بھارتیہ پارلیمنٹ کا پورا ہفتہ اڈانی گروپ کے مبینہ بھانڈا پھوڑ سکینڈل کی نذر ہوگیا لیکن ابھی تک بھارت کے لوگوں کو اس پورے گھپلے کی حقانیت سے متعلق کوئی بھی ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہوئی ہیں؛ تاہم اڈانی گروپ نے سینکڑوں صفحات کی تردید جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، اس کا سارا حساب کتاب بالکل صاف ستھرا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی نام لیے بغیر اپنے تمام لین دین کو مستند قرار دیا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ حکومتِ ہند کی جانب سے ابھی تک اس معاملے پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے صدرکی تقریر پر ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کافی جارحانہ تقریر کی اور کانگریس کی مٹی پلید کردی لیکن اڈانی گروپ کے بارے میں انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے بھی ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اسی بات سے شک پیدا ہوتا ہے کہ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں ہے۔ ادھر راہل گاندھی اور کانگریس کے صدر کھڑگے نے نریندر مودی پر کئی سنگین الزامات لگائے ہیں اور مودی‘ اڈانی گٹھ جوڑ کی کئی مثالیں بھی دی ہیں لیکن ایک بنیادی بات پر توجہ دینا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ بھارت جیسے ملک میں کیا معاشی ترقی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت اور صنعت کاروں کے درمیان قریبی تال میل قائم رہے؟ پنڈت جواہر لال نہرو کی سوشلسٹ حکومت کی ٹاٹا، برلا اور ڈالمیا وغیرہ گروپوں سے قربت کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ اڈانی اور امبانی گروپ کانگریس حکومتوں کے دوران ہی آگے بڑھے اور پھر نریندر مودی کے دورِاقتدار میں وہ دوڑنے بھی لگے ہیں۔ یہ دونوں گروپ گجراتی ہیں اور ہمارے دونوں بھائی‘ نریندر مودی اور امت شاہ بھی گجراتی ہیں۔ ان کے تعلقات قدرے قریبی اور غیر رسمی بھی رہے ہوں گے لیکن یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ان صنعت کاروں کو آگے بڑھانے میں کہیں غیر قانونی ہتھکنڈوں کا سہارا تو نہیں لیا گیا۔ یہ غیر قانونی ہتھکنڈے اس لیے بھی آسان ہوجاتے ہیں کہ بھارت کی کرپٹ بیوروکریسی کو تعلقات کی پھلجھڑی دکھا کر متاثر کرنا کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ بڑے کاروباری گروپوں کے لیے بطورِ خاص انفراسٹرکچر سیکٹر میں نئے پروجیکٹس بنانے یا زیادہ رقم اکٹھا کرنے کے لیے قرض لینا عام بات ہے۔ قرض لینا اڈانی گروپ کی کلیدی حکمت عملی رہی ہے، اور اس سے اسے اپنے کاروبار کو تیزی سے بڑھانے میں مدد ملی ہے لیکن کاروبار کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے اڈانی گروپ پر تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے (تقریباً 25 بلین امریکی ڈالر) کا قرض ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران اڈانی گروپ کے قرض کا حجم تقریباً دوگنا تک بڑھ گیا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ قرضوں میں اضافے کی رفتار کمپنی کے منافع اور آمدن سے کہیں زیادہ تیز رہی ہے جس کی وجہ سے کمپنی کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اڈانی گروپ کی کمپنیوں نے اب تک اپنا زیادہ تر سرمایہ قرض کے ذریعے اکٹھا کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے یا تو اپنے بنیادی ڈھانچے کے اثاثے یا اپنے حصص بطور ضمانت یا سکیورٹی گروی رکھے ہیں۔ اب اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں آدھے سے زیادہ گر گئی ہیں اور ان کے محفوظ شیئرز کی قیمتیں بھی نیچے آگئی ہیں۔ اگر کریڈٹ سوئس اور سٹی گروپ جیسے دو بڑے بینکوں کی کیپٹل برانچوں نے اڈانی گروپ کے بانڈز کو کولیٹرل کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ راہل گاندھی اپنی 'بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران کئی بار الزام لگا چکے ہیں کہ اڈانی گروپ کے مالک گوتم اڈانی وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ہیں اور ان ہی کی حمایت سے اڈانی کا بزنس روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔اب اڈانی گروپ کو تقریباً روزانہ ہی اربوں روپے کا دھچکا لگ رہا ہے۔ اگر لاکھوں شیئر ہولڈرز کی محنت کی کمائی بہنے لگے تو وہ غصہ مودی حکومت پر ہی پھوٹ پڑے گا۔ غیر ملکی صنعت کار اور سرمایہ دار بھی لرز جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکومت پر جو کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، وہ اسے نظر انداز نہ کرے۔ ابھی تو اپوزیشن ہی اس کیچڑ کو اچھال رہی ہے لیکن یہ کیچڑ اگر عوام کے بیچ اچھلنے لگے تو اس میں سے اگنے والا کنول بھی گندا ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
شادی سے فرار؟
بھارت کے طرزِ زندگی اور مغربی ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بھارت میں اگرچہ دین دھرم وغیرہ کی تعلیمات کا آج کل لوگ نام بھی نہیں جانتے لیکن صدیوں سے اس آریہ طرزِ زندگی کا اتنا گہرا اثر رہاہے کہ بھارت ہی نہیں تمام جنوبی اور وسطی ایشیا میں مذہب پر عمل ہوتارہا ہے۔ امریکہ میں کیے گئے ایک تازہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں کے زیادہ تر نوجوان شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ 57فیصد نوجوان نے کہا ہے کہ وہ اکیلے رہنا ہی پسند کرتے ہیں، یعنی وہ گھر گرہستی میں داخل ہی نہیں ہونا چاہتے۔ بھارت میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ شاید ایک‘ دو فیصد بھی نہیں، لیکن جو لوگ امریکہ میں گھریلو زندگی کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ وہ کیا برہم چاری یا تارک الدنیا بنے رہنا چاہتے ہیں؟ وہ کیا برہم چریہ آشرم میں ہی ٹکے رہنا چاہتے ہیں؟ یہ سوال ہی ان کے لیے غیر متعلقہ ہے، کیونکہ برہم چریہ جیسی روایت کی وہاں کوئی قیمت ہی نہیں ہے، حالانکہ کیتھولک عیسائیوں میں سیلی بیسی (ترکِ دنیا) پر کافی پختگی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام اور سوویت روس کے اشتراکی نظام نے انسان کی ظاہری حالت کو مالا مال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن زندگی ظاہری اور باطنی‘ دونوں نظاموں میں کھوکھلی ہوتی چلی گئی۔ آج سے تقریباً 50‘ 55سال پہلے مجھے ماسکو اور نیویارک کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کااور ان معاشروں میں وہاں رہنے کا موقع ملاتھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ وہاں ہر دوسرا یا تیسرا آدمی یا عورت طلاق شدہ ہوتے تھے اور ان میں سے کئی مجھے یہ کہہ کر مزید حیران کر دیتے تھے کہ یہ ہماری دوسری یا تیسری شادی ہے۔ شادی شدہ لوگ تب ان ملکوں میں کافی ہوتے تھے لیکن اب امریکہ میں 63فیصد نوجوانوں نے‘ جن کی عمر 30 سال تک ہے‘ بتایا ہے کہ وہ اکیلے رہتے ہیں اور اکیلے ہی رہنا چاہتے ہیں۔ 34فیصد خواتین بھی اکیلی ہی ہیں۔ یہ شرح بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ امریکہ کو بڑھتے ریپ کیسز نے تنگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ان معاملوں میں پھنسنے والے لوگوں کی تعداد امریکہ کی جیلوں میں سب سے زیادہ ہے۔ جو لوگ پکڑے نہیں جاتے‘ان کی تعداد پکڑے جانے والے لوگوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سماج میں تناؤ اور بداعتمادی کو بڑھاتے ہیں۔ جو لوگ شادی نہیں کرتے‘ وہ لوگ اکثر آزاد تعلقات کی تلاش میں رہتے ہیں اور جو شادی شدہ ہیں‘ وہ بھی کھلے عام یا چوری چھپے اپنی ہوس کی تسکین کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک میں تمام گھر والے نیک ہوتے ہیں۔ مستثنیات تو مشرقی ملکوں میں بھی موجود ہیں لیکن ان کی تعداد معاشرے کی مجموعی تعداد کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ان جیسے لوگوں پر اکثر سماج کی نگاہ ٹیڑھی ہی بنی رہتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں رہنے والے ایشیائی لوگوں میں اب بھی نیک پریوار کی روایت کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے شادی جیسی مقدس روایت کو بھی اب دائو پر لگا دیا ہے۔