"DVP" (space) message & send to 7575

مفت اناج‘ اچھا منصوبہ لیکن…

بھارت کے نچلے طبقے کے 81 کروڑ لوگوں کو مفت راشن اور تقریباً 25 لاکھ سابق فوجیوں کو پنشن میں مراعات کا اعلان‘ جو مرکزی سرکار نے ابھی ابھی کیا ہے‘ اس کا کون سواگت نہیں کرے گا؟ ایسا اعلان اب سے پہلے کسی سرکار نے کیا ہو‘ مجھے یاد نہیں پڑتا۔ پچھلی سرکاروں نے مشکل وقتوں میں طرح طرح کی مراعات کے اعلانات ضرور کیے لیکن 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو سال بھر تک 35 کلو تک اناج مفت ملے گا‘ یہ بہت بڑی سوغات ہے۔ کورونا دور کے دو سالوں میں بھی سرکار نے بے سہارا لوگوں کو کم دام پر اناج دے کر کافی مدد پہنچائی تھی ۔ کورونا مرض کے آغاز سے ہی لاکھوں بھارتیوں کو سبسڈائزڈ قیمتوں پر ہر ماہ پانچ کلو گرام گیہوں یا چاول حکومت کی جانب سے دیے گئے تھے۔ لیکن اب انہیں یہ اناج بالکل مفت ملا کرے گا۔ اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اوردنیا میں غذائی تحفظ کے خدشات کے پیشِ نظرہی بھارت نے دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں سستے اناج کی دستیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔اس نے اِس سال گندم اور چاول کی برآمدات کو محدود کر دیا تھا کیونکہ خراب موسم نے فصل کو نقصان پہنچایا تھا حالانکہ پوری دنیا میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور عالمی سطح کے بحران نے زرعی منڈیوں کو ہلا کررکھ دیا۔آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اتنا اناج سرکار مفت میں تقسیم کر دے گی لیکن وہ اسے کرے گی کیسے؟ اس وقت بھارت کے سرکاری سٹورز میں تقریباً چار کروڑ ٹن اناج بھرا پڑا ہے۔ اسے اپنے لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے ملکوں کے آگے جھولی پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اندرا گاندھی راج کے وہ دن اب نہیں رہے جب بھارت کو پی ایل 480 گیہوں کو امریکہ سے درآمد کرنا پڑتا تھا۔ اُن دنوں سینکڑوں‘ ہزاروں لوگ قحط کے سبب موت کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ آج کل بھارت اناج کا بڑا پیدا کنندہ ملک ہے۔ یہ دنیا میں چین کے بعد‘ سب سے زیادہ اناج پیدا کرتا ہے۔ اس نے کچھ پڑوسی ممالک کو پچاس‘ پچاس ہزار ٹن گیہوں تحفے میں بھی دیا ہے۔ اس بار سرکار مفت اناج کی تقسیم پر 2 لاکھ کروڑ (بیس کھرب)روپے خرچ کرے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا یہ تازہ اعلان 2023ء میں متعدد ریاستوں میں انتخابات اور 2024ء کے عام انتخابات سے قبل سامنے آیا ہے۔ مودی حکومت نے کووِڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کے اثرات سے لوگوں کو بچانے کے لیے 2020ء میں مفت کھانے کاجو پروگرام شروع کیا تھا‘اس کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ اس سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو بعض بڑی ریاستوں میں انتخابات جیتنے میں بھی مدد ملی ہے۔اگرچہ مفت اناج والا منصوبہ بہت اچھا ہے لیکن اس سے حکومت کی پہلے سے دباؤ کی شکار مالیات پرمزید دباؤ پڑے گا‘ پہلے بھی اسے بجٹ کے وسیع فرق کوپاٹنے کے لیے مارکیٹ سے زیادہ قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا لیکن حکومت چاہے تو دوسرے غیر ضروری اخراجات کو کم کر کے یہ خرچہ پورا کر سکتی ہے۔ سرکاری فراخ دلی پر میرا فوری ردعمل یہ ہے کہ ضرورت مند لوگوں کو بالکل مفت اناج دینے کے بجائے پہلے کی طرح اس کی قیمت پانچ سے سات روپے فی کلو ضرور رکھی جائے ورنہ اس مفت رعایت پر وہ کہاوت نافذ ہو گی کہ ''مالِ مفت، دلِ بے رحم‘‘۔ اس اناج پر طرح طرح کی ناانصافی بھی ہو گی۔ لوگ اسے اکٹھا کریں گے۔ افسروں، کاروباریوں اور بیوپاریوں کی ملی بھگت اسے حقیقی غریبوں تک پہنچنے ہی نہیں دے گی۔ دنیا کے سب سے بڑے مفت خوراک کے منصوبے کو جاری رکھنا یقینا ایک چیلنج ہو گا۔ اس سے پہلے کورونا میں حکومت جو سبسڈی دے رہی تھی تقریباً دس کھرب روپے‘ یہ اس سے دو گنا مہنگا منصوبہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مفت اناج کی طرح بھارت میں میڈیکل اور تعلیم بھی مفت ہونی چاہئے؛ اگرچہ اس پر بھی معمولی فیس ضرور رکھی جانی چاہئے۔ اگر ملک کے بے کس اور بے بس لوگوں کو اناج، تعلیم اور ادویات تقریباً مفت ملنے لگیں تو اگلے دس برس میں بھارت کو ترقی یافتہ ملک بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو سرکار یہ تینوں چیزیں بے بس عوام کو قابلِ رسائی بنا کر دے گی، اسے اگلی کئی دہائیوں تک کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔
نیپال کی نئی حکومت اور بھارت کی پریشانی
تقریباً ہزار سال پہلے راجہ بھرتر ہری نے سیاست کے بارے میں جو شلوک لکھاتھا‘ نیپال کی سیاست نے اس کی سچائی اجاگر کردی ہے۔ اس شلوک میں کہا گیا تھا کہ سیاست کئی چہروں والی ہوتی ہے‘ یعنی وہ وقتاً فوقتاً اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔ نیپال میں کل تک پشپ کمل دہل 'پرچنڈ‘اور شیر بہادر دیوبا مل کر سرکار بنا رہے تھے لیکن اب پرچنڈ اور کے پی اولی اچانک آپس میں مل گئے ہیں اور اب وہ اپنی سرکار بنا رہے ہیں۔ یہ تینوں بڑے نیتا تین پارٹیوں کے کرتا دھرتا ہیں۔ ایک پارٹی نیپالی کانگرس ہے اور بقیہ دو کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔ یہ تینوں پارٹیاں ایک دوسرے کی شدید مخالف رہی ہیں۔ ان کے کارکنان نے ایک دوسرے کے قتل تک کر رکھے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر سرکار یں بھی بنائی ہیں اور اَن بن ہونے پر بیچ میں ہی وہ سرکار یں گرتی بھی رہی ہیں۔ یعنی کرسی ہی حقیقت ہے‘ اصول اور پالیسیاں جھوٹی ہیں۔ اب پرچنڈ نیپال کے وزیراعظم بنے رہیں گے پہلے ڈھائی سال تک اور بقیہ ڈھائی سال کے پی اولی وزیراعظم بنیں گے۔ اگر پرچنڈ کوشیر بہادر دیوبا اپنے سے پہلے وزیراعظم بننے دیتے تو وہ دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال سکتے تھے۔ پچھلے چناؤ میں ان کی پارٹی نیپالی کانگرس کو 89 سیٹیں ملیں اور پرچنڈ کی پارٹی کو صرف 32سیٹیں۔ نیپالی کانگرس پرچنڈ کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں صرف صدر (سپیکر) کا عہدہ دینا چاہتی تھی جبکہ صدر اور وزیراعظم کے عہدے خود اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی۔ اسی لیے پرچنڈ نے آناً فاناًاپنے حریف کامریڈ اولی کو پٹایا اور ان کی پارٹی کے 78 ممبران اور دیگر پارٹیوں کے ممبران کو جوڑ کر 168 ممبران کا گٹھ بندھن کھڑاکرلیا۔ 275 ممبران کی پارلیمنٹ میں اب نیپالی کانگرس کے بجائے اس گٹھ بندھن کی اکثریت ہوگئی۔لیکن اب سوال یہی ہے کہ یہ سرکار چلے گی کب تک؟ نیپال میں سرکار کی مدت جتنی چھوٹی ہوتی ہے‘ شاید اتنی چھوٹی کسی بھی ملک میں نہیں رہی ہے۔ یہ سرکار کیسے چلے گی‘ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کیونکہ وزیراعظم پرچنڈ کے 32 ارکان ہیں اور اولی کے 78 ممبران! اولی جب چاہیں گے‘ پرچنڈ کی کرسی کھینچ لیں گے یا انہیں اپنے چمٹے سے دبائے رکھیں گے۔ کوئی حیرانی نہیں کہ کچھ ماہ میں ہی ہم کٹھمنڈو میں نئے گٹھ بندھن کو ابھرتے دیکھ لیں۔ جو بھی ہو‘ پرچنڈ اور اولی کے گٹھ بندھن سے اگر سب سے زیادہ خوشی کسی کو ہوگی تو وہ چین کو ہوگی کیونکہ یہ دونوں ہی جماعتیں چین کی حامی ہیں۔ پرچنڈنے 1996ء سے 2006ء کے دوران نیپال کی خانہ جنگی کے دوران ماؤ نواز گوریلا تحریک کی قیادت کی تھی اور ملک سے 240 سالہ شہنشاہیت کے خاتمے اور پارلیمانی جمہوریت کے قیام میں اہم کردارادا کیا تھا۔ اس سے پہلے 2009ء اور 2017ء میں خود کو اقتدار سے محروم کیے جانے کے لیے پرچنڈ نے بھارت کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ اولی نے تین بھارتیہ علاقوں کو نیپال کے نئے نقشے میں نیپالی بتادیا تھا۔ یہ سرحدی تنازع بھی طول پکڑ سکتا ہے۔ 1950ء کا بھارت‘ نیپال معاہدہ بھی ایک متنازع مدعا ہے۔ دونوں نیتا جب ایک دہائی تک اقتدار مخالف پُرتشدد جدوجہد میں جٹے ہوئے تھے‘ تب انہوں نے بھارت پر بھی جم کر وار کیے تھے۔ اب دونوں ایک ہوگئے ہیں‘ دیکھئے یہ دونوں مل کر کیا کرتے ہیں؟ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر پرچنڈ کو مبارک باد دی ہے۔ اس وقت بھارت اور نیپال کے تعلقات پہلے ہی پیچیدہ سطح پر ہیں‘ بھارت مخالف اور ماؤ نواز تحریک کے رہنما کی اقتدار میں واپسی پہلے سے خراب تعلقات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ بھارت کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ابھی سے خاص طور پر چوکنا رہنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں