"DVP" (space) message & send to 7575

ہندی کا عالمی دن

10جنوری عالمی یومِ ہندی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میں اس دن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کروں‘ اس سے بہتر یہ ہوگا کہ اس دن ماضی اور حال کے قومی اور بین الاقوامی رہنماؤں اور دانشوروں کی طرف سے ہندی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا‘ اس کا مختصر احوال آپ کے سامنے پیش کروں۔ ہندی کے ذریعے پورے بھارت کو ایک دھاگے میں پرویا جا سکتا ہے۔ میری آنکھیں اس دن کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں جب لداخ سے کنیا کماری تک سب بھارتی ایک ہی زبان کو سمجھنے اور بولنے لگیں گے (مہارشی دیانند سرسوتی)۔ اگر میں کوئی تانا شاہ ہوتا تو آج ہی غیرملکی زبان میں تعلیم دینے پر پابندی لگا دیتا۔ میں نصابی کتابوں کے تیار کیے جانے کا انتظار بھی نہ کرتا۔ تمام اساتذہ کو مقامی زبانیں اپنانے پر مجبور کر دیتا‘ جو ٹال مٹول کرتے انہیں برخاست کر دیتا۔ ''انگریزوں کو ہم گالیاں دیتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کو غلام بنایا لیکن ان کی انگریزی زبان کے تو ہم ابھی تک غلام بنے بیٹھے ہیں‘‘ (مہاتما گاندھی)۔ میں اس لیے ہندی میں لکھتا اور تقریریں کرتا ہوں کیونکہ اس زبان میں خیالات کو واضح طور پر سامنے لانے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ہندی رسم الخط میں ہی ملک کی باقی سب زبانیں بھی لکھی جائیں۔ اس سے وہ زبانیں سیکھنا بھی آسان ہو جائے گا۔ صرف انگریزی سیکھنے میں جتنی محنت کرنا پڑتی ہے‘ اتنی محنت میں ہندوستان کی تمام زبانیں سیکھی جا سکتی ہیں۔ ''میں دنیا کی سب زبانوں کی عزت کرتا ہوں لیکن میرے ملک بھارت میں ہی ہندی کی عزت نہ ہو یہ میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘ (سنت ونوبا بھاوے)۔ ''جب ایک بار انسان کو شراب نوشی کی عادت پڑ جاتی ہے تو کسی نہ کسی شکل میں اُسے قانون کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔ آج انگریزی شراب نوشی سے بھی زیادہ نقصان کر رہی ہے اور انگریزی بندی شراب بندی سے بھی زیادہ ضروری ہو چکی ہے‘‘ (ڈاکٹر رام منوہر لوہیا)۔ ''جب تک بھارتی پارلیمنٹ کے مباحثے انگریزی میں چلتے رہیں گے‘ بھارت کی سیاست کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں رہے گا اور وہ ایک چھوٹے سے طبقے تک محدود ہو کر رہ جائے گی‘‘ (گنار مرڈل‘ سویڈن کے مشہور ماہر سماجیات)۔ ''کسی مہذب ملک میں غیرملکی زبان کے ذریعے تعلیم فراہم نہیں کی جاتی۔ غیرملکی زبان کے ذریعے تعلیم دینے سے طالب علموں کا ذہن منتشر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ہی ملک میں خود کو پردیسی سمجھنے لگتے ہیں‘‘ (رابندر ناتھ ٹیگور)۔ '[بھارت میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے درمیان میں انگریزی کیسے رابطے کی زبان بن سکتی ہے‘ کیا دہلی کا راستہ لندن سے ہوکرگزرتا ہے۔ انگریزی علیحدگی پسندی پیدا کرتی ہے۔ عوام اور حکمران کے درمیان‘ رعایا اور شاہ کے درمیان۔ انگریزی ہٹے گی تو شمالی بھارت کے لوگ بھی جنوب کی زبان سیکھیں گے‘‘ (آلفنس وات ویل‘ ہالینڈ)۔ (یہ اقتباسات ڈاکٹر ویدک کی کتاب ''ہندی کیسے بنے وشو بھاشا‘‘ سے لیے گئے ہیں)
موہن بھاگوت اور بھارتی مسلمان
اگلے روز راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندی ہفت روزہ ''پانچ جنیہ‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایسی کئی باتیں کی ہیں جو بھارت کے عوام بالخصوص سنگھ کے سویم سیوکوں کی خصوصی توجہ کی طالب ہیں۔ انہوں نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں پہلی بات یہ کہی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ انہیں بھارت میں ویسے ہی بے خوف رہنا چاہیے جیسے دیگر بھارتی رہتے ہیں۔ آج کل بہت سے مقامی اور بین الاقوامی دانشور یہ محسوس کرتے ہیں کہ جب سے مودی سرکار قائم ہوئی ہے‘ بھارت کے مسلمان بہت خوفزدہ ہیں۔ یہ بات کچھ حد تک درست ہے لیکن اس کی اصل ذمہ دار مودی سرکار نہیں بلکہ کچھ سر پھرے ہندو توا وادی لوگ ہیں جو کہ نفرت پھیلاتے ہیں اور اپنے طرزِ عمل سے لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں۔ بھاجپا سرکارکو ان انتہا پسندوں اور نام نہاد ہندو توا وادیوں کے خلاف سخت اقدام کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ سچائی تو یہ ہے کہ وہ انتہا پسند عناصر ہندوتوا کی بنیادی روح کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ان میں بعض یورپی ممالک کی مذہبی انتہا پسندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مذہب کے نام پر ان ملکوں میں اب بھی خوفناک مظالم جاری ہیں۔ یہ غیرملکی مذہبی اندھا پن اب بھارت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کوئی کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو‘ یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن گوروں کی نقل کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرنا کسی طور درست نہیں۔ کوئی شخص کسی بھی مذہب یا نظریے کو مانے یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن وہ سب سے پہلے خود کو سچا اور پکا بھارتی بنائے‘ کیا یہ ضروری نہیں ہے؟ اب آپ دیکھیں کہ سعودی عرب کے موجودہ حکمران شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی عرب روایات میں کتنی بڑی تبدیلیاں کردی ہیں۔ موہن بھاگوت بھارتی لوگوں سے یہ برابر کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں‘ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیا کسی اور ہندو یا مسلم رہنما نے آج تک ایسی بات کہی ہے؟ ان کی اس بات سے کئی کم عقل مذہبی انتہا پسند چِڑ بھی سکتے ہیں لیکن بھارت ہی نہیں پورے جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کو جوڑنے میں یہ بات فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ موہن بھاگوت نے ہندوؤں کا موازنہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے کرتے ہوئے کہا کہ ہندو سماج اگر خود کو جانے گا‘ تو ہی اپنے بہتر مستقبل کا تعین کر پائے گا۔ دیگر مذاہب کے ماننے والے کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمارا مذہب اختیار کرو‘ اور جو ہمارا مذہب اختیار نہیں کرے گا اسے یا تو ہمارے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا یا پھر مرنا پڑے گا۔ کمیونزم‘ کیپٹل ازم سمیت سب ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں کہ سب کو ہماری راہ اختیار کرنی ہوگی کیونکہ ہم ہی صحیح ہیں‘ ہمارے رحم و کرم پر ہی رہو‘ یا ختم ہو جاؤ۔ ہم تمہیں تباہ کر دیں گے۔ موہن بھاگوت پھر یہ کہتے ہیں ہندوؤں کا عالمی نظریہ اس کے برعکس ہے۔ ہندو کبھی ایسا نہیں کہتا کہ سب کو ہندو مذہب ماننا پڑے گا‘ ہمارا ایسا نظریہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کے سامنے ایک مثال پیش کریں گے۔ جسے ہمارا نظریہ اچھا لگے وہ اس کی پیروی کرے جسے سمجھ میں نہیں آتا وہ دوسرا راستہ اختیار کرنے کی مکمل آزادی رکھتا ہے۔ ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑیں گے لیکن ہمیں خود کو اُن سے محفوظ رکھنے کی سعی تو کرنا ہی پڑے گی۔ موہن بھاگوت حالیہ دنوں میں مساجد میں بھی جا چکے ہیں‘ وہاں وہ اماموں سے بات چیت کر چکے ہیں‘ کیا یہ کم بڑی بات ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ بھارتی مسلمان دین اسلام کے سچے اور پکے پیروکار ہیں لیکن وہ وسطی ایشیا کے حملہ آوروں کے وارث نہیں ہیں۔ ان حملہ آوروں کی تو اپنی اولادیں بھی اب مکمل بھارتی بن چکی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ تقریباً ہزار سال تک غیرملکیوں نے بھارت کو دبانے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف بھارتی لوگ لگاتار لڑتے رہے ہیں لیکن وہ دشمنی اب کسی بھی شکل میں زندہ نہیں رہنی چاہیے۔ موہن جی نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بھارتیوں پر اس وقت کوئی غیرملکی حملہ تو نہیں ہو رہا ہے لیکن بھارتی خود غیرملکیوں کے نقال بن رہے ہیں‘ وہ ان کے غلط رجحانات کی پیروی کر رہے ہیں۔ موہن بھاگوت کے اس قول پر بھارت کے نام نہاد نیتا خاص طور پر بھاجپا کے لوگ دھیان دیں یہ‘ ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں