"DVP" (space) message & send to 7575

آئین محض ایک جملہ نہیں ہے

بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کے بیان پر اپوزیشن لیڈر بری طرح بپھر گئے ہیں۔ کانگریس لیڈر انہیں بی جے پی حکومت کا بھونپو بتارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہیں نائب صدر کا عہدہ ممتا بینر جی کی مخالفت کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اور کچھ اپوزیشن لیڈر انہیں 'ایمرجنسی کی ماں‘ اندرا گاندھی کا وارث بھی قرار دے رہے ہیں۔ جس طرح اندرا گاندھی نے1975ء میں بھارتیہ سپریم کورٹ کے وقار کو تہس نہس کیا تھا‘ ویسا ہی الزام نائب صدر دھنکھڑ پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ایسے الزامات لگانے والے یہ بتائیں کہ اندراگاندھی کی طرح دھنکھڑ کو کیا کسی عدالت نے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے؟ وہ اپنا کوئی مقدمہ تو سپریم کورٹ میں نہیں لڑ رہے ہیں۔ وہ خود ایک باصلاحیت وکیل رہے ہیں۔ وہ ایک صاف گو مقرر بھی ہیں۔ انہوں نے اگر پارلیمانی سپیکرز کانفرنس میں پارلیمنٹ کی بالادستی پر اپنے دوٹوک خیالات کا اظہار کیا ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر وہ غلط ہیں تو آپ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مضبوط دلائل کیوں نہیں دیتے؟ آپ دلائل پیش کرنے کے بجائے الفاظ کی تلوار کیوں چلارہے ہیں؟ آئین کے تقدس اور منظوری پر دھنکھڑ نے کوئی سوالیہ نشان نہیں لگایا ہے۔ انہوں نے جو بنیادی سوال اٹھایا ہے‘ وہ یہ ہے کہ کیا نظامِ عدل یا بھارت کی سپریم کورٹ سپریم ہے یا پارلیمنٹ سپریم ہے؟ ملک کی تمام عدالتوں میں تو سپریم کورٹ اعلیٰ ترین ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے لیکن وہ پارلیمنٹ سے بھی اونچی کیسے ہو گئی ہے؟ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے اور سپریم کورٹ کا کام پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا، اس حوالے سے پارلیمنٹ کے پاس سپریم کورٹ سے زیادہ اختیارات ہیں۔ بھارتیہ پارلیمنٹ کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایک ہی جھٹکے میں تمام ججوں کو مواخذہ کر کے عہدے سے برطرف کرسکتی ہے۔ یہ حق اسے بھارتیہ آئین نے ہی دیا ہوا ہے۔ جہاں تک آئین کے 'بنیادی ڈھانچے‘کا سوال ہے، کس سیکشن میں اسے اَنمٹ، ٹھوس اور ناقابلِ تغیر و تبدیلی قرار دیا گیا ہے؟ مسٹر وسنت ساٹھے اور میں نے تو تقریباً 30سال پہلے ملک میں صدر راج لانے کی مہم بھی شروع کی تھی۔ میں تو آج کل بھی انتخابی نظام کا متبادل تلاش کر رہا ہوں اور آپ اس نظام کے بنیادی ڈھانچے پر آنسو بہا رہے ہیں، پارلیمنٹ چاہے تو پورے آئین کو منسوخ کر کے نیا آئین بنا سکتی ہے۔ کیا بھارت کا آئین عدالتوں نے بنا کر پارلیمنٹ اور ملک کے دوسرے ستونوں کے حوالے کیا ہے؟ بھارتیہ سپریم کورٹ تو اکثر اپنی ہی نچلی عدالتوں کے اور کئی بار اپنے ہی فیصلوں کو منسوخ کرتی رہتی ہے۔ اس کے فیصلوں میں تمام ججوں کا اتفاق بھی نہیں ہوتا ہے۔ 'بنیادی ڈھانچہ‘ کے فیصلے میں بھی سات جج ایک طرف اور چھ جج دوسری طرف تھے۔ ہندوستانی آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے، اسے صرف عدالت کو طے کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر پارلیمنٹ چاہے تو وہ ایک دم نیا آئین لاسکتی ہے، جیسا کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوا ہے۔ ہٹلر کی موت کے بعد جرمنی نے ڈر کے مارے جو التزام اپنے آئین کے لیے کیا تھا‘ اس کی آنکھیں بند کرکے نقل ہمارے لیڈر اور جج کیوں کریں؟ ہمارے ملک میں ہٹلری اور جرمنی کا نظام چل ہی نہیں سکتے۔ ہمارا آئین اتنا لچک دار ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں اس میں تقریباً سواسو ترامیم کی جا چکی ہیں۔ اسی لیے اتنے اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ ابھی تک برقرار ہے لیکن آئین آئین ہے‘ کوئی جملہ نہیں ہے اور آئین ہی سپریم ہوتا ہے اور وہ ادارہ جو آئین سازی کا کام کرتا ہے؛ یعنی پارلیمنٹ۔
سخت معاشی حالات
پاکستان کے آج کل جیسے حالات ہیں‘ میری یادداشت میں بھارت یا ہمارے پڑوسی ممالک میں ایسے حالات ان دنوں نہ میں نے دیکھے اور نہ ہی سنے۔ بھارتی اخبارات پتا نہیں کیوں ان کے بارے میں نہ تو خبریں تفصیل سے شائع کر رہے ہیں اور نہ ہی وہاں کے واقعات کو زیادہ رپورٹ کر رہے ہیں، اس کے برعکس بھارت کے الیکٹرانک میڈیا اور ٹی وی چینلز کا کچھ اور ہی حساب ہے۔ کچھ چینلز تو ایسی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ بھی بھارتیوں کی طرح کی زبان بولتے ہیں اور ان کے جیسے ہی کپڑے پہنتے ہیں۔ وہ جو کچھ بولتے ہیں وہ نہ تو انگریزی ہے، نہ روسی ہے ، نہ یوکرینی‘ کہ یہاں کے لوگوں کو سمجھ نہ آئے۔ وہ تو ہندی جیسی ہی زبان ہے۔ ان کی ہر بات بھارت کے شہریوں کو سمجھ میں آتی ہے۔ اس وقت کئی شہروں میں گیہوں کا آٹا نہیں مل رہا۔ وہاں وہ 100‘ 150 روپے کلو بک رہا ہے۔ سب کو وہ بھی آسانی سے نہیں مل رہا ہے۔ کئی بوڑھے، مرد، عورتیں اور بچے لائنوں میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان کے پنجاب کو گیہوں کا ذخیرہ کہا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں کے لوگ آٹے کے لیے کیوں ترس رہے ہیں؟ یہاں سوال صرف پاکستان کا نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت کھانے پینے کی ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ غریب لوگوں کے تو کیا‘ متوسط طبقے کے بھی پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ اس میں یقینا پاکستان میں آئے سیلاب کا بھی بڑا عمل دخل ہو گا جس میں آدھے سے زیادہ پاکستان ڈوب گیا تھا اور اب بھی کئی لوگ کیمپوں میں ہیں۔ شہباز شریف جب سے وزیراعظم بنے ہیں‘ حالات مشکل سے مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشی حالات کی سختی‘ عالمی حالات کی خرابی اور پھر سیلاب۔ یہ ساری آفتیں یکدم پاکستان کے عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ امریکہ، یورپی ممالک اور سعودی عرب نے حکومت کی مدد ضرور کی ہے مگر مدد سے زیادہ اسے قرض سے لاد دیا ہے۔ایسے میں کئی دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ بھارت خاموش کیوں بیٹھا ہے؟ بھارت اگر افغانستان اور یوکرین کو ہزاروں ٹن اناج اور دوائیاں بھیج سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ پاکستان تواس کا قریبی پڑوسی ہے۔ میں نے ان سے جواب میں پوچھ لیا کہ کیا دونوں ممالک میں پڑوسیوں والے تعلقات ہیں؟ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ 2010ء میں جب پاکستان میں سیلاب آیا تھا تو اس وقت میں نے خود پاکستان فون کر کے وہاں کے ایک اہم نیتا سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر بھارت اس موقع پر پاکستان کو کوئی امداد دے تو پاکستان وہ قبول کر لے گا؟ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا، حالانکہ اس وقت پاکستان کو ساری دنیا سے مدد مل رہی تھی‘ اگر کوئی ملک اس سب سے دور تھا‘ تو وہ بھارت ہی تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی جنیوا کانفرنس میں چین اور جاپان سے لے کر برطانیہ، امریکہ اور یو این او تک کے نمائندے شامل تھے مگر بھارت نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے اور برف پگھلنی چاہیے۔ اس موقع پر اگر نریندر مودی پاکستان کے عوام کے لیے (اس کے حکمرانوں کیلئے نہیں) اپنا ہاتھ بڑھادیں تو یہ ان کی تاریخی اور منفرد پہل مانی جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نریندر مودی کے اس اقدام سے سارک کے بند دروازے بھی کھل جائیں۔ 1947ء میں ہندوستان کے دو ٹکڑے ضرور ہو گئے تھے لیکن یہاں کے ندی‘ پہاڑ‘ درخت سب ایک جیسے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں