فجی میں 15 فروری سے 12ویں عالمی ہندی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس 1975ء میں ناگپور سے شروع ہوئی تھی۔اس کے بعدیہ دنیا کے کئی ممالک میں منعقد ہوتی رہی ہے؛ جیسے ماریشس، ترنداد، سورینام، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ! پچھلی دو کانفرنسوں کو چھوڑ کر باقی تمام کانفرنسوں کے دعوت نامے مجھے ملتے رہے ہیں۔ مجھے 1975ء میں ہونے والی پہلی کانفرنس سے ہی لگ رہا تھا کہ اس طرح کی کانفرنسیں ہندی کے نام پر کروڑوں روپے فضول بہادینے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ناگپور کانفرنس کے دوران میں نے 'نوبھارت ٹائمز‘ میں ایک اداریہ لکھا تھاجس کا عنوان تھا ''ہندی میلہ: آگے کیا؟‘‘۔ 38 سال گزر گئے لیکن جو سوال میں نے اس وقت اٹھائے تھے‘ وہ آج بھی جوں کے توں ہیں۔ اس وقت کے دو وزرائے اعظم کے اصرار پر میں نے ماریشس اور سورینام کی کانفرنسوں میں حصہ لیا تھا۔ وہاں دو‘ تین اجلاسوں کی صدارت بھی کی اور دو ٹوک تقریر کی۔ کچھ ٹھوس تجاویز بھی متفقہ طور پر پاس کرائیں، لیکن ساری عالمی ہندی کانفرنسیں سیر سپاٹا کانفرنسیں بن کررہ گئی ہیں۔ اب اچھا ہے کہ مودی راج میں میرے جیسے واضح بولنے والوں کو ان سیر سپاٹا کانفرنسوں سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ 12ویں کانفرنس اُس فجی میں ہو رہی ہے، جہاں دیگر غیر ممالک کی نسبت ہندی کا چلن ذرا زیادہ ہے لیکن ہندی کی جو حالتِ زار بھارت میں ہے‘ وہی حال ہندی کا ان ملکوں میں بھی ہے۔ ان ممالک میں توہندی کے بجائے عام لوگ اپنی بولیوں میں ہی بات چیت کرتے ہیں۔ اگر ان ممالک میں مہارشی دیانند کا آریہ سماج سرگرم نہ ہوتا تو وہاں ہندی کا نام و نشان ہی مٹ چکا ہوتا۔ ان ممالک میں بھی پارلیمانی کارروائی، عدالتی بحث اور فیصلے وساری اعلیٰ تعلیم انگریزی یا فرانسیسی زبان میں ہی ہوتی ہے۔ ایسا وہاں کیوں نہ ہو ؟ جب دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویدار بھارت انگریزی کی غلامی میں ڈوبا ہوا ہے تو ان چھوٹے موٹے ممالک کو ہم کیوں قصوروار ٹھہرائیں؟ 1975 میں ہی ''ساپتاہک ہندوستان‘‘ میں میرے سینئر دوست گووند پرساد جی کجریوال نے ہندی کانفرنس پر لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ''گھر میں نہیں دانے!اماں چلی بھنانے‘‘۔ آج کل ہم آزادی کا 75واں سال منا رہے ہیں لیکن ہمارے قانون، سرکاری آرڈر، اونچی عدالتوں کے فیصلے، اعلیٰ پڑھائی اور تحقیقی کام‘ سبھی کام کاج انگریزی میں چل رہے ہیں اور ہم بھارتی ہندی کو عالمی زبان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بین الاقوامی تجارت، ڈپلومیسی اور تحقیقی کام کے لیے ہمیں کئی غیر ملکی زبانوں کو سیکھنا چاہئے لیکن ہم صرف انگریزی کی غلامی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھاجپا سرکار نے دو سال پہلے جو تعلیمی پالیسی مرتب کی تھی اس کے تحت پرائمری سکولوں میں انگریزی میں تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن بھاجپا اور کانگرس‘ دونوں کی کئی ریاستی سرکاریں ا نگلش میڈیم سکولوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ کسی غیر ملکی زبان کو پڑھنا ایک بات ہے اور اس کو اپنی پڑھائی کا ذریعہ بنانا بالکل الگ بات ہے۔ اپنی زبان کے ذریعے سے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غیر ملکی زبانوں کا بائیکاٹ کردیں۔میں نے ہندی کے علاوہ سنسکرت‘ جرمن‘ روسی اور فارسی زبانیں بھی سیکھیں۔ غیر ملکی تجارت‘ خارجہ پالیسی اور اعلیٰ تحقیق کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی‘ جرمن‘ چینی‘ روسی‘ عربی‘ ہسپانوی اور جاپانی سمیت دیگر غیر ملکی زبانیں بھی قابلِ رسا ہونی چاہئیں۔ بھارت کے سارے نیتا لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کے سکولوں میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ بھارت دماغی طور پر اب بھی غلام ہے۔ اس کی تمام اونچی نوکریاں انگلش میڈیم سے ملتی ہیں۔ اس کے قوانین انگریزی میں بنتے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی خوشحال اور طاقتور قوم میں سٹوڈنٹس کی پڑھائی کا ذریعہ غیر ملکی زبان نہیں ہے۔ ہندی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بنوانے کی تجویز میں نے سورینام میں پاس کرائی تھی لیکن اگر وہ بن بھی جائے تو بھی کیا ہوگا؟ کیا بھارت کے نیتاؤں کو کچھ شرم آئے گی؟ کیا وہ نوکر شاہوں کی نوکری کرنا بند کرپائیں گے؟ اگر وہ ایسا کرسکیں تو انگریزی کی غلامی سے ہندی اپنے آپ آزاد ہو جائے گی۔
بھارت میں اسلام
جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی کے ایک بیان پر بھارت بھر میں خوب بحث ہو رہی ہے۔ بھارتیہ ٹی وی چینلوں پر آج کل یہی سب سے بڑا مدعا بناہوا ہے۔ مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر یہ الزام سراسر غلط ہے کہ وہ باہر سے آئے ہیں، اسلام ایک قدیمی مذہب ہے اور یہ سرزمین مسلمانوں کا پہلا وطن ہے کیونکہ اسلام تمام مذاہب میں سے سب سے قدیمی مذہب ہے۔ اس لیے اسلام کو غیر ملکی مذہب ماننا تاریخی نظریے سے غلط اور بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ بیان مولانا مدنی نے جمعیت علمائے ہند کے 34ویں اجلاس میں پڑھ کر دیا ہے۔ یوں تو محمود مدنی اپنے آپ میں بہترین مقرر ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ متنازع فقرے انہو ں نے پڑھ کر کیوں سنائے۔ ہوسکتا ہے کہ جیسے ہمارے بڑے نیتاؤں کے بھاشن ان کے افسر لکھ کر دے دیتے ہیں اور وہ انہیں سامعین کے سامنے سوچے سمجھے بغیر پڑھ ڈالتے ہیں‘ ویسی ہی غلطی محمود مدنی سے بھی ہوگئی ہو۔ لیکن اس غلطی کے پیچھے چھپے جذبہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو لگے گا کہ مولانا مدنی کسی بھی بڑے سے بڑے ہندوستانی سے کم نہیں ہیں۔ محمود مدنی کے پورے بھاشن کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز اگر کہیں ہے تو وہ بھارت میں ہی ہے۔ بھارت جتنا ہندوؤں کا ملک ہے‘ اتنا ہی مسلمانوں کا بھی ہے۔ اگر یہ بات ہمارے یہاں راسخ ہوتی تو ہندوستان تقسیم ہی کیوں ہوتا؟ میں توچاہتا ہوں کہ محمود مدنی اور اسد الدین اویسی سمیت سبھی مسلم نیتا میرے اس قول کو دہرائیں جو کئی سال پہلے میں نے دبئی میں بھارتیہ سفارت خانے کی طرف سے منعقد ایک بڑی تقریب میں کہے تھے۔ اس تقریب کی اگلی قطار میں کئی مشہورومعروف عرب شیخ بیٹھے تھے۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے بھارتیہ مسلمانوں پر فخر ہے کیونکہ وہ دنیا کے بہترین مسلمان ہیں۔ وہ بہترین اس لیے ہیں کہ ان کی رگوں میں اسلام کی انقلابی فکر کے ساتھ ساتھ ہندوستانی اقدار کی صدیوں پرانی گنگا بھی بہتی ہے۔ مدنی جی کا یہ بھاشن میرے اس قول کو اور بھی زیادہ مضبوط بناتا ہے کیونکہ بھارت کے مسلمان کون ہیں؟ ان میں سے اکثر پہلے ہندو ہی تھے۔ عربوں، ایرانیوں، ترکوں اور افغانستان سمیت وسطی ایشیا سے آنے والے فوجیوں اور صوفی بزرگوں کی تعداد کتنی تھی؟ اب ان کی اولاد کون ہے اور کون نہیں‘ یہ پتا لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ غیر ملکی لوگ ہندوستان میں آٹے میں نمک کی طرح گھل مل گئے۔ اسی لیے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ بھارت کے ہندوئوں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ یہی بات کچھ نئے ڈھنگ سے محمود مدنی کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موہن بھاگوت بھارتی مسلمانوں سے یہ برابر کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں‘ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیا کسی اور رہنما نے آج تک ایسی بات کہی ہے؟ ان کی اس بات سے کئی کم عقل اور انتہا پسند چڑ بھی سکتے ہیں لیکن بھارت ہی نہیں پورے جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کو جوڑنے میں یہ بات فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ حالیہ عرصے میں دبئی اور ابوظہبی میں میری کئی عرب شیخوں سے ملاقات ہوئی ہے۔ سبھی پارٹیوں اور نظریات کے لوگوں سے بھی کھل کر بات چیت ہوئی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ جن لوگوں کے پاس دور اندیشی ہے‘ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر بھارت میں فرقہ واریت کو فوری کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے پچاس یا ساٹھ برس میں بھارت کے دو نہیں بلکہ سو ٹکڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی تقسیم کے اِن خدشات کے تدارک کا آغاز موہن بھاگوت اور محمود مدنی کر چکے ہیں۔ بھارت کے ہندو لوگ جس ''ہندو‘‘ لفظ کو بڑے فخر سے اپنے لیے بولتے ہیں وہ بھی انہیں غیر ملکی مسلمانوں کا ہی دیاہواہے۔ ہندوئوں کی کسی بھی مقدس کتاب اور گرنتھ میں ''ہندو‘‘ کا لفظ نہیں آیاہے۔