"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان پرحکمرانی کرنے والی ذہنیت

زیادہ تر پاکستان قطبی رویوں کا شکار ہے ۔
اٹھائیس جولائی کو سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے سے مہمیز ہونے والی سماجی اور سیاسی حرکیات ایک بڑے سیاسی بحران کی شکل اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مئی 2012 ء میں نواز شریف اُس وقت کے وزیر ِاعظم، یوسف رضا گیلانی پر زور دے رہے تھے کہ عدالت سے نااہل قرار پانے کے بعد گھر کی راہ لیں۔ ایک عوامی جلسے میں نواز شریف نے زوردار انداز میں وزیر اعظم گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہایہ کوئی غیر فعال ریاست نہیں ہے ۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے آپ کو نااہل قرار دیا ہے ۔
لیکن جب اپنے کیس کی باری آئی تو عدالت ِ عالیہ کے فیصلے کو مہذب انداز میں تسلیم کرنے کی بجائے اُنھوں نے اس کی مذمت کرنے کا فیصلہ کرلیا جیسا کہ یہ اُن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہوئی ہو۔ اُن کے اپنے وزیر ِ خزانہ بھی اسی راہ پر چل نکلے ۔ ذرا تصور کریں کہ کس طرح کوئی عقل و ہوش رکھنے والا وزیر ِخزانہ اپنے کسی دوست کو ، جسے بینکاری کا کوئی تجربہ نہ ہو، ملک کے سب سے بڑے بینک، نیشنل بینک آف پاکستان کا سربراہ لگاسکتا ہے ۔ لیکن ایسا صرف دنیا کے ہمارے حصے میں ہی ممکن ہے کہ ایک وزیر ِخزانہ نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر کے نام سے پانچ ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے اکائونٹ چلا رہا ہو۔ 
یہ ایک غیر معمولی صورت ِحال ہے کہ ایک وزیر ِاعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا ہے لیکن وہ قانون کی تعمیل کرنے سے انکاری ہیں۔ بلکہ محض اپنے ذاتی مفادات کے لیے نفرت اور تصادم کی آگ پر تیل گرا رہے ہیں۔ اُنہیں قومی مفاد کی پروا نہیں کہ کس طرح ملکی معیشت فالج زدہ ہوچکی ہے ۔ نواز شریف کا موجودہ رویہ مجھے ماضی کے تین واقعات کی یاد دلاتا ہے ۔ یہ واقعات ہماری سیاسی معیشت کے پیچھے کارفرما ذہنیت کی وضاحت کرتے ہیں ۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سرپرستی، حمایت، پرمٹ، پلاٹ اور قرضے معاف کرانے کی سیاست معیشت کو تباہ کن راستے پر لے جاتی ہے۔ 
ایک واقعے کا تعلق نامور کالم نگار، اردشیر کائوس جی مرحوم ہے جو انتہائی مخلص انسان اور پاکستان کی سول ملٹری اشرافیہ کے بے خوف نقاد تھے۔ نواز شریف کے دوسرے دورِحکومت (1997-1999) کے ابتدائی حصے میں ہماری ملاقات ایک مشہورسیاسی جوڑے ، بیگم عابدہ حسین اور فخر امام سے ان کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر ہوئی ۔ لنچ پر مسٹر کائوس جی نے ہمیں شریف برادران کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی اپنی ایک میٹنگ کے بارے میں بتایا۔ اُن کا کہنا تھا...میں وزیر ِاعظم سے ملنے کراچی سے اُن کے گھر گیا تو اُنھوں نے مجھے سندھ کا گورنر بنانے کی پیش کش کی ۔کائوس جی نے شریف برادران کے اصل الفاظ دہراتے ہوئے کہا:ہم آپ کی بہت قدر کرتے ہیں، اور ہمارا خیال ہے کہ آپ کراچی گورنر ہائو س میں موجود رہ کر ہماری رہنمائی کریں۔ تاہم متعدد بار کی جانے والی درخواستوں کے باوجود کائوس جی، جو خود ایک جہاز ران کمپنی کے مالک تھے ، نے یہ کہتے ہوئے اس پیش کش کو مسترد کردیا کہ اس منصب کا تقاضا میرے مزاج کے خلاف ہے ۔ جب دونوں بھائیوں نے اپنی کوشش رائیگاں جاتے دیکھی تو شہباز شریف نے کہا...آج کل آپ کی کمپنی کیسی جارہی ہے ۔کائوس جی نے جواب دیا...یہ ایک چھوٹی سی کمپنی ہے ، اور پھر آج کل کاروباری حالات بھی بہت اچھے نہیں۔اس پر شہباز شریف کی طرف فوراً ایک پیش کش آئی...تو آپ کسی بنک سے قرضہ کیوں نہیں لے لیتے ۔ ہم اس ضمن میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ کائوس جی نے جواب دیا۔آپ کا بہت شکریہ ، لیکن اگرکاروبار نہ چلا تو میں قرضہ واپس کیسے کروں گا؟ا س پر شہباز شریف نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ قرضے کی واپسی کی کیوں فکر کرتے ہیں؟ قرض کی واپسی کا کس نے کہا ہے ؟ اس طرح شہباز شریف نے کائوس جی کو مالی تعاون کا یقین دلایا ۔ تاہم کائوس جی اس دام میں نہ آئے اور معذرت کرنے کے بعد وزیرِاعظم کے محل نما گھر سے واپس ہولیے ۔ 
کائوس جی نے یہ واقعہ عابدہ حسین اور اُن کے شوہر، فخر امام کی موجودگی میں بیان کیا ۔ اس پر ہم سب سوچ میں پڑگئے کہ 1990 ،جب نواز شریف پہلی بار وفاق میں اقتدار میں آئے تھے ، اور1999 ، جب مشرف نے اُن کی حکومت ختم کردی، کے درمیان شریفوں کی سلطنت کسی طرح دوگنی ہوگئی ۔ 
یہ مفاد اور سرپرستی کی سیاست کی صرف ایک جھلک تھی کہ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے سیاست دان کامیابی حاصل کرنے اور اپوزیشن کو خاموش یا بے اثر کرنے کے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ ان حربوں میں خریدلینا، دھمکی دے کر زبان بند کردینا یا دوست بن کر کام نکالنا شامل ہیں۔ آج کل موخرالذکر کا بے دریغ استعمال ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ 
چند سال بعد، اور یہ 23جولائی 2000 ء کی بات ہے ، ہم نے اٹک قلعے میں احتساب عدالت دیکھی جس میںنواز شریف کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ روسی ساخت کے Mi-8 ہیلی کاپٹر پر 600,000پائونڈ ٹیکس ادا کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ یہ ہیلی کاپٹر اُنھوںنے انتخابی مہم چلانے کے لیے پہلے لیز پر لیا اور پھر اکتوبر 1993 ء میں خرید لیا ۔ وزارت ِ اطلاعات ہم صحافیوں کو مقدمے کا فیصلہ دکھانے کے لیے وہاں لے گئی ۔ فیصلے کے بعد میںنے نواز شریف سے پوچھا کہ اُن کے دل میں کوئی پچھتاوا ہے تو اُن کا جواب تھا۔نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں نے اپنی رقم سے ہیلی کاپٹر خریدا تھا ۔
مشرف کے شب خون اور نواز شریف کے خلاف کیسز کے جو بھی محرکات تھے ، ایک بات واضح تھی کہ نواز شریف کو اس پر کوئی تاسف نہیں تھا کہ اُنھوں نے ٹیکس چوری کیا جوکہ Mi-8 ہیلی کاپٹر کی خریداری پر ادا کرنا لازم تھا (مجھے بھی اس ہیلی کاپٹر میں ایک مرتبہ نواز شریف کے ساتھ جانے کا موقع ملا)۔ اس خاندان نے 1980 اور 1990کی دہائیوں کے دوران جتنا انکم ٹیکس ادا کیا ، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی آمدن چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، جبکہ اُن کے فنانس منسٹر چھوٹے اور درمیانے کاروباری افراد سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس نکلوالنے کے لیے اُن کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ 
1999ء میں کسی وقت اسحاق ڈار کے ساتھ ایک اور ملاقات نے اشرافیہ کی خود پارسائی اور مفاد پرستی کی ذہنیت کا بھرم کھول دیا کہ وہ کس طرح ٹیکس چوری، امدادی قیمت اورسرکاری رقوم کی واپسی سے اپنی جیبیں بھرتی ہے ۔ سالانہ بجٹ سے کچھ عرصہ پہلے پلاننگ کمیشن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار بہت فخر سے بتا رہے تھے کہ اُنھوں نے نصف ملین ٹن اضافی چینی بھارت کو برآمد کی ہے ۔ اُن کا کہنا تھا :ہم نے برآمد کرنے والی شوگر ملوں کو پانچ ہزار روپے فی ٹن امدادی قیمت دی ہے ۔ میںنے پوچھا کہ کیا وہ اُن ملوں کے نام بتانا پسند کریں گے جنہیں یہ رقم ادا کی گئی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے میںنے کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ڈار صاحب بھڑک اُٹھے اور غصے سے بولے...کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی شوگر ملوں کو رقوم ادا کی ہیں؟ لیکن پھر اُن کے ایک نائب نے اُن کا غصہ ٹھنڈا کردیا اور یوں وہ پریس کانفرنس ختم ہوگئی ۔ 
یہ تینوں واقعات ہمارے ملک پر حکومت کرنے والی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اشرافیہ کی سوچ ملک میں موجود قطبی رویوں کی جڑ ہے ۔ چاہے قومی وسائل کی لوٹ مار ہو، ٹیکس چوری ہو،امدادی قیمت یا مالی ہیر پھیر سے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کی پالیسی ہو، ان رویوں کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے ۔ ایک قومی روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں نامور ماہر ِ معاشیات، ثاقب شیرانی نے اس مسئلے کا حل تجویز کیا ہے ۔(باقی ص فحہ 13پر)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں