"IGC" (space) message & send to 7575

گوادر‘ سکیورٹی اور جامع ترقی

گوادر ائیرپورٹ سے لے کر بندرگاہ کے علاقے میں بنی سکیورٹی چیک پوسٹوں تک کے نصف کلومیٹر کے سفر میں دلچسپی کا کوئی عنصر موجود نہیں۔یہ فاصلہ تنگ سی سڑک پر براستہ پرانا شہر طے کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے میں آنے والے مسافر کو دس کلومیٹر کے اس فاصلے میں جو چیز سب سے پہلے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہ اس کا تنگ داخلی و خارجی راستہ ہے۔ سامنے سے کوئی گاڑی آ رہی ہو تو آپ کو گاڑی کچے راستے پر اتارنا پڑتی ہے۔ یہ انتظامی کار گزاری کی ایک ملول کر دینے والی مثال ہے۔ ائیرپورٹ گیٹ کے قریب اور اس کے آس پاس موجود دو درجن کے قریب اسلحہ بردار سپاہی اور اُن کی گاڑیاں بھی فوراً توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ فورسز کی ایسی نمایاں اور بھرپور موجودگی اُن غیر ملکیوں کیلئے غیر معمولی چیز ہے جنہیں ایسے مناظر کی عادت نہیں‘ لیکن ماضی قریب میں ہم نے بحیثیت قوم جس صورتحال کا سامنا کیا‘ اس کے تحت ایسے انتظامات ضروری بھی ہیں۔ 
تیسری بات یہ کہ اگرچہ مشرقی ساحل (پیڈیزار) والی سڑک پچانوے فیصد دو رویہ ہو چکی ہے لیکن بظاہر مقامی آبادی‘ جو زیادہ تر ماہی گیروں پر مشتمل ہے‘ کی عدم مشاورت اور حکام سے ان کے اختلافات کے باعث ساحل تک سڑک کی تعمیر کا کام رُکا ہوا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ ساحلی علاقے سے پہلے آنے والی چیک پوسٹوں پر ہونے والے سوال و جواب سے بعض اوقات نہ صرف پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے بلکہ مقامی لوگ بھی زِچ ہو جاتے ہیں‘ لیکن پھر وہی بات کہ حالات ایسے سکیورٹی انتظامات کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے اکثر اشخاص ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جو کوہِ باطل کے دامن میں موجود واحد ہوٹل کی جانب سے مہیا کی جاتی ہیں۔یہ سب مصائب خصوصی طور پر اُس شخص کے لیے دوچند ہو جاتے ہیں جو دوسری بار گوادرآیا ہو۔ گوادر‘ ایک ایسا شہر جس کا چرچا نہ صرف چین و پاکستان کے طول و عرض میں ہے بلکہ دیگر جگہوں پر بھی اس کا تذکرہ عام ہے اور جسے چین پاکستان اکنامک کوریڈور منصوبے (سی پیک) کے ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے۔ میں اکتوبر 2016ء کے بعد فروری 2020ء میں دوسری بار یہاں آیا تو مندرجہ بالا حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی، کم از کم مجھے تو نظر نہیں آئی۔ 
یہی وہ حالات ہیں جو عموماً مقامی آبادی کو کوفت میں مُبتلا کرتے ہیں اور غالباً اکثر و بیشتر اسی سبب سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ مثلاً اشرف حسین ایک مقامی سیاست دان ہیں اور زمینوں کے کاروبار میں ایک بڑا نام سمجھے جاتے ہیں‘ کیونکہ یہاں ان کے خاندان کی آبائی زمین کافی زیادہ ہے۔ وہ عموماً کوہِ باطل پر موجود پی سی ہوٹل آنے سے اس لیے گُریز کرتے ہیں کہ انہیں سوال و جواب کے عمل سے نہ گزرنا پڑے۔ باہر والوں، خصوصاً سرمایہ کاروں اور کاروباری اشخاص‘ کیلئے گوادر کا نام جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اس جگہ کا تصور یہ ہے کہ یہاں مہمانوں اور سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کیے گئے حفاظتی انتظامات ان کے اس جوش و جذبے پر اوس ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔ ادھیڑ عمر اشرف حسین نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ طویل عرصے سے مقامی باشندہ ہونے کے باوجود ہم بھی جب گھر سے نکلتے ہیں تو ہر بار ہمیں اپنی شناخت کرانا پڑتی ہے۔
پرانا شہر بذات خود بہت گندہ منظر پیش کرتا ہے۔ گرد و غبار سے بھری گلیوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور ان پر مستزاد سیوریج کے گندے پانی سے اٹھتی ہوئی بد بو۔ پینے کا پانی اور بجلی کی فراہمی گوادر کے مقامی لوگوں کیلئے نہایت بڑا مسئلہ ہیں۔ مقامی آبادی کی تعداد تقریباً اسّی ہزار ہے اور سبھی اس مسئلے سے نبرد آزما ہو رہے ہیں۔ بندرگاہ سے متصل چینیوں کا بنایا ہوا نیا میٹرنٹی کیئر سنٹر ابھی تک فعال نہیں ہو سکا‘ حالانکہ چند ہفتے قبل اس کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔
گوادر، جیوانی، پسنی، اورمارہ، خاران اور کوئٹہ سے آنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پچاس کے قریب افراد سے ہونے والے ایک مکالمے کے دوران ترقیاتی کاموں کی سست روی اور فیصلہ سازی میں مقامی افراد کی عدم شمولیت سے پیدا ہونے والی مایوسی اُبھر کر سامنے آتی رہی۔ ایک مقامی کاروباری، فدا حسین دشتی نے پوچھا ''اگر آپ مقامیوں کو بنیادی کاروبار سے ہی نکال باہر کریں گے تو بندرگاہ سے متعلق کاروبار کے بارے میں ان لوگوں میں سماجی تحفظ و ملکیت کا احساس کس طرح پیدا کریں گے؟‘‘ انہوں نے مختلف منصوبوں کی کوالٹی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا خصوصاً کوسٹل ہائی وے اور ایم 8- پر، یہاں اکثر سفر کرنے والوں کے بقول سڑک پر تعمیر کیے جانے والے پُل چند ماہ بعد ہی ناقابل استعمال ہو چکے ہیں۔ ایک نوجوان بلوچ ماہی گیر نے سوال پوچھا کہ ایسا مبہم ماحول ہو تو کاروبار کیسے فروغ پا سکتا ہے؟
مقامی حکام کا دعویٰ ہے کہ تین سو بستر کے ہسپتال اور گوادر ووکیشنل ٹریننگ سنٹر پر کام شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ ایسٹ بے ایکسپریس وے پر مقامی ماہی گیروں کی رسائی کے لیے تین انٹری پوائنٹ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، پانی و سیوریج کے منصوبے بھی شروع کیے جا چکے ہیں۔ گوادر سمارٹ ساحلی شہر کے لیے ماسٹر پلان اور اولڈ سٹی ماسٹر پلان پر نظر ثانی کا کام بھی شروع ہو چکا ہے‘ جس کے بعد امید ہے کہ شہر میں پانی، بجلی اور سیوریج کے نظام میں بہتری آئے گی۔
ان تمام دعووں کو رد کرنے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں؛ تاہم اخراجی نوعیت کی یہ منصوبہ بندی و فیصلہ سازی پہلے ہی بہت سے سوالوں کو جنم دے چکی ہے۔ اس مکالمے میں شریک لوگوں نے، جن میں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد مالک بلوچ بھی شامل تھے، مطالبہ کیا کہ وفاقی و بلوچستان کی صوبائی حکومتیں چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے تمام منصوبوں میں مقامی برادریوں کو نمائندگی دیں۔ ان کے مفادات اور ان کی شناخت کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ معاشی طور پر مضبوط اور سماجی طور پر قابل قبول ترقی ممکن ہو سکے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے سوال اُٹھایا ''جب مقامی صوبائی اداروں میں مقامی افراد کے لیے نوکریوں کی تعداد کم ترین سطح پر ہو گی تو آپ کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے اندر اس کے خلاف مزاحمت جنم نہ لے گی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کے لیے خاص طور پر اور بلوچوں کے لیے بالعموم سارے صوبے میں نوکریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ 
ایک بڑھتا ہوا خوف یہ ہے کہ باہر سے آنے والے (تاجر، ماہی گیر، ٹھیکے دار، ٹرانسپورٹر وغیرہ) معاملات کو اپنے قبضے میں لے لیں گے جبکہ مقامی برادریوں کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ مقامی لوگوں کا ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ اکثر ٹھیکے بتدریج ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو دیے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کچھ بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے احساسات و تحفظات کا پیدا ہونا سی پیک منصوبوں کی آسانی سے تکمیل کے لیے نیک شگون نہیں۔ ان کے سبب حکومت کا کام مشکل ہو جائے گا۔ ان لوگوں کے بقول مجروح انائوں پر مرہم رکھنے، اعتماد کی بحالی اور قومیت پرست جنگجوئوں کو بے اثر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام ترقیاتی و انتظامی ڈھانچوں میں مقامی برادریوں کی شمولیت اور احساسِ ملکیت کو فروغ دیا جائے۔ تو کیا توقع رکھی جائے کہ مرکزی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت اور گوادر کی مقامی انتظامیہ ان معاملات کی طرف مناسب توجہ مبذول کریں گی تاکہ پاکستان کی اس دوسری بڑی بندرگاہ پر ترقیاتی اور کاروباری سرگرمیوں کو مہمیز مل سکے؟ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں‘ ان میں سکیورٹی انتظامات کی اہمیت‘ افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بہتر ہوتا اگر اس طرح کے حساس علاقوں میں آرمڈ فورسز تعینات کرنے کے بجائے سکیورٹی کے سمارٹ طریقے استعمال کیے جائیں‘ جیسے خفیہ کمروں کے ذریعے بند کمرے میں مانیٹرنگ اور ڈرونز کے ذریعے فضائی نگرانی وغیرہ۔ اس سے مقامی آبادی کے تحفظات اور دوسرے ممالک سے آنے والوں کو درپیش دشواریوں کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں