"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: اپوزیشن بنارہی رائی کا پہاڑ

بھارتیہ پارلیمنٹ میں ہو رہی بحث کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے ترکش میں کوئی تیر ہے ہی نہیں۔ وہ حکمران جماعت پر خالی ترکش گھمانے میں مصروف ہے۔ کانگرس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے پہلے بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ پر حملہ کیا اور پھر چین کے ساتھ توانگ میں ہوئی مڈبھیڑ کو لے کر لوک سبھا میں ہنگامہ ہوگیا۔ ان دونوں معاملوں میں اپوزیشن چاہتی تو پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث ہو سکتی تھی جس سے ملک کو فائدہ ہی ہوتا۔ عوام کو بھی پتا چلتا کہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان ہم آہنگی پر جو بات نائب صدر نے کی ہے‘ وہ کہاں تک ٹھیک ہے۔ جگدیپ دھنکھڑ نے ججوں کی تقرری کے بارے میں موجودہ ''کالجیم نظام‘‘ یعنی ججز کونسل میں سدھار کی بات کی تھی۔ انہوں نے عدلیہ کے حقوق کی کٹوتی یا نظر اندازی کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے کسی صحت مند پارلیمانی جمہوریت میں عدلیہ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کے درمیان جوضروری توازن اور تعاون کا عنصر ہوتا ہے‘ اسی پر زور دیاتھا۔ججوں کی تقرری کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ 2016ء میں بھی سرکار نے سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ججوں کی تقرری کے لیے ایک جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کا قانون پارلیمان میں منظور کیاتھا جس کا مقصد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری میں سپریم کورٹ کی بالا دستی کو ختم کرنا تھا مگر اس قانون کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی کہہ کر کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد سرکار نے نئے ججوں کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کی تقرری پر مہر لگانے سے انکار کر دیا اور ایک تنائو کی کیفیت بن گئی تھی۔ اب پھر مودی سرکار وہی کام کر رہی ہے۔ تقریباً 20ناموں کی تجاویز کئی مہینوں سے درمیان میں لٹکی ہوئی ہیں۔ نہ تو سرکار ان کے نام پر 'ہاں‘ کہتی ہے اور نہ ہی 'ناں‘ کہتی ہے۔ عجیب پردہ ہے کہ وہ چلمن سے لگی بیٹھی ہے ۔ چونکہ مودی حکومت اور عدالت کی نئے ججوں کی تقرری کو لے کر آپس میں ٹھنی ہوئی ہے‘ اسی لیے کانگرس اس میں سے اپنا سیاسی فائدہ نکالنا چاہتی ہے۔ وہ نائب صدر کے بیان میں سے ایسی باتیں نکال رہی ہیں جو دھنکھڑ نے کہی بھی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ راجیہ سبھا کے قائد کے طور پر جگدیپ دھنکھڑ نے کانگرس کے صدر ملکارجن کھرگے اور منسٹر پیوش گوئل سے کہا تھا کہ وہ ہاؤس میں ایک دوسرے پر کھلے طور پر حملہ کرنے کے بجائے ان کے چیمبر میں آ کر توانگ میں ہوئی مڈبھیڑ پر بات کریں، مگر کھرگے نے دھنکھڑ کی اس عاجزانہ اپیل کو بھی ٹھکرادیا۔ اپوزیشن‘ بالخصوص کانگرس نے توانگ کے مدعے پر لوک سبھا کی کارروائی ہی ٹھپ کردی تھی۔ کانگرس کی مانگ ہے کہ توانگ مسئلے پر بھارتیہ فوجیوں کی جوپٹائی ہوئی ہے‘ اس پر کھلی بحث ہو۔ بھارتی فوج کے جوانوں کے لیے ''پٹائی‘‘ کے لفظ کا استعمال بالکل نامناسب ہے۔ بغیر ثبوت ایسے الفاظ کا استعمال اس کے بولنے والے کے وقار کو ہی گرادیتا ہے۔ توانگ میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جومعمولی جھڑپیں ہوئی ہیں‘ وہ کیااس لائق تھیں کہ اس پر بھارت کی پارلیمنٹ کے کئی گھنٹے برباد کیے جائیں ؟ سرحدی علاقوں میں ایسی فوجی جھڑپیں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی جھڑپیں بھارت‘ چین اور بھارت‘ پاک سرحدوں پر ہی نہیں ہوتیں، وہ بنگلہ دیش، میانمار، نیپال جیسے پڑوسی ممالک کی سرحدوں پر بھی ہوجاتی ہیں۔ انہیں تل کا تاڑ یا رائی کا پہاڑ بنانے کی آخر تُک کیا ہے ؟ شاید اس لیے اس مدعے کو اچھالا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی بڑی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی لیڈر!اگر توانگ کی مڈبھیڑ سنگین ہوتی تو بھارت اور چین کے کور کمانڈر چند دن پہلے چوشول‘ مولدو سرحدی کیمپ میں بیٹھ کر پُرامن طریقے سے بات کیوں کرتے؟ دونوں فریقوں نے تسلیم کیاکہ وہ تمام مدعوں کو بات چیت سے حل کریں گے۔ 2020ء میں ہوئے گلوان گھاٹی تنازع پر بھی دونوں فریقوں کا رویہ تال میل کاتھا۔ چین کے ساتھ بھارت کی سرحد پر کبھی کبھار جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ چین کے ساتھ بھارت کا کاروبار بھی بڑھتاہی جا رہا ہے۔ بھارتیہ اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟ بھارت زبردستی چین کے ساتھ جھگڑا مول لے لے ؟ کانگرس یہ نہیں چاہ سکتی لیکن وہ مودی سرکار کی کسی بھی طرح کھنچائی کرنا چاہتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ ایک نان ایشو کو مدعا بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
یہ مذہب کی تعلیمات نہیں!
مذہب سے متعلق بھارت میں پیش آئے دو‘ تین واقعات نے آج میرا دھیان کھینچا ہے۔ اترپردیش کے سیتا پور گائوں میں تین لوگوںکو اس لیے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ گائوں کے لوگوں کو ڈنڈے کے زور پر عیسائی بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ انہوں نے لوگوںکو کچھ لالچ بھی دیے اور پوتر کراس بھی بانٹے۔ دھرم تبدیل کرانے والے کچھ بھارتیہ عیسائیوں کے ساتھ برازیل کے چار پادری نما ٹورسٹ بھی تھے۔ ادھر مدھیہ پردیش کے بستر ضلع میں تقریباً 60عیسائی خاندانوں کو بھاگ کر ایک سٹیڈیم میں پناہ لینا پڑی کیونکہ ان پر کچھ لوگوں نے حملے شروع کردیے تھے۔ حملہ آوروں کا الزام ہے کہ پادری لوگ آدی واسیوں (قبائلیوں) کو گمراہ کرکے عیسائی بنا ڈالتے ہیں۔ اسی طرح بڑودرا کے پاس ایک گائوں میں ایک عیسائی شخص کو لوگوں نے صرف اس لیے پیٹ دیا کہ وہ کرسمس کے موقع پر سانتا کلاز کے کپڑے پہن کر لوگوں کو چاکلیٹ بانٹ رہا تھا۔ ادھر کرناٹک کی ریاستی اسمبلی ایک ایسا بل لانے کی تیاری میں ہے کہ مسلمان لوگ گوشت کے لیے جانوروں کو حلال نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ اترپردیش سرکارکی کوشش ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کا لباس دیگر سکولوں کے بچوں کی طرح ہو اور ان کی چھٹی ہر ہفتے جمعہ کے بجائے اتوار کو ہو۔ اوپر گنوائے گئے تقریباً سبھی معاملے ایسے ہیں جن کا مذہب سے، روح سے، روحانیت سے‘ راہ نمائی سے یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان سب کاموں کا تعلق محض مذہبی جنونیت سے ہے۔ جو لوگ دوسرے لوگوں کا مذہب تبدیل کراتے ہیں‘ ان سے پوچھئے کہ آپ خود جس عقیدے کو مانتے ہیں، کیا اسے اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر آپ نے اپنایا ہے یا آپ کوپیدا ہوتے ہی جنم گھٹی کے ساتھ یہ پلا دیا گیا تھا۔ لوگ مذہب‘ دھرم کے نام پر چلا چلا کر لوگوں کے کان پھوڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر خود انہوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات کو پڑھ کر بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ پچھلی آٹھ دہائیوں میں مَیں تقریباً 70ملکوں میں گیا ہوں۔ مختلف خطوں، ملکوں، علاقوں اور دھرموں کے لاکھوں لوگوں سے میرا آمنا سامنا ہوا ہے لیکن میں کسی ایک بھی ایسے آدمی سے نہیں ملا ہوں جو بچپن میں وید پڑھ کر ہندو بنا ہو، جندہ وستا پارسی بنا ہو یا بائبل پڑھ کر یہودی یا عیسائی بنا ہو۔ نیز ترپٹک پڑھ کربودھ بنا ہو، اگم سوتر پڑھ کر جین بنا ہو یا گوروگرنتھ صاحب پڑھ کرسکھ بنا ہو۔ اگر پڑھ لکھ کر یا سوچ سمجھ کر کوئی کسی بھی مذہب کو اپنانا چاہے تو اسے ا س کی آزادی ہونی چاہئے لیکن جنم گھٹی، لالچ، ڈر، ٹھگی اور ترغیب سے تبدیل ہونے والی سبھی دھرم تبدیلیاں قابلِ ترک ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے محض چاکلیٹ بانٹنے پر ایک شخص کو پیٹ دیا‘ کیا وہ دھرم سے اپنے اس اقدام کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں؟ یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود تو سارا سال مذہب و دھرم سے دور رہتے ہیں مگر چاہتے ہیں کوئی ایسا کام کر جائیں کہ شارٹ کٹ کے طور پر انہیں سورگ مل جائے۔ اگر کسی کو اس کا دھرم دوسروں کی مارپیٹ کرنے اور انہیں جان سے مار دینے پر اکساتا ہے تو اسے ضرور غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز کے پیچھے اپنی زندگی خراب کر رہا ہے۔ بہت سے نیتا محض ووٹ بٹورنے کے لیے بھی عوام کو اس طرح کے دھندوں کے پیچھے لگا دیتے ہیں تاکہ لوگ آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں اور ان کی دکانداری چمکتی رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں