بھارتیہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ کوئی وزیر اگر قابلِ اعتراض بیان دیتا ہے تو کیا اس کے لیے اس کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ اس لیے اٹھا تھا کہ اعظم خان نامی اترپردیش کے ایک وزیر نے2016ء میں ایک ریپ کیس کے معاملے میں انتہائی قابلِ اعتراض بیان دیا تھا۔ نفرتی بھاشنوں کے خلاف بھارتیہ سپریم کورٹ میں مزید کئی پٹیشنوں پر بھی بحث چل رہی تھی جن میں مانگ کی گئی تھی کہ دھارمک سٹیجوں اور ٹی وی بحثوں کے دوران جو نیتا لوگ نفرت پھیلانے والے جملے بولتے اور لکھتے ہیں‘ ان کے خلاف سرکار سخت قانون بنائے اور انہیں سخت سزا دے اور جرمانے کے لیے بھی مجبور کرے۔اب سپریم کورٹ کے پانچ ججوں میں سے چار کی رائے ہے کہ ہر وزیر اپنے بیان کے لیے خود ذمہ دار ہے‘ اس کے لیے اس کی حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس رائے سے الگ ہٹ کر جسٹس بی وی ناگ رتن کا کہنا تھا کہ اگر اس وزیر کا بیان کسی سرکاری پالیسی کے معاملے میں ہو تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جانی چاہیے۔ باقی چار ججوں کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ ملک میں سب کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے‘ اس آزادی کا جو بھی غلط استعمال کرے گا‘ اسے ہی سزا ملے گی۔ ایسی صورتِ حال میں الگ سے کوئی قانون نافذ کرنا اظہارِ رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہو گی۔ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 19(2)میں اظہارِ رائے کی آزادی پر جتنی بھی حدیں رکھی گئی ہیں‘ وہ کافی ہیں۔ چاروں ججوں کی رائے کافی معقول معلوم ہوتی ہے لیکن خاتون جج ناگ رتن کی تشویش بھی قابلِ توجہ ہے۔ آخر وزیر کے کسی بیان کی تشہیر اسی لیے کی جاتی ہے کہ وہ ایک وزیر ہے‘ وہ ایک سرکاری عہدے پر براجمان ہے اور حکومت کی نمائندگی کرتا ہے لیکن یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اس کے ذاتی بیانات کے لیے اسی کی پارٹی اور حکومت کو ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے کہ اس کا کون سا بیان ذاتی ہے اور کون سا اس کی حکومت سے متعلق ہے۔ اصلی سوال یہ بھی ہے کہ آپ نفرت پھیلانے والے بھاشن یا تحریر کو ناپیں گے کس معیار پر؟ آپ کیسے طے کریں گے کہ فلاں شخص نے جو کچھ لکھا یا بولا ہے اس سے نفرت پھیل سکتی ہے یا نہیں؟ کسی کے بیان پر کوئی دنگا ہو جائے، قتل ہو جائیں، جلوس نکل جائیں، آتشزدگی ہو جائے یا ہڑتالیں ہو جائیں تو کیا تبھی اُس کی اس حرکت کو نفرتی مانا جائے گا؟ یہ معیار بہت نازک ہے اور الجھن بھرا بھی۔ میرے خیال میں اس معاملے میں جیسا قانون ابھی دستیاب ہے‘ وہی کافی ہے۔ قانون کی نئی سختیاں نافذ کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہمارے وزرا اور لیڈر از خود کچھ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ان کی کابینہ اور ان کی پارٹی انہیں روایات اور اقدار میں رہنا سکھائے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پارٹی اور حکومت کے اعلیٰ ترین رہنما بھی الٹے سیدھے بیانات دینے سے باز نہیں آتے۔ بھارتی میڈیا، اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی ان زہریلے اور چٹ پٹے بیانات کو اچھالنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینلوں اور اینکروں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے موضوعات کو طول دینے لگے ہیں جومعاشرے میں ہیجان کو فروغ دیتے ہیں۔ زیادہ تر بھارتیہ چینلز بڑبولے قسم کے سطحی مقرروں کو بلا کر ان کا دنگل دکھاتے رہتے ہیں۔ ان بحثوں میں شامل لوگ ایک دوسرے کی بات کاٹنے کیلئے نازیبا زبان کا استعمال کرتے اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ سنجیدہ مزاج کے لوگ ان بحثوں کو دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ ٹی وی دیکھنے سے اُوب جاتے ہیں۔ اگر بھارت کی خبر رساں ایجنسیاں اپنی 'سرخ ریکھائیں‘ کھینچ دیں تو اس طرح کے زہریلے، تلخ اور گھٹیا بیانات پر کسی کی توجہ مرکوز نہیں ہو گی۔ سپریم کورٹ نے بھارت کے اینکروں کی کھنچائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ وہ لوگ تجزیہ کاروں اور اپنے شعبے کے ماہرین کو بولنے کا کم ہی موقع دیتے ہیں اور اپنی دال ہی دَلتے رہتے ہیں۔ آج کل کے کچھ ٹی وی چینل اکھاڑے بازی میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے تجزیہ کار اور مہمان ایک دوسرے پرچیخیں‘ چلائیں اور ناظرین ان چینلوں سے چپکے رہیں۔ اس ضمن میں بھارتیہ میڈیا کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہے۔ جو لیڈر متنازع بیانات دینے کے عادی ہیں‘ ان کی پارٹیاں ان پر سخت پابندیاں بھی لگا سکتی ہیں، انہیں سزا بھی دے سکتی ہیں۔ اگر بھارت کا میڈیا اور سیاسی پارٹیاں اپنے آپ سے عزم کر لیں تو وہ لیڈروں کی اس بدزبانی کو کافی حد تک روک سکتی ہیں۔ عدالتوں کی مدد سے انہیں روکنے کی نسبت یہ زیادہ بہتر طریقہ ہے۔
راہل کی بھارت جوڑو یاترا: خالی جھنجھنا
کچھ روز قبل میں نے لکھا تھا کہ راہل گاندھی کے پاس اگر بھاجپا کا کوئی متبادل سیاسی فلسفہ ہوتا تو بھارت کی سبھی اپوزیشن پارٹیوں کو ایک دھاگے میں باندھا جا سکتا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اب راہل گاندھی نے بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ انہوں نے اپنی بھارت یاترا کے دور میں اپنی نویں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بھاجپا کو ہرانے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے پاس اپنا کوئی نظریہ ہونا چاہئے۔ راہل گاندھی کو شاید پتا نہیں ہے کہ بھارت کی سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے پاس زبردست نظریہ ہے اور ہر پارٹی کے پاس دو‘ دو نہیں بلکہ چار چار آنکھیں ہیں۔ان چار آنکھوں سے وہ چاروں طرف دیکھتی ہیں اور انہیں بس ایک ہی چیز دکھائی پڑتی ہے اور وہ ہے: اقتدار، کرسی اور گدی! اس نظریے کے علاوہ سبھی پارٹیاں خالی دامن ہیں۔ ان کے پاس اصول، نظریات، پالیسی اور پروگرام کے نام پر خالی جھنجھنا ہوتا ہے۔ اسے وہ پارٹیاں اور لیڈران بجاتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس ذات، مذہب، فرقہ، زبان، صوبائیت وغیرہ کی ڈوریں ہوتی ہیں، جنہیں وہ گاہے گاہے ہلاتے رہتے اور اپنا مفاد کشید کرتے رہتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر وہ چنائو میں ووٹ بٹورتے ہیں۔ چناؤ کے دنوں میں وہ ان جھنجھنوں اور سارنگیوں کے ذریعے اپنی کشتی پار لگانے میں جتے رہتے ہیں۔ اور اگر وہ اقتدار میں ہوں تو وہ ریوڑیوں کا انبار لگا دیتے ہیں۔ کسی نیتا یا سیاسی پارٹی کے پاس بھارت کی غریبی ا ورعدم مساوات کو دور کرنے کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا۔ انہیں پتا ہی نہیں ہے کہ بھار ت کو خوشحال اور طاقتور بنانے کے لیے کیا کیا قدم اٹھانے چاہئیں۔ سبھی پارٹیاں برسرِاقتدار آنے کے لیے نوٹ اور ووٹ کا ڈھول پیٹتی رہتی ہیں۔ برسرِاقتدار آنے پر وہ نوکر شاہوں کی نوکری کرنے لگتی ہیں۔ بھارت میں صرف کمیونسٹ پارٹی ایسی ہے جس کے کچھ نیتا پڑھے لکھے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے ہیں لیکن یہ پارٹی بھی لسانیت اور صوبائیت (کیرالا) کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ کانگریس اس وقت واحد اپوزیشن پارٹی ہے جس کے ممبر آج بھی بھارت کے ہر ضلع میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس نہ کوئی نیتا ہے اور نہ ہی راج نیتی۔ تقریباً 10‘ 12سال پہلے راہل گاندھی میں کچھ امکانات اور امید کی کرنیں دکھائی پڑ رہی تھیں لیکن اتنا لمبا وقت ''باپ کمائی اوردادی کمائی‘‘ کھیلنے میں یعنی اپنے باپ راجیو گاندھی اور دادی اندرا گاندھی کا نام بیچنے میں گزر گیا۔ اب جبکہ کانگریس وینٹی لیٹر پر آ گئی ہے‘ تو راہل نے سیاست کی اے بی سی سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ادھر اکھیلش یادیو کی پارٹی نے بھارت جوڑو یاترا سے جڑنے سے منع کر دیا ہے۔ ممتا بینر جی اور کمار سوامی دوسرے بھاجپا مخالف سینئر نیتا اس یاترا سے کیسے جڑیں گے؟