"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت کا ’’غیر معمولی‘‘ منافقانہ بیانیہ اور جیوپولیٹکس

بھارتی میڈیا نے ترکی کو ہدف بناتے ہوئے ایک نیا منفی بیانیہ شروع کر دیا ہے۔ حسب روایت مگر حیران کن طور پر وہ پاکستان اور ترکی‘ دونوں کو اس بحث میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب ترک فوج نے شمالی شام میں Operation Peace Spring شروع کیا تھا تو ایک بھارتی آن لائن مجلے Swarajya Mag نے کھلم کھلا اور کسی سیاق و سباق کے بغیر یہ بیان جاری کر دیا تھا کہ جب یورپی یونین نے شام کے خلاف ترکی کی جارحیت کی مذمت کی تو طیب اردوان کی طرف سے دی جانے والی دھمکیاں کسی مدبر سیاست دان کو زیب نہیں دیتیں۔ ان کا انداز ایک اور جوہری Rouge ریاست‘ پاکستان کی دھمکیوں سے قطعی مختلف نہیں ہے‘ دنیا کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب یہ دونوں ملک بیک آواز ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین اس معاملے کو سلامتی کونسل لے گئی تھی‘ لیکن ترکی کے خلاف مشترکہ مذمتی قرارداد پاس کروانے میں ناکام رہی۔ اس کوشش کے بعد صدر اردوان نے یورپی یونین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ جو ممالک سلامتی کونسل میں بیٹھ کر ترکی کو درس دے رہے ہیں کیا انہیں معلوم ہے کہ ترکی کے خلاف کیا سازشیں کی جا رہی ہیں؟ انہوں نے یورپی یونین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس کی جانب سے اس آپریشن کو جارحیت قرار دیا گیا تو میں ترکی میں پناہ لیے ہوئے 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو یورپ بھیجنے کے راستے ہموار کر دوں گا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ بھارتی آن لائن مجلے کو اردوان کی باتوں میں تو دھمکیاں نظر آ گئیں‘ لیکن یورپی یونین کے اقدام میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔
ایسی درِ پردہ شرارتیں کرنے والے یہ فراموش کر دیتے ہیں یا دانستہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تمام ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو ضروری سمجھتے ہیں وہ اقدامات کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے شمالی شام سے امریکی فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا کہ ''یہ ہماری سرحدیں نہیں ہیں‘‘ نیز یہ کہ کرد بھی ''فرشتے نہیں ہیں‘‘۔ یہ اقدام انہوں نے صریحاً امریکی مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا ہو گا۔
طیب اردوان نے بھی 22 اکتوبر کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے‘ جس کے تحت شامی کرد ترکی اور شام کی سرحد سے متصل شمالی شام کے 20 میل پر محیط بفر زون سے نکل جائیں گے۔ اگست میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ چھوڑے ہوئے یا اس کی جانب سے خالی کیے گئے علاقے میں ترکی کنٹرول سنبھالے گا جب کہ روس اور شام باقی ماندہ علاقے میںچلے جائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ اس طرح طیب اردوان اور ولادی میر پیوٹن نے وہ خلا پُر کر دیا جو صدر ٹرمپ کی جانب سے شمال مشرقی شام سے امریکی افواج کے انخلا کے اچانک فیصلے سے پیدا ہوا تھا۔ عین اسی وقت جب اردوان پیوٹن معاہدہ ہوا‘ شمال مشرقی شام پر ترک حملے کے بعد امریکہ اور ترکی میں بھی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا‘ جس کے تحت کرد فورسز کو اس مبینہ ''سیف زون‘‘ سے نکلنے کے لئے پانچ دن مل گئے تھے جو ترکی شام کی سرحد کے اندر قائم کرنا چاہتا تھا۔
صدر طیب اردوان نے اپنے نو اکتوبر کے آپریشن پیس سپرنگ کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس کا مقصد کردوں کی زیر قیادت فورسز کو سرحدی علاقے سے نکال کر وہاں ایک سیف زون قائم کرنا تھا‘ جہاں لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دی جا سکے گی۔
طیب اردوان کے روس اور امریکہ کے ساتھ بیک وقت دو معاہدوں کی وجہ سے بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ ان دونوں مفاہمتوں نے اس کی ان سب کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے جو وہ طیب اردوان کی مذمت کرنے اور انہیں پاکستان کے ساتھ لنک کرنے کے لیے کر رہا تھا۔ اس دو دھاری نقطہ نظر سے اس کا سارا تعصب کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ یہ کہ ریاستیں اسی وقت تک پوتّر ہوتی ہیں جب تک وہ آپ کی ہاں میں ہاں ملاتی رہیں۔ جب وہ آپ سے مختلف اور متضاد نقطہ نظر اپناتی ہیں اور اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سوچتی یا اقدامات کرتی ہے تو اسی لمحے وہ بدمعاش ریاست کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔
بھارتی حلقے ترکی کے ساتھ ''فطری پارٹنر شپ‘‘ کے تحت تجارت کرنا تو پسند کرتے ہیں مگر جونہی ترکی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے سرحدی علاقے میںکوئی کارروائی کرتا ہے یا کسی ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف ''اسلام ازم کی طرف مائل ریاست‘‘ کا فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے۔ بھارت نے یہی وتیرہ اختیار کر رکھا ہے۔ سواراجیہ میگ لکھتا ہے کہ امریکی انخلاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عسکری خلا نے ترکی کو طیب اردوان کی زیر قیادت ایک طاقت ور بدمعاش ریاست بن کر ابھرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ میگزین نے اس کے ساتھ ہی ترکی کی نیٹو کی رکنیت کے لیے اہلیت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھا دیئے۔ 
چین کے بارے میں بھی بھارت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ چین اس وقت تک بہت ہی اچھا ہے جب تک وہ بھارت کے ساتھ 100 ارب ڈالر کی تجارت کرتا رہے۔ جب صدر شی جن پنگ نے نریندر مودی کو ووہان (چین) میں میزبانی کا شرف بخشا یا جب شی جن پنگ نریندر مودی کے ساتھ ایک غیر رسمی سربراہ ملاقات کے لیے چینائی (بھارت) آئے تو پورا بھارتی میڈیا ان کے گن گاتا رہا۔ حیران کن طور پر یہی چین جب پاکستان کی حمایت کرتا ہے یا اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایک بدی کی قوت بن جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا اور اس کے سخت گیر تجزیہ نگار پاک چین تعاون کو ''گٹھ جوڑ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
ڈھٹائی کی انتہا دیکھیں کہ ایک طرف بھارت اپنی سرحد سے سینکڑوں میل دور افغانستان میں اپنے ''مفادات‘‘ کے نام پر مداخلت کرتا ہے اور اس خیال سے افغان حکومت کی مدد کرنے کے لیے تیار رہنا چاہتا ہے کہ ایک دن ٹرمپ نے افغانستان کو یقیناً خالی کر دینا ہے جب کہ 2560 میل پاک افغان مشترکہ سرحد ہونے کے باوجود وہ پاکستان کو شر پسند ملک کہہ کر اس کی مذمت کرنے سے باز نہیں آتا۔
تجزیہ کار تو بھارتی حکومت کو یہاں تک مشورے دیتے ہیں کہ ''مستقبل کے پاک طالبان گٹھ جوڑ کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بہتر انٹیلی جنس اور خفیہ کارروائیاں ہمارے گیم پلان کا بنیادی عنصر ہونا چاہئیں‘‘۔
اپنی پارسائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ بھارت جس روس سے مہنگا ترین اسلحہ خرید رہا ہے وہ خود پاکستان اور چین کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لئے طالبان کی سیاسی طور پر مدد کی جائے۔
کیا یہ بھی ''بدی کا گٹھ جوڑ‘‘ ہے یا زندگی کے حقائق کو دانستہ مسخ کیا جا رہا ہے؟ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بھارت کی ناکام اور ناکام ہوتی ہوئی پالیسیوں کے پیش نظر اس کی بے چینی اور بوکھلاہٹ کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے‘ جہاں ایک طرف زبوں حالی کا شکار معیشت سے لے کر کشمیر کے مسئلے تک پر کی جانے والی حماقتیں ہیں اور دوسری جانب افغان مسئلے کے حل سے یکسر باہر نکل کر اسے اس کی اوقات کا احساس دلا دیا گیا ہے۔
تاہم بھارت یہ سمجھنے میں بالکل ناکام رہا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے اس کا سائز کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اور دنیا اس کی بڑی معیشت میں کتنی ہی کشش کیوں نہ محسوس کرتی ہو، بہر حال اسے اسی خطے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ رہنا ہے۔ اس کے بد نیتی پر مبنی متذکرہ بالا بیانیے سے خود بھارتی عوام میں تقسیم اور اختلاف بڑھتا جا رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں