"IGC" (space) message & send to 7575

بلوچ/ پشتون حقوق کی ’’تحریکیں‘‘: افسانہ یا حقیقت

پاکستان میں بلوچ اور پشتون ''حقوق کی حالیہ تحریکوں‘‘ کا محرک... اگر کوئی ہے تو... کیا اور کون ہے؟ جب ان ''تحریکوں‘‘ کو فروغ دینے والے ریاستی اداروں پر حملہ کرتے ہیں‘ تو ہمیشہ اس قدر شور و غوغا کیوں برپا ہوتا ہے؟
آئیے! پہلے حقوق کے آئینی پہلو پر ذرا اک نظر ڈالتے ہیں۔ چونکہ بنیادی حقوق (مثلاً اظہار رائے، مذہب، اجتماع، املاک کے تحفظ اور فرد کی عزت کی آزادی) ایک عملی جمہوریت کے اجزائے لاینفک میں شامل ہیں۔ اس لیے یہ پاکستان کے آئین کا جزوِ لازم ہیں۔ ان اجزا میں سے بیشتر ریاست کا انتظام چلانے والی حکومت کو رہنمائی دیتے ہیں حتیٰ کہ چین جیسے سوشلسٹ معاشروں میں بھی‘ جہاں شہریوں کی بہبود پر کمیونسٹ پارٹی اولین توجہ دیتی ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 8 سے 28 تک‘ تمام ممکنہ حقوق کا وعدہ کرتے ہیں بشمول فرد کا تحفظ (آرٹیکل 9)، منصفانہ مقدمے کا حق، انسان کے شرف و احترام کی پاس داری، نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی، تنظیم سازی کی آزادی، تجارت، کاروبار یا پیشے کی آزادی، تقریر کی آزادی، اطلاع کی آزادی، مذہب کے اقرار اور مذہبی ادارے قائم کرنے کی آزادی، املاک کے حقوق کا تحفظ، شہریوں کی مساوات (آرٹیکل 25) اور تعلیم حاصل کرنے کا حق۔
نظریاتی اعتبار سے ان حقوق کا اطلاق سب پر ہوتا ہے لیکن یقینا ہم ایک مثالی دنیا میں نہیں رہتے۔ آج کی دنیا نظریاتی اعتبار سے منقسم اور سیاسی اعتبار سے غیر یقینی کا شکار ہے، جس کا تعین بڑی حد تک جیو پولیٹیکل اتحاد کرتے ہیں۔ ناٹو اتحادی ترکی‘ امریکا کو ایک ''عثمانی سلطنت‘‘ سے ڈراتا ہے کیونکہ مؤخر الذکر کھلم کھلا انقرہ مخالف کرد باغیوں کی تائید و حمایت کرتا ہے، یا بھارت ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں سرگرم چین کے حامی باغیوں سے‘ حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے غیر ریاستی عاملوں کے ذریعے نبرد آزما ہوتا ہے۔ یہ جیو پولیٹکس کی چند نمایاں مثالیں ہیںجو مسلح یا سیاسی حزبِ مخالف کے لیے ریاست کے ردِعمل پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر ریاستیں غلطیوں کی مرتکب ہوتی اور افراد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں آخرکار ان ریاستوں کے خلاف بطور چارج شیٹ استعمال کی جاتی ہیں، بعض اوقات حقیقی لیکن اکثر اوقات ان کاکوئی جیو پولیٹیکل محرک ہوتا ہے۔
جہاں تک فاٹا کے محروم لوگوں، بلوچوں کی شکایات دور کرنے، لوگوں کو غیر علانیہ و جبراً غائب کیے جانے جیسے معاملات کا تعلق ہے تو اختلافات مطلقاً جائز ہیں۔ ان معاملات کو قانون کے مطابق سلجھانے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں؛ تاہم ایسے مطالبات کو ''بعض خاص نسلی گروپوں جیسا کہ پشتونوں اور بلوچوں کے خلاف ریاست کے محتاط اقدام‘‘ سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے اور یہیں سے سیاست سے تحریک پانے والے بیانیوں کا چیلنج رونما ہوتا ہے، جسے ریاستی اداروں کے غلط اقدامات ہوا دیتے ہیں۔
آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ جائز اور ناجائز مفادات کے تحت ان غلط اقدامات کو حقوق کی مہم میں کس طرح بدلا جا سکتا ہے۔
یہ 2014ء کی بات ہے کہ ایک بھارتی پبلشنگ کمپنی کے ایک ملازم نے طارق فتح نامی ایک کینیڈین پاکستانی کا تعارف بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے کروایا۔ اس ملاقات کا مقصد برہمداغ بگٹی کا ایک ذاتی خط اجیت دوول کے حوالے کرنا تھا، جس کے بعد برہمداغ بگٹی کو بھارت میں چار مہینوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ اسے بارہ گھنٹوں کے اندر اندر ویزہ جاری کیا گیا تھا اور اس کا مشن کوٹلیہ بکس کے لیے لکھی جانے والی طارق فتح کی کتاب ''Hindu is not my enemy‘‘ کے لیے تائید و حمایت مہیا کرنا تھا۔ یہ کتاب تو شائع نہیں ہوئی لیکن نوجوان برہمداغ بگٹی نہایت پسندیدہ ''بلوچ لبریشن فائٹر‘‘ کے طور پورے بھارت میں لیکچر دیتے ہوئے‘ آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کے معزز مہمان کی حیثیت سے‘ چار مہینوں تک بہترین میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
عزیز قارئین! یہ سنی سنائی بات نہیں بلکہ 17ستمبر 2016ء کو ایک بھارتی واقف کار سے وٹس ایپ پر کی گئی گفتگو کا خلاصہ ہے۔
جس شخص سے میری گفتگو ہوئی‘ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے برہمداغ بگٹی کے زی ٹی وی کے لیے پہلے انٹرویو کا اہتمام کیا تھا، جس کے بعد سے برہمداغ بگٹی بھارتی میڈیا کا ڈارلنگ بن گیا تھا۔ اس نے کہا کہ برہمداغ بگٹی ''دانشور نہیں، تفریح مہیا کرنے والا ہے‘‘۔ اگر سامعین تالیاں بجانے لگیں تو وہ اپنے دلائل سے ہٹ جاتا ہے اور اپنی کہی ہوئی بات دہرانے لگتا ہے۔
اس شخص نے کہا ''بھارتی ہائی کمیشن نے اسے بارہ گھنٹوں کے اندر اندر ویزہ جاری کر دیا تھا (اور) مزے کی بات یہ ہے کہ ویزے پر میرا نام لکھا تھا‘‘۔ میرے واقف کار کا خیال تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے لاپروایانہ سوچ کے تحت ایک دو امریکی دانشوروں سے اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا اور انہیں بھارت کی گود میں ڈال دیا تھا۔
اس نے بھارت کی طرف سے برہمداغ بگٹی کو سیاسی پناہ کی پیشکش کیے جانے کے بارے میں بھی بتایا۔ دوسرے بلوچ رہنماؤں کو بھی اس کے لیے درخواست دینے کا کہا گیا تھا جس کا حتمی مقصد بھارت میں ایک جلا وطن بلوچ حکومت کا قیام تھا۔ میں نے پوچھا کہ جلا وطن حکومت قائم کروانے کے لیے بھارت کا حقیقی جواز کیا تھا۔
اس نے کہا ''محض کشمیرسے توجہ ہٹانے کی غرض سے دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ‘‘۔
یہ بات بامعنی لگتی ہے کیوں کہ اگست 2016ء میں بھارت کے وزیراعظم مودی نے یومِ آزادی پر اپنے خطاب میں ''پاکستان میں بلوچوں سے ہونے والی زیادتیوں‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ یہ وہی بات تھی جو اجیت دوول اور اس کے ساتھیوں نے 2009ء میں کی تھی کہ پاکستان کے اندر موجود فالٹ لائنز کا فائدہ اٹھاؤ اور بلوچستان اس کی ایک مثال ہے۔
جب بیرونِ ملک کوئی شخص خالد پاشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ کی فوری حمایت کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
جہاں تک فاٹا کے محروم لوگوں کی بات ہے، ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ مساوی پاکستانی شہریوں جیسا سلوک کیا جائے اور جمہوری سوچ رکھنے والے تمام پاکستانی اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتے ہیں اور اس علاقے میں مکانات کی بحالی اور روزگار چاہتے ہیں، جہاں اکتوبر 2009ء تک القاعدہ، آئی ایم یو اور دوسرے دہشت گرد بطور پے اِنگ گیسٹ رہتے تھے۔
تاہم زیادہ تر پاکستانی یہ بھی جانتے ہیں کہ پشتون عموماً زندگی کے ہر شعبے کا جزو ہیں؛ انہیں پارلیمان کے علاوہ بیشتر وفاقی وزارتوں اور متعلقہ اداروں میں بہت اچھی نمائندگی حاصل ہے اور وہ مسلح افواج اور پیرا ملٹری میں دوسرا سب سے بڑا نسلی گروپ ہیں۔ ٹرکنگ/ٹرانسپورٹیشن، کان کنی، بھاری مشینری اور تعمیرات کی صنعتوں پر پشتونوں کو تقریباً اجارہ داری حاصل ہے۔ ایک سوال توجہ طلب ہے کہ خالد پاشتین کن حقوق کا مطالبہ اور تحفظ کی کوشش کر رہے ہیں؟
ایسی تحریکوں کے حامیوں کو ان ملکوں کے لوگوں کے لیے ایسے مطالبات کرنا چاہئیں جہاں وہ دہری قومیت والے یا مستقل رہائشیوں کی حیثیت سے رہتے ہیں اور سرمایہ کاریاں کر چکے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ 1970/80ء کے عشروں میں افغانستان کو پاکستان میں گریٹر پشتونستان تحریک شروع کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ بد قسمتی سے وہی افغانستان تب سے انتشار اور اتھل پتھل کا شکار ہے۔
یقینا ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایسے انجام سے دوچار نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنے اس عزم میں متحد ہیں کہ سیاست سے تحریک پانے والی مہمات کو حقوق اور ترقی کا ایجنڈا اغوا نہیں کرنے دیا جائے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے الفاظ میں پاکستان گزشتہ عشرے میں عفریتوں (بہروپیے دہشت گردوں، حقوق کے لیے سرگرم ایکٹوسٹس، علیحدگی پسندوں) کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ریاستی ادارے (پارلیمان، بیورو کریسی اور مسلح افواج) ارادتاً قانون کی حکمرانی کے راستے پر گامزن رہیں تو ایسے عناصر کو کوئی موقع نہیں ملے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں