"IGC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ مذاکرات میں موضوع کی یکسانیت

پاکستان اور امریکہ کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے، اور اسی طرح سفارتی کھیل بھی، جس میں سول‘ ملٹری افسران کے دورے بھی شامل ہیں؛ تاہم ستم ظریفی دیکھیں کہ اس گفتگو کا مواد تبدیل نہیں ہوتا، بلکہ اس پر یکسانیت کی گہری اور ان مٹ چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ اس دو طرفہ گفتگو میں ''حقانی نیٹ ورک ‘‘ کو مرکزی موضوع کی حیثیت حاصل ہے۔ 
امریکی فوج اور سویلین افسران کے حالیہ بیانات اسی بنیادی سوال کے گرد گھومتے ہیں کہ کیا، اور اگر ایسا ہوتا ہے کہ تو کب، پاکستان خوفناک حقانی نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈائون کرے گا؟ وہ اپنی نجی گفتگو کے دوران پوچھتے ہیں کہ اس نیٹ ورک، جو ان کے تئیں افغان دارالحکومت میں کئی ایک خوفناک حملوں کا ذمہ دار ہے، کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پاکستان کو کیا ترغیب دی سکتی ہے؟
پاک امریکہ گفتگو میں پانچ اہم عناصر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلا، امریکی افسران پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کو کوئی علم نہیں کہ حقانی نیٹ ورک کہاں موجود ہے، اور کہاں سے کارروائیاں کرتا ہے۔ امریکی افسران کا اصرار ہے کہ حقانی پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس اُن کے خلاف افغانستان میں کارروائی کرنے کے وسائل موجود ہیں، اور اگر پاکستان ''ہتھوڑے‘‘ کا کردار ادا کرے تو امریکہ ''آئرن‘‘ فراہم کر دے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر پاکستان اپنی سرزمین پر حقانیوں کے خلاف آپریشن کرے تو امریکہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گا۔ جب امریکیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا امریکی فورسز درحقیقت حقانی اور طالبان انتہا پسندوں کے خلاف افغانستان کے اُن 43 صوبوں میں ''آئرن‘‘ کا کردار ادا کر سکتی ہیں‘ جو یو ایس انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر کے مطابق طالبان کے براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول میں ہیں‘ تو عام طور پر اُن کا جواب مبہم ہوتا ہے، یا وہ سکوت اختیار کرتے ہیں۔ 
دوسرا یہ کہ حقانیوں کے خلاف کارروائی کرنے پر امریکی اصرار کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کابل اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والے تمام بڑے حملوں میں حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ شامل رہا ہے۔ تاہم رواں سال اکتوبر اور نومبر میں افغانستان کے مختلف مقامات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری داعش نے اٹھائی۔ تو پھر اس صورتِ حال میں حقانی کہاں کھڑے ہیں؟ اور اس نیٹ ورک کو کس طرح افغانستان میں تشدد کی واحد وجہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ حتیٰ کہ نومبر میں کابل میں ایک شادی ہال کے باہر ایک خود کش حملہ داعش کی طرف سے کیا گیا۔ افغان اور امریکی افسران، بشمول جنرل نکلسن، جو امریکی اور نیٹو فورسز کی کمان کر رہے ہیں، خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں داعش اپنے پائوں پھیلا رہی ہے، اور اس نے طالبان اور ملک میں فعال کم و بیش 20 غیر ریاستی عناصر کو مرکزی سٹیج سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 
تیسرا عنصر یہ کہ صرف حقانیوں کے خلاف کارروائی کرنے یا اُن کی سرگرمیوں کا دائرہ محدود کرنے سے امن و امان کی صورتِ حال کس طرح بہتر ہو سکتی ہے، یا تشدد میں کس طرح کمی واقع ہو سکتی ہے جبکہ دیگر گروہ بھی تقویت پا رہے ہیں؟ جس دوران افغان طالبان کے تمام دھڑے تمام سرکاری اور ملٹری تنصیبات کو ہر ممکن طریقے سے ہدف بنانے میں مصروف ہیں‘ تو اس اہم سوال کا کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں۔ 
پاک امریکہ گفتگو میں نمایاں دکھائی دینے والا چوتھا عنصر واشنگٹن کا انڈیا کی طرف جھکائو ہے۔ امریکی افسران کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ جب تک امریکہ افغانستان کے ذریعے بھارت کی وکالت کرتا رہے گا، اُسے پاکستان کی طرف سے تعاون ملنا محال ہے۔ بھارت کو چین کا حریف بنا کر میدان میں اتارنے کے لیے اس کے پلڑے میں وزن ڈالنے کی ناروا پالیسی بلا شبہ پاک امریکہ اور پاک افغان تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے۔ نیز واشنگٹن کو پاکستان کو بھارتی عینک سے دیکھنے کی پالیسی ترک کرنی ہو گی۔ پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے۔ 
آخر میں، ماضی میں سیاسی جغرافیائی مسابقت کے کھیل میں متعدد بار تلخ تجربات حاصل کرنے والے پاکستانی افسران سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر وہ افغان جنگ کے شعلے اپنی سرزمین پر بھی بھڑکا لیں تو کیا ریلیف کی کوئی ضمانت ہو گی؟ حقانیوں کے خلاف براہِ راست کریک ڈائون بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ''چھتے‘‘ میں القاعدہ کی انتہا پسندانہ سوچ سے متاثر ہونے والے پاکستانی، افغانستان کے غیر ریاستی عناصر، سب شامل ہیں۔ اگر پاکستان انواع و اقسام کے ان تمام انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اسے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
قدامت پسندانہ ذہنیت کو فروغ دینے والے گروہوں سے نمٹنے سے عاجز، پاکستان کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ اگر وہ افغان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں شدید سماجی اور سیاسی رد عمل ہو گا، اور اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ دنیا بھر میں اس کے امیج کو زک پہنچائی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے امریکی اور افغان نمائندوں کو بہت واضح پیغام دیا گیا ہے کہ حقانیوں اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ٹائمنگ اور موقع محل کا فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے، ایسا کسی بیرونی طاقت کے مطالبے پر نہیں کیا جائے گا۔ عقل حیران ہے کہ کیا کولیشن سپورٹ فنڈ حاصل کرنے کے لیے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط ختم کرنے کا تعلق اسی سوچ کی غمازی کرتا ہے، یا پھر اس سے واشنگٹن کے پاکستان کے بارے میں موقف میں بتدریج تبدیلی کا پتہ چلتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں کچھ دیر اور انتظار کرنا ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ دنیا بھر میں اس کے امیج کو زک پہنچائی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے امریکی اور افغان نمائندوں کو بہت واضح پیغام دیا گیا ہے کہ حقانیوں اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ٹائمنگ اور موقع محل کا فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے، ایسا کسی بیرونی طاقت کے مطالبے پر نہیں کیا جائے گا۔ عقل حیران ہے کہ کیا کولیشن سپورٹ فنڈ حاصل کرنے کے لیے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط ختم کرنے کا تعلق اسی سوچ کی غمازی کرتا ہے، یا پھر اس سے واشنگٹن کے پاکستان کے بارے میں موقف میں بتدریج تبدیلی کا پتہ چلتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں کچھ دیر اور انتظار کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں