ترکیہ اور شام میں آئے شدید زلزلے کوپانچ روز گزر چکے ہیں‘ وہاں امدادی کارکن اب بھی ملبہ ہٹا رہے ہیں‘ لیکن اب ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچ جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں‘ کیونکہ ماہرین کے مطابق اُنہیں ملبے میں دبے 72 گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے‘جسے ماہرین جان بچانے کے لیے ایک اہم وقت سمجھتے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران اس خطے میں آنے والی اس بدترین آفت میں اب تک کم از کم اکیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔یہ زلزلہ 1939ء کے بعد ترکیہ میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا‘ جب مشرقی صوبہ ارزنجان میں 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 7.8 شدت کے اس زلزلے نے پیر کے روز اس وقت خطے کو لرزا دیا جب لوگ پُر سکون نیند سو رہے تھے۔ اس زلزلے نے نہ صرف اس خطے بلکہ ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے زلزلوں نے ایران‘ افغانستان اور نیپال میں بھی کئی بار تباہی مچا ئی ہے لیکن موجودہ زلزلے کو بلاشبہ بڑے پیمانے کی آفت قرار دیا جا رہا ہے جس میں دونوں ملکوں میں اکیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جانے کے ساتھ ساتھ لاکھوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ بے گھر ہوئے لوگوں کی تعداد تو اور بھی زیادہ ہے۔ زلزلے سے ترکیہ کے ہاتائے صوبے میں 520 افراد ہلاک اور 700 زخمی ہوئے ہیں اور کافی لوگ منہدم عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے۔ ملاتیا صوبے میں کم از کم 106 ہلاکتیں اور 1941 زخمی ہوئے۔ صوبہ کیلیس کے ایک چھوٹے سے قصبے موسابیلی میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 244 زخمی ہوئے۔ صوبہ عثمانیہ میں کم از کم 205 افراد ہلاک‘ 1003 افراد زخمی اور 101 عمارتیں گر گئیں۔ صوبہ آدیمان میں 20 افراد ہلاک‘ 200 سے زائد زخمی اور 600 سے زائد عمارتیں منہدم ہوئیں جن میں آدیمان کا سٹی ہال بھی شامل ہے۔ صوبہ شانلیورفا میں 30 افراد ہلاک‘ 1071 زخمی اور انیس عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ کم از کم 309 افراد ہلاک‘ 1597 دیگر زخمی ہوئے اور صوبہ غازی انتپ میں 581 عمارتیں منہدم ہوئیں اور صوبہ دیار بکر میں 46 اموات ہوئیں۔ اڈانا میں دو اپارٹمنٹ عمارتیں بشمول ایک 17 منزلہ اونچی عمارت گر گئی جس سے کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے‘ شہر میں کل 58 اموات اور 720 زخمی ہوئے۔ امید کریں کہ ابھی کوئی اور جھٹکا نہ آجائے۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک ترکیہ کی مدد کے لیے آگے آرہے ہیں‘ بھارت نے اس معاملے میں جتنی پھرتی اور دریا دلی دکھائی ہے اس نے اسے دنیا کے اہم ممالک کی لائن میں کھڑا کردیا ہے۔ ترکیہ اور بھارت کے رشتے پچھلے کچھ برسوں میں بہت اچھے نہیں رہے۔ ترکیہ نے بھارت سرکارکے ان اقدامات کی سخت مخالفت کی تھی جواس نے مقبوضہ کشمیرمیں کیے تھے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کے سوال پر دیگر مسلم اقوام کو متحرک کرنے کی کوشش کی جبکہ عرب دنیا کے ممالک نے عام طور پر اس مدعے کو بھارت کا اندرونی معاملہ سمجھا ہے۔ بھارت سرکار نے انسانیت کی ہمدردی میں ترکیہ کے لیے جو امداد بھجوائی ہے اس میں چار چارٹر جہازوں سے تقریباً 100 ڈاکٹروں اور نرسوں کو انقرہ اور استنبول پہنچا دیا گیا ہے۔ ایسے ریسکیو اہلکاروں کو بھی بڑی تعداد میں وہاں بھیجا گیا ہے جو ملبے میں دبے لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کریں گے۔گزشتہ دنوں بھارت نے ترکیہ کے لیے امداد کی دوسری کھیپ بھی روانہ کردی۔ ایسی ہی مدد بھارت سرکار نے 2011ء میں جاپان اور 2015ء میں نیپال میں جب زلزلہ آیا تھا‘ تب بھجوائی تھی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے دہلی میں ہوئے مسلم مخالف دنگوں کی کھل کر مذمت کی تھی لیکن اس وقت ان معاملات پرگفتگو کرنے کے بجائے انسانی ہمدردی میں اقدامات کی ضرورت ہے‘ یہ انسانیت کی مدد کا وقت ہے اور ایسے مواقع پر امداد کی فراہمی بھارت کے بارے ترکیہ کے جذبات کو نرم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔یہ ایک طرح کی ڈپلو میسی ہے جس سے مودی سرکار کی شبیہ بھارت کی اقلیتوں میں بھی سدھرے گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس میں بہتری آ سکتی ہے۔ بھارت اور ترکیہ کے نمائندوں کی اقوام متحدہ میں ٹکرہوتی رہی ہے لیکن پچھلے سال ستمبر میں سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں جب مودی اور اردوان کی ملاقات ہوئی تو آپسی تعلقات میں کافی نرمی پیدا ہو گئی تھی۔ میں اسی لیے برابر تجویزدیتا رہتا ہوں کہ اگر اس وقت ہم پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری پر توجہ دیں تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بے مثال سدھار ہو سکتا ہے۔
دبئی میں خارجہ پالیسی کا ڈنکا
دبئی کے چار روزہ قیام کے دوران میراکچھ وقت توتقاریب میں گزرگیا لیکن باقی وقت کچھ خاص لوگوں سے ملنے میں گزرا۔ اس دوران متعدد بھارتیوں‘ افغانوں‘ پاکستانیوں‘ ایرانیوں‘ نیپالیوں‘ روسیوں اور کئی عرب شیخوں سے کھل کر بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت سے پہلی بات تو مجھے یہ پتا چلی کہ دبئی میں رہنے والے بھارتیوں میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا بہت احترام ہے۔ ہم لوگ نریندر مودی اور خارجہ پالیسی کی کئی بار دہلی میں تلخ تنقیدیں بھی سنتے ہیں لیکن یہاں تو اس کی عزت کی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ٹی وی چینلز اور اخبارات کا لہجہ بھی اس رائے سے کافی ملتا جلتا ہے۔ ادھر میں جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے 16ممالک کی نئی تنظیم کھڑی کر رہا ہوں‘ پڑوسی ممالک کے سرکردہ لوگوں نے اس میں بھی بھرپور تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔مجھے یہ جان کر مزید خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے کچھ سرکردہ لوگوں نے بھارت کی جانب سے کابل کو 50 ہزار ٹن اناج اور دوائیوں کی پہل کی بہت تعریف کی ہے۔ ان کا سجھاؤ یہ بھی تھا کہ اس بحران کے وقت اگر بھارت مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو عوامی رائے بھارت کے حق میں ہو جائے گی۔ اگربھارت کی دریا دلی کو مسترد کر دیا گیا تو کافی کرکری ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس انسانی امداد کے لیے 50 ہزار میٹرک ٹن بھارتی گندم اور جان بچانے والی ادویات کی افغانستان کو فراہمی کے لیے بھارتی کھیپ کو پاکستان نے اپنی سرزمین سے گزرنے کی غیر معمولی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ کئی سرکردہ افغان رہنماؤں نے مجھ سے طویل گفتگو میں کہا کہ وہ بھارت سرکار کے ذریعے دی گئی مدد سے تو متاثر ہی ہیں لیکن وہ ایسا مانتے ہیں کہ افغانستان کے عدم استحکام کواگر کوئی ملک ختم کر سکتا ہے تو صرف بھارت ہی کرسکتا ہے۔ روس اور امریکہ نے افغانستان میں فوجیں بھیج کردیکھ لیا‘ کروڑوں، اربوں روبل اور ڈالر انہوں نے وہاں بہادیے اور بڑے بے آبرو ہوکر وہ وہاں سے نکلے۔ ان کا ماننا ہے کہ بھارت اگر پہل کرے اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن یا نائب صدر کملا ہیرس اور برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک کو اپنے ساتھ جوڑ لے تو افغانستان میں امن اور استحکام قائم ہوسکتا ہے۔ان تینوں قوموں کی مشترکہ پہل کو ماننے سے نہ تو طالبان انکار کرسکتے ہیں نہ ہی سابق افغان صدر۔