بھارتیہ سپریم کورٹ اور مرکز کی مودی سرکار کے درمیان ججوں کی تقرری پر جو کھینچا تانی چل رہی تھی‘ وہ اب کھلے عام بازار میں آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سلیکشن پینل نے سرکار کو جو نام بھیجے تھے، ان میں سے کچھ پر سرکار نے کئی اعتراضات کیے تھے۔ ان اعتراضات کو اکثر خفیہ سمجھا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے انہیں جگ ظاہر کر دیا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کالیجیم (سلیکشن بورڈ) کو واپس بھیجے گئے ناموں پر چیف جسٹس نے چار دن تک غور کرنے کے بعد حکومت سے جاری تکرار کی تمام تفصیلات کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا ہے۔ اس قدم سے مودی سرکار ششدر رہ گئی ہے۔ بھارتیہ چیف جسٹس نے جو تفصیل جاری کی ہے اس میں انٹیلی جنس بیورو اور را کی رپورٹس بھی شامل ہیں۔ اس قدم سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی اعلیٰ عہدے پر تعینات ہونے والے ججوں کی تقرری میں کتنی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔اس بار یہ احتیاط ذرا ضرورت سے زیادہ دکھائی پڑتی ہے کیونکہ ایک جج کو اس لیے تقرری نہیں دی جا رہی کہ وہ ہم جنس پرست ہے اور دوسرے جج کو اس لیے کہ اس نے اپنے ٹویٹس میں کئی بار سرکاری پالیسیوں کی دو ٹوک مخالفت کی ہے۔ جہاں تک دوسرے جج کا تعلق ہے‘ سرکار کے اعتراضات سے اتفاق کرنا قدرے مشکل ہے۔ کیا ایڈووکیٹ شیکھر نے سرکار مخالف ٹویٹ جج رہتے ہوئے کیے تھے؟نہیں‘ بالکل نہیں! تب وہ جج تھے ہی نہیں۔ تب وہ وکیل تھے اور اب بھی ایک وکیل ہیں۔ اگر ایک وکیل کسی بھی مدعے پر کھل کر اپنی رائے ظاہر نہیں کرے گا‘ تو کون کرے گا؟ بھارتیہ شہری کے ناتے انہیں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے۔ ہاں‘ جج اور سرکاری ملازم ہونے کے ناتے انہیں اپنے اظہار پر صبر رکھنا ہوگا۔ مودی سرکار کا ڈر فطری ہے لیکن ان کی تقرری سے پہلے انہیں خبردار کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تقرری کی مخالفت سے سرکار اپنی ہی شبیہ خراب کر رہی ہے۔ کیا اس کا پیغام یہ نہیں نکل رہا کہ سرکار تمام عہدوں پر ''جی حضوروں‘‘ کو لانا چاہتی ہے؟ دوسرے جج پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے اور اس کا ساتھی ایک سوئس شہری ہے۔ بھارتیہ قانون کے مطابق یہ عدالتی عمل میں رکاوٹ کیسے ہے؟ جہاں تک اس جج کے ساتھی کا غیر ملکی ہونا ہے‘ کون نہیں جانتا کہ بھارت کے ایک وزیراعظم، ایک صدر اور ایک وزیرخارجہ سمیت کئی دیگر اہم لوگوں کی بیویاں یا ان کے شوہر غیر ملکی رہے ہیں۔ یہ تو میں اپنی ذاتی جانکاری کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں لیکن اگر ہم تحقیق کرنے چلیں تو ایسے سینکڑوں معاملے سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسا ہونا کوئی مثالی صورتحال نہیں ہے لیکن آج کی دنیا اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کہ اس طرح کے اعتراضات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بھارتیہ نژاد لوگ آج کل دنیا کے تقریباً درجن بھر ملکوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں یا نہیں؟ امریکہ کی نائب صدر اور برطانیہ کے وزیراعظم بھی بھارتیہ نژاد ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ سلیکشن بورڈ (کالیجیم) کی شکل بدلی جائے اور اگر فی الحال اسے نہیں بدلنا تو سرکار اور سپریم کورٹ میں چل رہی مڈ بھیڑ فوراً روکی جائے‘ ورنہ دونوں کی صحیح کارروائیوں کو بھی عوام آپس کی مخاصمت کا چشمہ چڑھا کر دیکھیں گے۔اس وقت عدالتوں میں ججوں کی خاصی کمی ہو چکی ہے، وزارتِ قانون کی رپورٹ کے مطابق 2018ء سے 19 دسمبر 2022ء تک بھارت کی مختلف ہائی کورٹوں میں کل 537 ججوں کی تقرری کی گئی۔ ان میں سے 79 فیصد جنرل زمرے سے تھے، 11 فیصد دیگر پسماندہ طبقات سے اور 2.6 فیصد اقلیتوں سے تھے۔ شیڈول ذاتوں اور شیڈول قبائل کی نمائندگی بالترتیب 2.8 فیصد اور 1.3 فیصد تھی۔ اب بھی سپریم کورٹ سمیت متعدد عدالتوں میں ججوں کی ہزاروں کرسیاں خالی پڑی ہیں اور حکومت اور عدالت کی آپسی رنجش کی وجہ سے کوئی بھی تعیناتی نہیں ہو رہی۔
امریکہ میں پُرتشدد واقعات کا خاتمہ کیسے ہو
امریکہ کو دنیا کا سب سے خوشحال اور طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا پُرتشدد ملک بھی ہے۔ جتنا تشدد امریکہ میں ہوتا ہے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوتا۔ ویسے تو امریکہ میں عیسائی مذہب کو ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پُرامن تعلیمات کا وہاں کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا؟ کچھ دن قبل امریکی ریاست لاس اینجلس کے ایک قصبے میں ایک بندوق بردار نے قہر ڈھا دیا۔ 60ہزار لوگوں کے اس قصبے میں ایشیائی نسل کے لوگوں کی بہتات ہے۔ خاص طور پر چینی لوگ! وہ چین کے نئے سال کا جشن منا رہے تھے اور اسی وقت ایک بندوق بردار نے فائرنگ کر کے10 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ درجنوں لوگ زخمی بھی ہوگئے۔ یہ اس نئے سال کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعے کے دو دن بعد ریاست کیلیفورنیا میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ سوموار کے روز ایک شخص نے فائرنگ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا۔ صرف دو دن کے فرق سے ایسے واقعے کے سبب امریکہ کے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ یہ جو کیلیفورنیا والا حملہ ہے‘ اس میں حملہ آور نے لوگوں کو مارنے کے دو گھنٹے بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ یہ 67 سالہ ایک مقامی رہائشی تھا۔ نئے قمری سال کی آمد پر ایشیائی اکثریتی علاقوں میں حملوں کے بعد پورے امریکہ میں سوگ کی فضا ہے۔ ایسے واقعات آئے دن امریکہ میں ہوتے رہتے ہیں۔پچھلے سال بندوق کی گولیاں کھا کر امریکہ میں40 ہزار لوگوں نے اپنی جان گنوائی تھی۔ کیا اتنے قتل کسی اور ملک میں کبھی ہوئے ہیں؟ اتنے لوگ تو بڑی بڑی جنگوں میں بھی نہیں مارے جاتے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ امریکہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں ہی رہتا ہے؟ دنیا کا ایک بڑا اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے ناتے امریکہ میں اتنا امن اور اتنی ہم آہنگی ہونی چاہئے کہ دنیا میں کوئی اور ملک اس کا مقابلہ ہی نہ کر سکے۔ چین اور بھارت جیسے ملک امریکہ سے 4‘ 5 گنا بڑے ہیں لیکن ان میں اتنا تشددہوتا ہے؟ یہاں اصلی سوال یہ ہے کہ کیا پیسے اور ڈنڈے کے زور پرآپ امن اور ہم آہنگی خرید سکتے ہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کا کیپٹل ازم سماج بنیادی طور پر صارفیت پسند سماج بن گیا ہے۔ سارے لوگ صرف ایک ہی مالا جپتے ہیں : ہائے پیسہ! ہائے پیسہ! اندھا دھند پیسہ کماؤ اور اندھا دھند خرچ کرو۔ ہمارے لوگ بھی بھاگ بھاگ کر امریکہ میں کیوں جا کر بستے ہیں؟اس کے پیچھے پیسہ ہی وجہ ہے لیکن ایشیائی افراد کا سنسکار کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنی روایات اور اقدار میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کئی ایسے ممالک کے لوگ بھی وہاں جا بستے ہیں جن کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ پیسہ نہیں کماپاتے ہیں‘ وہ اپنے دلوں میں حسد، بغض اور نفرت کے درخت اگالیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے پیمانے پر تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔ تشدد کی یہ روایت امریکہ میں کافی پرانی ہے۔ پہلے اس کی شروعات آدی واسیوں (ریڈ انڈینز)اور گورے کے درمیان ہوئی اور پھر گورے اور کالوں کے درمیان۔ اب تو یہ کہیں بھی اور کسی کے بیچ بھی ہو سکتی ہے۔ 1791ء میں نئی قائم شدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بل آف رائٹس کی جو منظوری دی اور ملک کا آئین بنا کر‘ اس میں شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق جو پہلے دس آرٹیکل شامل کیے ان کے تحت ہتھیار رکھنے کے حق کو آزادیٔ رائے، پریس، مذہب اور اجتماع کی آزادی کے حقوق کے برابر بنایا تھا۔ حالانکہ اس وقت چاقو، خنجر کے علاوہ مسکٹ گن ہی ہوتی تھی جو صرف 100 میٹر کے فاصلے تک مؤثر تھی اور اسے بھی ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ تین بار چلایا جا سکتا تھا۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ امریکی آئین سازوں کا مقصد شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا انفرادی حق دینا نہیں تھا بلکہ بیرونی جارحیت کی صورت میں وہ دفاع کا اجتماعی حق قائم کرنا چاہتے تھے؛ البتہ یہ واضح ہے کہ تشدد سے بچنے کے لیے ہتھیار رکھنے کی غیر متواتر روایت نے تشدد کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ عام امریکی اپنے گھروں اور گاڑیوں میں تو اسلحہ رکھتے ہی ہیں‘ پچھلے سال امریکہ میں ایئرپورٹس پر 6300 سے زیادہ ہتھیار پکڑے گئے اور 90فیصد تک ہتھیار بھرے ہوئے یعنی لوڈڈ تھے۔ جب تک امریکہ میں ہتھیار مکتی کی روایت قائم نہیں ہوگی‘ ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔