"DVP" (space) message & send to 7575

خارجہ پالیسی: بھارت بغلیں جھانک رہا ہے

خارجہ پالیسی کے معاملے میں چین کیسے بھارت سے زیادہ کامیاب ہو رہا ہے‘ اب اس کی ایک تازہ مثال ہمارے سامنے آئی ہے۔ بھارت چین کو بین الاقوامی سیاست میں اپنا حریف سمجھتا ہے اور اپنے عوام کو یہ سمجھاتا رہتا ہے کہ دیکھو! ہم چین سے کتنے آگے ہیں لیکن اگلے روز ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے‘ اس کا سارا کریڈٹ چین لوٹتا چلا جا رہا ہے اور بھارت محض بغلیں جھانک رہا ہے۔ پچھلے لگ بھگ سات سال سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ڈپلومیٹک تعلقات بھنگ ہو چکے تھے کیونکہ سعودی عرب میں ایک عالم کو پھانسی کی سزا پر ایران کو شدید تحفظات تھے۔ اس فیصلے کے خلاف تہران میں موجود سعودی سفارتخانے پر حملہ بھی ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد سے سعودی عرب سرکار نے ایران سے سفارتی رشتہ توڑ دیا تھا۔ اس بیچ سعودی عرب اور ایران مغربی ایشیائی ممالک کے اندرونی معاملات میں ایک دوسرے پر مداخلت کا الزام لگاتے رہے۔ یمن، شام ،عراق اور لبنان جیسے ممالک میں ایک دوسرے کے مخالفین کی اپنے اپنے انداز میں مدد بھی کرتے رہے۔ سعودی عرب نے ایران پر یہ الزام بھی لگایا کہ یمن کے حوثی باغیوں سے اس نے میزائل اور ڈرون حملے کرائے ہیں۔ نیز اس کے تیل کے کنوئوں کو اڑانے کی بھی کوششیں کیں۔ الغرض دونوں ملکوں کے تعلقات اتنے تلخ ہو گئے تھے کہ سعودی عرب کے حکمران محمد بن سلمان نے ایرانی قیادت سے متعلق نہایت سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ سعودی عرب کافی وقت سے امریکہ کے قریب رہا ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں اس کے کردار کو نرم کرنے میں امریکہ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے لیکن امریکہ‘ ایران تعلقات میں پچھلے 40‘ 42 سالوں سے گہری کشیدگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار، نقل و حمل ، سفارتی تعلقات اور دیگر شعبوں میں دشمنوں جیسا سلوک رہا ہے لیکن ان دونوں مسلم اقوام سے بھارت کے تعلقات یکساں اور بہترین رہے ہیں۔ دونوں کو بھارت نے اپنا رکھا ہے‘ یہ اس کی سفارتی چالاکی ہے لیکن کیا یہ کافی ہے؟ دونوں مملکتیں بھارت سے اچھے تعلقات بنائے رکھتی ہیں کیونکہ دونوں کے مطلب نکل رہے ہیں، لیکن بھارت کوئی بڑا کردار نبھا رہا ہے یا نہیں! جیسے وہ یوکرین کے معاملے میں جنگ بندی اور صلح کی بات کرتا رہتا ہے‘ ایران اور سعودیہ کے معاملے میں وہ لیت و لعل اور ٹال مٹول کرتا رہا ہے۔ اب اس معاملے میں چین نے بھارت کو شکست دے دی ہے۔ چین کے مشہور ڈپلومیٹ وانگ یی نے ان دونوں ملکوں کے قومی سلامتی حکام کو بلا کر بیجنگ میں بٹھایا اور ان کے درمیان ایک سمجھوتا کرا دیا۔ اب اگلے دو ماہ میں ایران اور سعودی عرب اپنے سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال کر لیں گے اور دونوں نے ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ چینی پہل اسے عالمی سیاست میں خاص جگہ دلانے میں مدد کرے گی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اس سارے معاملے میں ذاتی دلچسپی لی اور دونوں ملکوں کے حکام کو میز پر بٹھا دیا۔ سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ تک مذاکرات ہوئے تھے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جواب میں اب تینوں ممالک نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا۔ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک میں دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے، ممالک کی خود مختاری کا احترام کرنے اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے نکات پر اتفاق ہوا ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے 2021ء اور 2022ء میں مذاکرات کی میزبانی کرنے پر چین کے ساتھ ساتھ عراق اور عمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔یوں تو بھارت کی خارجہ پالیسی بھارت کے قومی مفادات کا بخوبی تحفظ کر رہی ہے لیکن اس کے پاس کچھ باصلاحیت رہنما اور ذہین افسران ہوں تو آج کی الجھی ہوئی عالمی سیاست میں وہ کافی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
ناگالینڈ سے ساری دنیا سیکھے
ناگالینڈ‘ تری پورہ اور میگھالیہ کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کا ڈنکا بج گیا۔ بھارت کے سیاسی حالات کو میں نے بغور دیکھا ہے لیکن وہاں جو اصل غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے‘ اس کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم مبذول ہوئی ہے۔ وہ غیرمعمولی واقعہ یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے الیکشن میں ایک دوسرے کی سخت مخالفت کی تھی‘ انہوں نے ہی اب مل جل کر نئی حکومت بنائی ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ وہ چھوٹی پارٹیاں‘ جو قومی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت کرتی رہی ہیں‘ انہوں نے بھی ناگالینڈ میں ایسی حکومت بنائی ہے جیسی دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ہے۔ ناگالینڈ کی نئی حکومت 'نیشنلسٹ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی‘کی قیادت میں بنی ہے۔ اس کے لیڈر نیفیو ریو ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کی60 رکنی اسمبلی میں ایک بھی رکن ایسا نہیں جو کہے کہ میں اپوزیشن میں ہوں یا میں اپوزیشن پارٹی ہوں۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ ریو نے ساٹھ میں سے ساٹھ سیٹیں جیت لیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہوا ہے۔ ان کی پارٹی اور بی جے پی کو اگرچہ سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں لیکن ان کی کل تعداد 37 ہے۔60میں سے 37 یعنی آدھی سے صرف 7زیادہ! پھر بھی کیا بات ہے کہ ناگالینڈ میں کوئی اپوزیشن پارٹی نہیں ہے؟ دراصل جن آٹھ پارٹیوں نے اپوزیشن کے طور پر الیکشن لڑا تھا‘ ان میں سے چار پارٹیاں ناگالینڈ کے باہر کی تھیں۔ تمام آٹھوں پارٹیوں کے جیتے ہوئے ایم ایل ایز نے کہا ہے کہ ہم حکمران اتحاد کے ساتھ ہیں؛ البتہ ابھی تک یہ یقینی نہیں ہے کہ ان حریف پارٹیوں کے ایم ایل ایز میں سے کچھ کو وزیر بنایا جائے گا یا نہیں۔ شرد پوار کی نیشنل کانگریس پارٹی کو7سیٹیں ملی ہیں۔وہ تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔ وہ کشمکش میں ہے بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں! اسی لیے وہ حکومت کو باہر سے سپورٹ کرے گی۔ جو بھی ہو‘ ناگالینڈ میں جو حکومت بنی ہے، میری رائے میں وہ دنیا کی تمام جمہوریتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ دنیا کی پارلیمنٹ میں حکمران اور اپوزیشن کی پارٹیاں جو فضول کا دنگل کرتی ہیں اور اپنا اور ملک کا وقت برباد کرتی رہتی ہیں‘ اس سے برصغیر، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یورپ کے جمہوری ممالک کو چھٹکارا ملے گا۔ جو بھی حکومت اتفاق رائے سے بنے، اس میں پارٹی کی تعداد کے تناسب سے وزیر بنائے جا سکتے ہیں۔ کابینہ کے تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوں۔ ناگالینڈ سے بھارت اور دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں تحریک لے کر اپنے اپنے ممالک میں ویسی ہی حکومتیں بنا سکتی ہیں، جیسی آزادی کے بعد 1947ء میں بھارت میں جواہر لال نہرو کی قیادت میں تشکیل دی گئی تھی۔اس نہرو حکومت میں گاندھی کے سخت مخالف بھیم راؤ امبیڈکر اور جن سَنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی بھی وزیر تھے۔ اس حکومت کے14 وزرا میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، جنوبی ہندوستانی، دَلت اور خواتین سمیت تمام طبقات کی نمائندگی موجود تھی۔ وہ واقعی ایک قومی حکومت تھی۔ آج کی پارٹیوں پر مبنی حکومتوں میں بھی ان طبقوں کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن ان سب پر حملہ کرنے کے لیے ہم غیر ضروری طور پر ایک اپوزیشن بھی بنا لیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں