"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر پر الگ حکمت عملی کی ضرورت

کیا ہماری میڈیا کوریج خاصے با اثر جرمن، برطانوی، امریکی اور فرانسیسی ناظرین و قارئین کے حوالے سے مطابقت رکھتی ہے؟ برطانوی وزیٹر مارکس ٹاملنسن نے پوچھا: جس چیز سے میں کوئی اثر قبول نہیں کر سکتا اس میں یہ تمام غیر ملکی بھلا کیوں دلچسپی لیں گے۔ کراچی کی ایک تقریب میں برطانیہ کے شعلہ بیان سیاست دان جارج گیلووے کے ساتھ ٹاملنسن نے پاکستانی حکام اور انٹیلی جنس پر زور دیا کہ کشمیر پر اپنا بیانیہ ان علاقوں میں پھیلائیں جن میں مغربی دنیا زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ وہ کون سے ایشوز ہیں‘ جو ایک غیر ملکی کے لیے دلچسپی کا مرکز بن سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول کی تبدیلی، جوہری ہتھیاروں سمیت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی اور ان سے جڑے ہوئے خطرات، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور منظم نقل مکانی کے ذریعے مقامی کمیونٹی کے لیے آبادی میں عدم توازن کا خطرہ نمایاں ہیں۔
یہ تمام موضوعات اور کشمیر کے قضیے کے توانا سٹریٹیجک خطرات (جوہری ہتھیار) مل کر میڈیا اور پارلیمنٹ کے ارکان (بشمول یورپ) کے لیے پسندیدہ خوراک تیار کرتے ہیں اور یوں پاکستان کے لیے انہی کی سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق کھیلنے کا اچھا موقع ہے۔ ان کے تناظر میں پاکستان جموں و کشمیر میں آبادی کے عدم توازن اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ پورے زور و شور سے اٹھا سکتا ہے۔
جارج گیلووے نے کہا کہ جب تک ہم ممکنہ نتائج پر پوری توجہ مرکوز نہیں کریں گے اور جب تک اس بات پر دھیان نہیں دیں گے کہ جن غیر ملکیوں کا کشمیر کے قضیے سے براہ راست کوئی بھی تعلق نہیں‘ ان کی توجہ کیسے پائی جائے تب تک ہم کشمیریوں کو جنوبی ایشیا سے باہر سنے جانے کے حوالے سے کسی بھی طرح کی مدد کرنے سے قاصر رہیں گے۔ چیلنج یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے لوگوں کو کس طور کشمیر کے انسانی بحران کے بارے میں سننے اور اس طرف متوجہ ہونے پر مائل کیا جائے‘ جہاں کم و بیش چار ماہ سے کرفیو جاری ہے اور جہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
بالکل ٹھیک۔ پاکستان نے برسوں بلکہ عشروں تک کشمیر‘ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا مگر یہ سب کچھ ان سنا کر دیا گیا‘ کیونکہ دنیا یہ سمجھتی تھی کہ یہ پاکستان اور معاشی طور پر تیزی سے مضبوط ہوتے ہوئے بھارت کے درمیان زمین کی ملکیت اور حدود کی قسم کا کوئی قضیہ ہے۔ بھارت چونکہ بڑی طاقتوں کے لیے معاشی اعتبار سے ایک مقناطیس کی سی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہاں انہیں اپنی پروڈکٹس کے لیے ایک بڑی مارکیٹ نظر آتی ہے‘ اس لیے پاکستان کی بات نہ سنی گئی۔ صرف ایک اقدام کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو پاکستان سے چھین کر عالمی برادری اور میڈیا کے سامنے رکھ دیا۔ اس حقیقت سے اب سبھی واقف اور آگاہ ہو چکے ہیں کہ 5 اگست 2019 کے روز بھارتی وزیر اعظم نے بھارتی آئین کی دو شقوں کو معطل کر کے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور وہاں کرفیو نافذ کر دیا تھا جو ایک سو بارہ دنوں سے مسلسل جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے اور جبر نے پریس کو بھی مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ یومیہ اخبارات اور ہفت روزہ و ماہانہ جرائد کی شکل میں 170 مطبوعات کا گلا ایک طرح سے مکمل طور پر گھونٹ دیا گیا ہے۔ وہاں چار ماہ سے مکمل انفارمیشن بلیک آؤٹ کی کیفیت برقرار ہے۔ انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس مکمل طور پر بند ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر کٹا ہوا ہے۔ امریکا، یورپ اور چین کے بہت سے بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس نے بے مثال کوریج یقینی بنائی ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہری آزادیوں کے کچلے جانے سے شہریوں پر مرتب ہونے والے شدید اثرات کو موثر طور پر پیش کیا ہے۔
5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر کی صورت حال یعنی بھارتی مظالم کے حوالے سے ہزاروں مضامین، فیچرز، ٹی وی نیوز سٹوریز اور دستاویزی فلمیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ان سب نے مل کر عالمی برادری کے ضمیر کو کسی حد تک جگایا بھی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کرکے ایک طرف تو کشمیریوں کے لیے مزید اذیت کا سامان کیا ہے اور دوسری طرف لاک ڈاؤن کے ذریعے بڑے انسانی المیے کو پیدا کر کے دنیا بھر کے لوگوں کو کشمیریوں کے حال زار کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔
جارج گیلووے اور ٹاملنسن کا کہنا ہے کہ اب بہت کچھ ہے جو خود کشمیریوں کو کرنا ہے۔ امریکا، یورپ اور دیگر خطوں میں آباد کشمیری اس حوالے سے کلیدی، بلکہ شاہ کلید کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جارج گیلووے نے کہا کہ اگر برطانیہ میں مقیم کشمیری کھل کر بات کریں تو برطانوی پارلیمنٹ پر ہی اثر انداز نہیں ہو سکتے بلکہ بھارت سے متعلق برطانوی پالیسیوں میں مطلوب تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کشمیریوں کو یہ لڑائی اب یورپ کے ہیڈ کوارٹرز برسلز، لندن، برلن، واشنگٹن، پیرس اور دیگر انتہائی با اثر مقامات تک لے جانی چاہیے۔ کسی بھی طاقتور دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے، دھرنا دینے سے کشمیریوں کو بھلا کون روک سکتا ہے، بالخصوص انہیں جو 5 اگست 2019 کے روز کیے جانے والے کلیمپ ڈاؤن اور دیگر اقدامات سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ بڑے سٹیک ہولڈرز اور میڈیا کو آگے بڑھ کر کشمیریوں کو اپنی کہانی بھرپور انداز سے بیان کرنے میں مدد دینی چاہیے۔ کشمیریوں کی بھرپور مدد کرنے کا اہم طریقہ یہ ہے کہ اس قضیے کو راڈار پر رکھا جائے، نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لانے کے حوالے سے میڈیا کو بلا واسطہ اور بالواسطہ طور پر اہم کردار ادا کرنا ہے۔
لندن میں قائم جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کونسل کے صدر ڈاکٹر نذیر گیلانی کہتے ہیں کہ آئیے ہم مل کر کشمیری میڈیا اور دانشوروں کو بات ڈھنگ سے اور پوری طرح بیان کرنے کے فن میں طاق کرنے کی کوشش کریں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے (کسی مسلم ملک میں بھی) خود کو کشمیریوں سے کیے جانے والے سلوک، مین سٹریم کشمیری رہنماؤں سے روا رکھی جانے والی بدسلوکی، مواصلات کی بندش اور غیر جانب دار مبصرین کی کشمیر تک رسائی کے فقدان تک محدود رکھا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو کیوں شور مچاتے رہنے چاہیے، بالخصوص سیمینارز اور میڈیا کے ذریعے اندرونی سطح پر جبکہ اب تک بیشتر نے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان زمین کے جھگڑے کی شکل میں دیکھا ہے؟ کوئی بھی کشمیر میں 5 اگست سے پہلے کی صورت حال بحال کرنے کا مطالبہ کر کے بھارت کو ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت کا غیر معمولی اثر امریکی کانگریس کی 14 نومبر کی سماعت سے بھی ظاہر ہے‘ جب 84 پینلسٹ میں سے صرف 4 ایوان میں حاضر ہوئے تھے۔ ان میں بھی صرف ایک ری پبلکن (کرسٹوفر ایچ اسمتھ) تھا جو اتفاق سے شریک چیئرمین بھی ہے۔
جارج گیلووے کہتے ہیں کہ کوئی بھی مودی کی محبت کے دائرے سے باہر نہیں جانا چاہتا۔ غیر معمولی تجارتی و مالیاتی مفادات طاقتور مغربی اور چند مسلم حکومتوں کو بھی بی جے پی کی حکومت کے ہاتھوں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے سنگین مظالم کی مذمت سے مجتنب رکھتے ہیں۔ فائیو سٹار سیمینارز کی فنڈنگ کے ذریعے وسائل ضائع کرنے کے بجائے پاکستان اپنے سیاسی اور مالیاتی سرمائے کو بیرون ملک متاثرہ کشمیریوں کی مدد کے لیے استعمال کر کے زیادہ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں