"IGC" (space) message & send to 7575

اٹھارہویں ترمیم:پتھر پر لکیر یا قابل تبدیلی؟

پوری دنیا میںملکوں کے آئین اورقانون اپنے اپنے مقامی حالات کے سماجی اورسیاسی تحرکات کے عکاس ہوتے ہیں۔حالات کے تقاضوں کے مطابق یہ قانون بدلتے اور بہتر ہوتے رہتے ہیں۔دستور کوممالک کیلئے استحکام اورطویل المدتی ضرورتوں کاادارہ جاتی حل کہنا بے جا نہ ہوگا۔اس کی شقیں محض کسی بھی حکومت اوراسے حاصل پارلیمانی اکثریت کے رحم وکرم پر نہیں ہونی چاہئیں‘تاہم پروفیسر رچرڈالبرٹ جو ییل‘ہاورڈاورآکسفرڈ جیسے اداروں سے فارغ التحصیل لاء گریجویٹ ہیں‘ کے مطابق صرف چند لوگ ہی ایسے ہوں گے‘ جو اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ اصولی طور پرآئین کونئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوسکتاہے ‘آئین کی تدوین کے وقت جو اقداررائج تھیں وہ بعد میںسماجی‘معاشی اورسیاسی تبدیلیوں کی بناء پرقابل عمل نہ رہی ہوں۔پوری دنیا سے دستیاب اعدادوشماربتاتے ہیں کہ سماجی تبدیلیاں آئین میں ترمیم اورنظرثانی کرنے پرمجبورکرتی ہیں اور اس سے آئین سازوں کے مقاصدبھی بہتر طور پر پورے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ہمارے ہمسائے بھارت میں 1950ء میں آئین بننے کے بعداس میں اب تک 225ترامیم ہوئیں جن میں سے 123ترامیم بلوں اور102ترامیم ایکٹس کے ذریعے کی گئیں۔اس میں وہ ترامیم بھی شامل ہیں‘ جنہیں بھارت کی پارلیمنٹ دیے گئے خصوصی اکثریت کے طریقہ کارکے تحت متاثرکرسکتی تھی اوروہ ترامیم بھی ہیں جن کیلئے ایسی مخصوص اکثریت کے ساتھ ساتھ ریاستی قانون سازاسمبلیوں کی جانب سے سادہ اکثریت سے توثیق کی بھی ضرورت تھی۔
1949ء میںجرمنی کاآئین Grundgesetz کل 146شقوں پرمشتمل تھاجواضافے کے ساتھ 1980ء میں 171شقوں پرمشتمل ہوگیا اور1999ء میں یہ تعداد183ہوگئی‘اس آئین کے الفاظ شقوں کونکالنے‘ نظرثانی ‘اضافے اوروضاحتوں کے سبب تقریباً ابتدائی مسودہ کے مقابلے میں دوگناہوگئے ۔اوسطاً ہرشق میں ایک سے زیادہ بارترمیم یا نظرثانی کی گئی اورمختصراً اس کا درست تناسب1.2 بنتا ہے ۔ آئین بننے سے لے کراب تک تین مکمل ابواب کااضافہ بھی کیا گیا ہے ۔جرمنی کے قیام کے پہلے پچاس سالوں کے دوران 40شقوں کااضافہ کیاگیا جبکہ تین شقیں منسوخ کی گئیںجس کی وجہ نئے حالات میں ان کامتروک ہوجانا تھا۔اسی طرح امریکہ کے آئین میں بھی اب تک 27بارترمیم ہوئی ہے ‘مجموعی طور پردیکھاجائے تویہ ترامیم بہتری کیلئے تھیں اورکچھ کوتوبہت زبردست کہا جاسکتا ہے ۔سوسائٹی آف پروفیشنل جرنلسٹ ایوارڈجیتنے والے سینئر صحافی ایرک بلیک انک نے MinnPost میںلکھا کہ ان ترامیم سے حقوق اورآزادیوں کوتقویت ملی اورامریکی نظام میںجمہوریت کو مزید فروغ ملا ۔ان ترامیم سے آئین کو زیادہ بدلے بغیر حکومتی ڈھانچہ اورنظام بہتر بنایا گیا لیکن جن نکات پرویٹوکیا جاسکتا ہے اس کے مسئلے حل نہیں کیے گئے ۔امریکی آئین میں 2012ء میں کی گئی 27 ویں ترمیم ان لوگوںکی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی سمجھی جا سکتی ہے جوجمہوری عہدیدارہیں ۔اس ترمیم کے تحت کہا گیا ہے کہ اگر کانگریس اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرے تویہ اضافہ اگلے الیکشن تک مؤثربہ اطلاق نہیں ہوسکتا ۔یہ ترمیم ارکان پارلیمنٹ کی اخلاقی مضبوطی کی عکاس ہے کہ انہوں نے اپنے فائدہ کیلئے قانون سازی نہیں کی۔اس ترمیم کاپاکستان سے تقابل بھی کیا جاسکتا ہے جہاںساری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہ اورمراعات کیلئے ایک ہوجاتے ہیں اوراس کااطلاق بھی فوری ہوتا ہے ۔دلچسپ امریہ ہے کہ امریکی آئین میں کئی گئی 18ویں ترمیم کے تحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کی گئی جبکہ 21 ویںترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم کومنسوخ کرکے ان اشیاء کی فروخت کی دوبارہ اجازت دے دی گئی۔
1909 ء میں امریکی کانگریس نے 16ترمیم تجویز کی‘ جسے 1913ء میں منظورکیا گیا اورغالباً یہ ترمیم پاکستان کے موجودہ حالات کاموازنہ پیش کرتی ہے جہاں اعلیٰ عدلیہ اپنے دائرہ کارمیں اضافہ اورکسی حدتک مداخلت کرتی نظر آتی ہے ۔اس وقت امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کانگریس انکم ٹیکس لگانے کا آئینی اختیارنہیں رکھتی تاہم کانگریس نے متفقہ طور پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جاتے ہوئے انکم ٹیکس نافذکیا جوآج بھی برقرار ہے ۔ان تینوں مثالوںکوبیان کرنے کامقصدایک نقطہ کی اہمیت جتا نا ہے کہ آئین کی شقیںکوئی الہامی چیزنہیں ہیں اورنہ پتھر پرلکیر ہیں جنہیں بدلا نہیں جا سکتا ۔ان آئینی شقوں کوسماج کے سیاسی ومعاشرتی حالات کے پیش نظربدلتا جاسکتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین پاکستان میں 18ویں ترمیم کواتنامقدس کیوںسمجھاجارہاہے کہ اس پرپارلیمانی نظرثانی بھی نہ ہوسکے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ترمیم پارلیمانی اتفاق رائے کابہترین نمونہ ہے جس سے صوبائی خودمختاری کیلئے غیرمعمولی جگہ بنی ۔اس ترمیم کے ذریعے صدرمملکت کے کسی صوبے میں ایمرجنسی رول لگانے اوروزیراعظم کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے ا ختیارات میں کمی کرکے علامتی سربراہ بنا دیا گیا ۔بری‘بحری فوج اورفضائیہ کے سربراہان ‘چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اورگورنروںکی تعیناتی بھی وزیراعظم کے مشورہ سے مشروط کردی گئی ۔اس ترمیم سے وزیراعظم اورپارٹی سربراہان کوغیرمعمولی اختیارات حاصل ہوگئے ‘اسی ترمیم سے ایک ہی شخص کوتیسری باروزیراعظم بننے کی اجازت واضح طور پرنوازشریف کوتیسری باروزیراعظم بننے کے قابل بنانے کیلئے تھی ۔اس ترمیم سے عدالتوں کوہنگامی حالات کے بہانے آئین کومعطل کرنے کی توثیق سے بھی روکاگیا ۔ملک کے جمہوری دورمیں یہ بہترین کام تھا‘اس کے بعد اپریل 2010 ء سے لے کراب تک آئین میں مزید 7ترامیم ہوچکی ہیں تواس صورتحال میں 18ویں آئینی ترمیم کے دوبارہ جائزے اور اسے بہتر بنانے کی کسی بھی بات پرارکان پارلیمنٹ اوران کے حامیوںکاپکاانکارتعجب کاباعث ہے اوریہ تاثردیا جاتاہے کہ جیسے یہ سب کچھ الہامی تھااور اس پرکوئی تازہ بات چیت وبحث نہیں ہوسکتی ہے۔کیا کی گئی ترمیم کے کمزورپہلوئوں پرتازہ بحث کی بندش بحث وتمحیص کے جمہوری اصولوں کے مطابق ہے؟
18ویں ترمیم جس کے ذریعے آئین کی تقریباً 100شقوں کوچھیڑا گیاسے متعلق ایک مرتبہ بیرسٹر کمال اظفر نے کہا تھا کہ اس ترمیم کے ذریعے آئین کے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔معروف وکیل ایس ایم ظفر کی رائے میں اگرچہ 18ویں ترمیم سے صوبائی خودمختاری کامسئلہ حل کیا گیا ہے تاہم جتنی ترمیم ہونی چاہیے اس سے کام بڑھادیاگیا ہے۔وہ مقامی حکومتوں کے مسئلہ یعنی اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی سے متعلق کہتے ہیں کہ اس معاملے پرتزمیم سے زیادہ صوبائی قیادت کواپنا ذہن بدلنے کی ضرورت ہے ۔مسلم لیگ ن سے متعلق رکھنے والے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم کے خیال میں پائیدارترقیاتی اہداف پربین الاقوامی ذمہ داریاں وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہیں لیکن تعلیم اورصحت سے متعلق ان اہداف پرعملدرآمدکیلئے وفاقی حکومت کامقامی کنٹرول بالکل نہیں ہے کیونکہ دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم اورصحت کوترمیم کے ذریعے صوبوں کودے دیا گیا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت ایک رکن پارلیمنٹ آئینی ترمیم پراپنی منشاء اورضمیر کے مطابق ووٹ نہیں دے سکتا اورایساکرنے کی صورت میں پارٹی لیڈر اسے فوراً جماعت سے باہرنکال سکتا ہے اوراس کے نتیجے میں وہ پارلیمنٹ کی رکنیت بھی کھوسکتاہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ متوازی/مشترکہ فہرست کومکمل طورپرختم کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہوا ہے‘صوبائی سطح پروفاقی ٹیکسوں کی نقل کرکے کئی ٹیکس لگا دیے گئے جس سے الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔
چوتھے نمبرپرآئین میں ترمیم کردی گئی کہ قومی مالیاتی کمیشن میں صوبوںکا حصہ بڑھایا توجاسکتاہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا انتہائی غیرحقیقی ہے ۔
اگر ملک میں ہنگامی حالت اورخیبر پختونخواکی طرح جنگ جیسی صورتحال ہو‘کوئی قدرتی آفت آئے یاسابق فاٹاکی طرح کسی مخصوص علاقے کیلئے زیادہ ترقیاتی فنڈزکی ضرورت ہوتواس صورتحال میں کیا کیاجائے گا؟مختصراً ہم سکتے ہیں اس ترمیم نے حکومتی نظم ونسق کے ڈھانچے کوبھی بری طرح متاثرکیا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں