"IGC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر: چین اور پاکستان

بھاری وزیر اعظم نریندر مودی کا دل جیتنے کے لئے چینی وزیر اعظم شی جن پنگ کی تمام تر ذاتی ڈپلومیسی کے استعمال کے باوجود بھارت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کو جموں کشمیر اور لداخ کی دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا ہے اس سے چین بھارت تعلقات میں کشیدگی کو تقویت ملی ہے۔ بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد 31 اکتوبر کو یہ تقسیم رو بہ عمل ہو گئی ہے۔ چین نے اس پیش رفت پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
چین کے اس رد عمل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے جواب میں چین کے رد عمل پر بھی اسی طرح کی تلخی اور کشیدگی پیدا ہو گی جس کا تجربہ اس متنازعہ ریاست کے حوالے سے پاک بھارت تعلقات کو ہوا ہے یا پھر چین کی روایتی عملیت پسندی چین بھارت تعلقات کے اس مشکل مرحلے کو خوش اسلوبی سے طے کر لے گی۔
آئیے اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ بھارت کے اس اقدام کو کس انداز سے دیکھتے ہیں ''بھارتی حکومت کے اس اعلان کے مطابق مبینہ طور پر 'یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹیریٹری آف لداخ‘ چین کے بعض علاقوں کو بھارت کے زیر انتظام دینے کے مترادف ہے۔ چین اس اقدام پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدید مخالفت بھی کرتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی اور کالعدم عمل ہے‘ جو کسی طور موثر نہیں ہے اور جو کسی طرح بھی اس حقیقت کو رد نہیں کر سکتا کہ یہ علاقہ چین کے حقیقی کنٹرول میں ہے۔ چین بھارت سے پُر اصرار مطالبہ کرتا ہے کہ وہ چین کی علاقائی خود مختاری کا احترام کرے‘ باہمی معاہدوں کی پاسداری کرے، سرحدی علاقوں میں امن و آشتی کی فضا برقرار رکھے اور سرحدی تنازعے کے حل کے لئے موزوں حالات پیدا کرے‘‘۔
بھارت نے اپنے اس داخلی قانون اور ایڈمنسٹریشن کو تبدیل کرنے کے یک طرفہ اقدام سے نہ صرف چین کے خود مختارانہ حقوق اور مفادات کو چیلنج کر دیا ہے بلکہ چین نے اسے ایک غیر قانونی اور کالعدم اقدام بھی قرار دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق اس اقدام سے نہ تو یہ حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے کہ متعلقہ علاقہ چین کے حقیقی کنٹرول میں ہے‘ نہ اس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔
کشمیر پر چین کا موقف مستقل اور واضح ہے۔ وہ اسے ایک ایسے تنازع کے طور پر دیکھتا ہے جو ''تاریخ کا قرض ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر یعنی اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوںکی روشنی میں پرامن طریقے سے حل ہونا چاہئے‘‘۔ متعلقہ فریقین کو چاہئے کہ وہ اس تنازع کو پُرامن بات چیت، مشاورت اور علاقائی امن و استحکام کی روشنی میں حل کریں۔
ماضی میں چین مسئلہ کشمیر کے دوطرفہ حل کا حامی رہا ہے مگر پانچ اگست کو بھارت کے متنازع علاقوں پر یک طرفہ قبضے کے بعد چین انہیں طے کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے دے رہا ہے۔ نو اکتوبر کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے موقع پر بھی اسی موقف کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان کا ملک جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہے اور اس امر کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو یو این چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی روشنی میں پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فوراً بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کا دورہ کیا اور اپنے چینی ہم منصب وینگ ژی کو آگاہ کیا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کا داخلی معاملہ اور استحقاق ہے اور اس کے بھارت کی بیرونی سرحدوں یا Line of Actual Control پر کوئی مضمرات نہیں ہوں گے۔ جے شنکر نے مزید کہا کہ ''قانونی اقدامات کا مقصد سیاسی و سماجی ترقی اور بہتر حکومتی عملداری کو فروغ دینا تھا۔ اس سے بھارت کی بیرونی سرحدوں یا چین کے ساتھ L.A.C پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت کسی مزید علاقے پر دعویٰ نہیں کر رہا لہٰذا اس ضمن میں چین کی تشویش بے محل ہے۔
چین بھارت سرحد کے بار ے میں بھارتی وزارت خارجہ نے بتایا کہ چین اور بھارت اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ 2005ء کے پولیٹیکل پیرامیٹرز اینڈ گائیڈنگ پرنسپلز کی بنیاد پر اس تنازع کو منصفانہ، پُرامن، معقول اور دونوں ممالک کے لئے قابل قبول طریقے سے طے کیا جائے گا۔ چین بھارت L.A.C تقریباً 3488 کلومیٹر طویل ہے۔ اس سرحدی تنازع کے حل کے لئے دونوں ممالک کے درمیان اب تک بات چیت کے 21 رائونڈ ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدام سے چینی ڈپلومیسی کو ایک اور آزمائش کا بھی سامنا ہے۔ کیا وہ ان معاشی پہلوئوں کو بھی کامیابی سے ڈیل کر لے گا‘ جو 100 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت پر محیط ہیں۔ کیا اس سے بھارت اور چین کے تبت اور لداخ جیسے علاقائی تنازعات مزید گمبھیر ہو جائیں گے یا پھر یہ معاشی مفادات کے تحت اپنی اہمیت کھو دیں گے؟ اس میں پاکستان کے لئے بھی کئی سبق مضمر ہیں۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی اصولی حمایت یقیناً پاکستان کی ناگزیر ذمہ داری ہے‘ مگر تجربہ اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ بیس کروڑ عوام کے معاشی مفادات کا بھی خیال رکھا جائے جو دفاعی اہداف پر مبنی پالیسیوں کے نتائج کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان معاشی طور پر ترقی کرے گا تو کشمیری عوام اور اپنے حقوق کے لئے زیادہ قوت سے آواز بلند کر سکتا ہے۔ یہی وہ مفادات ہیں جو چین نے اپنے 41 سالہ اصلاحاتی تسلسل کی مدد سے حاصل کئے ہیں۔ آج عالمی سیاست میں چین کو جو اہمیت اور مقام حاصل ہے یہ سب اس کی مضبوط اور معاشی قوت کا کمال ہے۔ سول ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کو اس بات کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے کہ اگر پاکستان معاشی لحاظ سے مستحکم ہو گا تو بیرونی دنیا کشمیر سمیت اس کے تمام مسائل کو اہمیت دینے کیلئے تیار ہو گی۔ معاشی استحکام اور خود مختاری کی مدد سے ہی نقصان سے بچائو اور دنیا کے ساتھ مطابقت ممکن ہے۔
انسان کی نجات بلاشبہ سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی میں مضمر ہے۔ چین نے یہ منزل اپنی توجہ انتہائی مرکوز کرکے حاصل کی ہے۔ جب بھی وہاں اعلیٰ قیادت نے کوئی فیصلہ کر لیا تو ٹاپ ڈاؤن حکمت عملی سے اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ ڈین ژیاؤ پنگ سے لے کر شی جن پنگ تک جو کچھ بھی ہوا‘ وہ اس امر کا مظہر ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے سربراہ کی قیادت میں ایک مرتبہ جو پالیسی تیار کی گئی‘ اس کو مکمل طور پر جاری رکھا گیا۔ نہ صرف جاری رکھا گیا بلکہ ہر نئے لیڈر کی طرف سے اسے مؤثر بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔ تین چار دن بعد چین اور پاکستان کی مشترکہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے‘ جس میں آٹھ‘ نو مختلف سیکٹرز میں تعاون کو فروغ دینے پہ بات چیت کی جائے گی۔ جو زیر بحث منصوبے ہیں یا نئے منصوبے‘ ان پہ تفصیلی گفتگو ہونی ہے‘ لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی بیوروکریسی اور بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاستدان ہیں۔ درپردہ سفارتی ذرائع‘ چاہے وہ بیجنگ میں ہوں یا اسلام آباد میں‘ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی اور ٹیکنوکریٹس منصوبے تو یہاں لگانا چاہتے ہیں‘ صنعتکاری بھی چاہتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے تیاری نہیں کی ہوتی۔ حکومت چینی حکومت سے درخواست کرتی رہتی ہے کہ یہاں چینی سرمایہ کاروں کو لایا جائے‘ لیکن وہ جب یہاں آتے ہیں اور ہمارے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے تو ہمارے لوگ چینی سرمایہ کاروں سے کہتے ہیں کہ آپ خود ہی دیکھ لیجئے‘ ملک حاضر ہے‘ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں۔ مجھے خود بیجنگ میں بتایا گیا کہ آپ کے لوگوں کے مقاصد بڑے بلند ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے جو بنیادی تیاری چاہیے ہوتی ہے وہ دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسی وجہ سے سی پیک کا فیز ٹو بھی تاخیر کا شکار ہے۔ میرے خیال میں پانچ‘ چھ نومبر کو دونوں ملکوں کے ماہرین کے مابین جو بات چیت ہونی ہے اس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس وقت ملک میں سیاسی انتشار پایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف حکومتی محکموں کے درمیان کوآرڈی نیشن کا بھی فقدان ہے۔ جب تک ملک کے اندر محکمہ جاتی کوآرڈی نیشن نہیں ہو گی‘ جب تک پیش بندی کے طور پر تیاری نہیں ہو گی‘ اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں