"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور چین

چین کی حقیقی اسٹیبلشمنٹ دی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہے۔ یہ پارٹی فوجی ڈسپلن کے تحت کام کرتی ہے؛ تاہم سوچنے کا انداز سویلین ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی ہی ملک کی ترقی یقینی بنانے والا حقیقی انجن ہے۔ پارٹی کو غیر معمولی سنجیدگی اور یکسوئی رکھنے والے بے غرض قائدین ملتے رہے ہیں۔ ان میں ماؤ زے تنگ، چو این لائی، ڈینگ ژیاؤ پنگ، وین جیا باؤ اور موجودہ صدر شی جن پنگ شامل ہیں۔ 
سوشل ازم کے آدرشوں سے غیر معمولی، بلکہ مثالی نوعیت کی وابستگی اور بہبود عامہ پر توجہ کا ارتکاز وہ جذبہ ہے جس نے اب تک چین کے جہاز کو ہر سمندر میں رواں رکھا ہے۔ چین نے 41 برس میں جس انداز سے اور جو ترقی کی ہے وہ واقعی دم بخود کر دینے والی ہے۔ چین کے قومی ادارہ شماریات نے 2018 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1952 میں چین کی خام قومی پیداوار 30 ارب ڈالر تھی جبکہ 2018 میں چین کی خام قومی پیداوار 13610 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ یعنی چین نے خام قومی پیداوار کے تناظر میں 452.6 گنا ترقی کی ہے۔
1978 میں چین خام قومی پیداوار کے اعتبار سے گیارہویں نمبر پر تھا۔ 2010 میں اس نے جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں تبدیل ہو گیا۔ تب سے اب تک چین دوسری پوزیشن کا حامل ہے۔ 1961 سے 1978 تک عالمی معیشت میں چین کا کردار اوسطاً 1.1 فیصد سالانہ سے زیادہ نہ تھا؛ تاہم 1979 سے 2012 تک یہ تناسب 15.9 فیصد ہو گیا جس کے نتیجے میں چین عالمی سطح پر دوسرے پر نمبر پر آ گیا۔ 2013 سے 2018 کے دوران یہ تناسب 28.1 فیصد تک جا پہنچا‘ اور چین پہلے نمبر پر آ گیا۔ اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی قیادت نے غیر معمولی اقتصادی پیش رفت کو ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ ماؤزے تنگ، ڈینگ ژیاؤ پنگ اور شی جن پنگ جیسے اہل دانش اور بے لوث جذبے کے حامل قائدین نے چینی کمیونسٹ پارٹی کو ایسی قوت بنا دیا ہے جو ملک کو یکجا رکھتی ہے۔ یہی قوت جدید چین کو مثالی اکنامک پاور ہاؤس بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 
دوسری طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چینی کمیونسٹ پارٹی کو ایک کنٹریکٹ پیش کرتی ہے۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان محصور حالت میں پاکستان سلامتی کے حوالے سے غیر معمولی پریشانی سے دوچار رہا ہے۔ اس کا وجود خطرے میں رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت سے تنازع نے پاکستان کے نیشنل سکیورٹی پیراڈائم کو موجودہ شکل دی ہے۔ یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے مسائل اندرونی سیاست میں اس کے الجھاؤ کے بطن سے ہیں۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک اتحاد سامنے آیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ خود کو پاکستان کے مفادات کا بہترین اور سب سے زیادہ کمٹمنٹ والا محافظ سمجھا ہے اور جاگیرداروں، کاروباری طبقے اور ایرسٹوکریٹس نے اس کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ ان سب نے ملک کو بچانے کے نام پر کیے گئے اقدامات میں پارٹنر کا کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنی طاقت گراس روٹ لیول سے حاصل کرتی ہے۔ ایسا ڈھانچا تیار کیا گیا ہے جو مستقبل کے لیے لیڈر تیار کرتا رہتا ہے۔
صدر شی جن پنگ نے سات سال تک رضاکار کی حیثیت سے شینگژی صوبے کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پانی کی فراہمی، نکاسی اور توانائی کے منصوبوں میں مقامی لوگوں کی مدد کی۔ شی جن پنگ نے جب اس گاؤں میں قدم رکھا تب وہ 15 سال کے تھے اور جب رخصت ہوئے تو وہاں بہت سے لوگوں کو اپنا دوست بنا چکے تھے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے تقریباً تمام ہی قائدین اسی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ عوام کے لیے انتہائی قابل قبول ثابت ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے ڈسپلن کی پیرو ہے جو گیریژن میں پیدا ہوتا اور وہیں پروان چڑھتا ہے۔ عوام کی عمومی رائے سے اس کا بظاہر کچھ خاص تعلق ہے نہ لینا دینا۔ چیئرمین ماؤزے تنگ کسان کے بیٹے تھے اور انہوں نے بھی عنفوان شباب کا زمانہ اس گاؤں میں لوگوں کی خدمت انجام دیتے ہوئے گزارا جہاں وہ پروان چڑھے۔ 
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ملک کا سب سے منظم اور مضبوط ادارہ ہے۔ اس کا مائنڈ سیٹ البتہ گیریژن میں لنگر انداز ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معاملہ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کو پروان چڑھانے کا ہو یا منظم طور پر مخالفت کرنے کا، وہ ہمیشہ ملک کے بہترین مفاد میں متحرک ہوتی ہے۔ ناقدین اسے سوشل انجینئرنگ کہتے ہیں جس کی جڑیں موجودہ حکمران جماعت میں بھی پائی جاتی ہیں۔بلا واسطہ یا بالواسطہ مداخلت نے، خواہ نیک نیتی سے کی گئی ہو، ایسے ناقابل قبول نتائج پیدا کیے‘ جن کا ارادہ نہیں کیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں میرٹ، شفافیت، جوابدہی اور سیاسی درستی کے اصول پر سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔ چین میں ہر معاملہ کامیاب اس لیے رہا کہ اس نے ایک نظام، ایک جماعت، ایک زبان اور ایک قوم کے تصور پر پختہ یقین رکھا۔ اس کے قائدین نے تمام مقاصد حاصل کیے۔ 
پاکستان کا معاملہ بہت سے معاملات کے آپس میں گڈمڈ ہو جانے کا ہے۔ فعال جمہوریت کو غیر فعال نظامِ حکمرانی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ معاملات کو مزید خراب بصیرت سے محروم، خود غرض قائدین اور برطانوی عہد کی طرز حکمرانی کی حامل ایسی بیوروکریسی نے کیا‘ جو موم کی ناک جیسی ہے کہ جس طرف جی چاہیے، موڑ دیجیے۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنی غالب حیثیت اور اس غالب حیثیت کا چہرہ چھپانے کی کوشش کے ذریعے توازن پیدا کرنے کی تگ و دو کی ہے۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور بلوچستان کی چند جماعتیں اس بیلنسنگ ایکٹ کا نمونہ ہیں۔ نتائج بالکل برعکس ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ جی ایچ کیو کے پیراڈائم کی ہدایات کے تحت پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی محاذوں پر لڑتے ہوئے سلامتی کو لاحق خدشات کی حامل ریاست سے ایک نارمل ریاست بننے کے مرحلے میں ہے۔ پاکستان کے متعدد مسائل سکیورٹی کو بنیاد بنا کر تیار کی جانے والی پالیسیوں کے بطن سے پیدا ہوئے۔ چین میں مفاد عامہ کو مرکزی حیثیت دینے والی ریاستی مشینری فعال رہی ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کی مدد سے چین کی کمیونسٹ پارٹی ملک کو معاشی کرشمے کی شکل دینے میں کامیاب رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کسی بھی خرابی کے لیے کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسے اگر الزام دینا تھا تو اپنے ہی لوگوں کو۔ یہی سبب ہے کہ وہ اہم عہدوں پر فائز ہونے والوں کے محاسبے کے حوالے سے غیر معمولی اور نمایاں حد تک غیر لچک دار رہی ہے۔ 
ایسے میں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار ٹامس فرائیڈمین کو بھی کہنا پڑا کہ ایک جماعت کی حکومت کے بہت سے نقصان اور خامیاں بھی ہوتی ہیں مگر روشن خیال شخصیات قیادت کا فریضہ انجام دیں تو اس طرز حکومت کے چند فوائد بھی ممکن ہیں اور یہ بات چین کو دیکھ کر سمجھی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک جماعتی اقتدار کے تحت معاشرے کو اکیسویں صدی میں بہتر انداز سے آگے بڑھانے کے لیے سیاسی طور پر مشکل مگر اہم فیصلے آسانی سے نافذ کیے جا سکتے ہیں۔ 
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی صفوں میں احتساب کا عمل تواتر سے آگے بڑھایا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں میں نے اپنے مفاد کو اولیت دینے والے سیاست دانوں کو باریاں لیتے ہوئے بے صبری سے دیکھا، اختیارات غلط طریقے سے استعمال کیے گئے، دولت جمع کی گئی اور حکمرانی کے نظام کی اصلاح پر برائے نام توجہ دی گئی۔ اس کے نتیجے میں حکمرانی کی لاگت بڑھ گئی اور اسٹیبلشمنٹ کو ملک بچانے کی خاطر مداخلت کرنا پڑی۔ جرنیل (ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف) جب اقتدار میں تھے تب انہوں نے ملک کے گوناگوں معاشی مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش نہیں کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے کرپشن کے الزام کی بنیاد پر احتساب کا نعرہ لگا کر سیاسی معاملات میں بلا واسطہ یا بالواسطہ مداخلت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ احتساب کا عمل ملک میں کبھی مقبولیت حاصل نہیں کر سکا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں سے جواب طلب کرنے کے نظام ہی میں خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ تضاد بہت نمایاں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ معاملات کو درست تو کرنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے موجودہ سویلین لیگل فریم ورک کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں، کاروباری افراد اور قانون دانوں پر مشتمل مفاد پرست عناصر احتساب کے عمل کو نیچا دکھا دیتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں