا لوگ چاہتے ہیں کہ غریبوں‘ دیہی‘ پسماندہ‘ کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کو بھی زندگی میں یکساں مواقع ملیں تو ملک میں تمام بچوں کے لیے مقامی زبان‘میڈیم کی پڑھائی لازمی ہونی چاہئے۔ انگلش میڈیم کی تعلیم پر سخت پابندی ہونی چاہئے۔ غیر ملکی رابطوں کے لیے ہمیں صرف انگریزی پر منحصر نہیں رہنا چاہئے۔ غیر ملکی تجارت‘ خارجہ پالیسی اور اعلیٰ تحقیق کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی‘ جرمن‘ چینی‘ روسی‘ عربی‘ ہسپانوی‘ جاپانی وغیرہ کئی غیر ملکی زبانوں کی پڑھائی بھی بھارت میں قابلِ رسائی ہونی چاہئے۔ دنیا کی کسی بھی خوش حال اور طاقتور قوم میں سٹوڈنٹس کی پڑھائی کا ذریعہ غیر ملکی زبان نہیں ہے۔
عام آدمی پارٹی کی ریوڑیاں
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینا نے دہلی کی عام آدمی پارٹی کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرکاری خزانے میں 97 کروڑ روپے جمع کرائے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو عام آدمی پارٹی کی دہلی سرکار نے اشتہاروں پر خرچ کیاہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر اجے ماکن نے عام آدمی پارٹی سے 97 کروڑ روپے وصولنے کے اس حکم پر کہا کہ ان سے تقریباً 800 کروڑ روپے کی وصولی ہونی چاہیے۔اجے ماکن نے کہا کہ کجریوال دہلی میں مفت بجلی دینے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ دہلی میں بجلی کی شرح بھارت میں سب سے زیادہ ہے۔ اس وجہ سے دہلی سے صنعتوں کی ہجرت ہو رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجے ماکن کا کہنا تھا کہ اروند کجریوال کے آنے سے پہلے دہلی حکومت کا اشتہارات سے متعلق بجٹ 18 کروڑ روپے تھا لیکن عام آدمی پارٹی (عاپ) سرکار نے بجٹ کو بڑھا کر 650 کروڑ روپے کر دیا۔ وہ عوام کے پیسے کا استعمال اپنے سیاسی فائدے کے لیے کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے پہلے دہلی حکومت نے دہلی کے عوام کے پیسے سے پنجاب میں اشتہار دیے۔ پنجابی میں دیے گئے اشتہارات میں کہا گیا تھا کہ دہلی میں ہر سکول میں پنجابی زبان لازمی کر دی گئی ہے اور ہر سکول میں دو پنجابی ٹیچر لگائے گئے ہیں۔ ماکن نے کہا کہ پنجاب الیکشن سے پہلے دہلی حکومت نے پنجاب میں پنجابی زبان میں اشتہار دینے کے لیے دہلی کے ٹیکس پیئرز کا پیسہ استعمال کیا۔ کیا اسے وصول کرنا چاہیے یا نہیں؟اجے ماکن نے عاپ کی دہلی حکومت پر عوام کا پیسہ اپنے فائدے کے لیے خرچ کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو خوش کرنا ہے تو زیادہ اشتہار دے دیا‘ کسی کو سزا دینی ہے تو اشتہار بند کر دیا‘ یہ میڈیا اور بھارتی جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں۔دوسری جانب عام آدمی پارٹی نے لیفٹیننٹ گورنر کو کہہ دیا ہے کہ انہیں اس طرح کی مانگ کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے اور اگر عام آدمی پارٹی کو 97کروڑ روپے جمع کروانے ہیں تو بھاجپا کو 22 ہزار کروڑ روپے جمع کرانا ہوں گے کیونکہ اس کی راجیہ سرکار وں نے اشتہاروں کی جھڑی لگارکھی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ دہلی سرکار باہری صوبوں میں اپنے اشتہارات کیوں چھپوا رہی ہے؟ اس پر عاپ پارٹی نے اعداد و شمار اکٹھے کرکے بتایا کہ بھاجپا سرکار نے مذکورہ موٹی رقم صوبے سے باہر اشتہاروں پر ہی خرچ کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے اسے وزیر اعلیٰ کولیفٹیننٹ گورنر کا محبت نامہ کہاہے۔ درحقیقت سرکاری اشتہاروں پرآج کل بھارت کی تمام حکمران پارٹیاں کھلے دل سے پیسہ خرچ کر رہی ہیں۔ یہ عوام کے ٹیکس سے وصول کیاگیا پیسہ ہے۔ ان اشتہارات کے ذریعے عوام کو حکومت کے اچھے کاموں سے آگاہ کروانے کا جذبہ تو اچھا ہے اور یہ کام ٹی وی چینلوں اور اخباروں کے ذریعے ہوتا ہی ہے لیکن اشتہارات کے ذریعے ہر سیاست دان اپنی بانسری بجانا چاہتا ہے۔ اپنے ڈھول اور نقارے پٹوانا چاہتا ہے۔ ان اشتہاروں میں بڑھ چڑھ کردعوے کیے جاتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں اور ان میں غلط فہمی بھی پھیلاتے ہیں۔اس معاملے پر بھارتی سپریم کورٹ نے بھی غور کیاتھا۔ اس نے صرف ان اشتہاروں پر روک لگائی ہے جو پارٹی پرچار کرتے ہیں‘ اس نے سرکاری اشتہاروں پر روک نہیں لگائی۔ عام آدمی پارٹی کو اس معاملے میں پہلے قصوروار بھی پایا گیا تھا لیکن بہتر تو یہ ہے کہ سرکاری اشتہاروں کے ذریعے سرکار یں ٹی وی چینلوں اور اخباروں پر خوفناک دباؤ بنا دیتی ہیں۔ لالچ کے مارے ان کی بولتی بند ہوجاتی ہے‘ حقیقت میں بھارتی حکومتوں کے لیے اشتہار بھی ریوڑیاں ہی ہیں۔ چناؤ کے دنوں میں بھی بھارت میں ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں اور عام دنوں میں بھی۔ عوام کو تقسیم کی گئی ریوڑیوں کا نتیجہ غیر یقینی ہوتاہے لیکن ان ریوڑیوں کے اثرات صاف صاف دکھائی پڑتے ہیں۔