"IGC" (space) message & send to 7575

افغانستان ،بہتر مستقبل کیلئے ماضی کو فراموش کر دو

دہائیوں بعد تو نہ سہی‘ برسوں بعد ہی اسلام آباد سے ایک غیر مبہم بیان کی گونج سنائی دی ہے؛ ایک خود مختار‘ جمہوری‘ متحد‘ مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کی خواہش۔ وزیر اعظم ہائوس سے لے کر جی ایچ کیو تک‘تمام کلیدی حصہ دار افغانستان سے تشریف لانے والے مہمانوں کو بتایا جا رہا ہے اور ان سے ہٹ کر میڈیا کے ذریعے ملک کی افغان پالیسی کے اس بنیادی جزو کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ اس لازمی امر کے بارے میں اب کوئی ابہام نہیں دکھائی دیتا کہ جغرافیائی‘ سماجی اور لسانی ہمسائیگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم افغانستان کے لیے بھی وہی کچھ پسند کریں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
افغانوں اور غیر ملکی معززین کے لیے ‘ جو پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں ابھی بھی شبہات رکھتے ہیں‘ پیغام یہ ہے کہ اس پالیسی کے برعکس سوچنا بھی غیر حقیقت پسندانہ ہو گا۔
افغانستان کے متعلق پاکستان کے حالیہ بیانیے سے افغان قیادت بالخصوص اور عوام بالعموم بڑی آسانی سے کچھ مضبوط اور سادہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ہم ایک خود مختار‘ جمہوری‘ متحد‘ مستحکم اور ترقی یافتہ افغانستان کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ افغانستان میں پاکستان کا پسندیدہ صرف اور صرف افغان عوام کا مفاد ہے‘ کیونکہ عوام سے عوام کا ربط اور ان کا فروغ ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا بنیادی پتھر ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ کابل میں حکمران کون ہے‘ہم افغان عوام اور ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔سرحد کے دونوں جانب افرادکے ذاتی مفادات کو نظر انداز کر کے کیوں نہ ہم اُس معاشی اور تجارتی تعاون کو مدنظر رکھیں جو دونوں ملکوں کے مابین تعاون کے لیے کہیں زیادہ مضبوط ضمانت بن سکتا ہے۔ مضبوط تجارتی روابط پائیدار اور تعمیری تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کے لیے بھی اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہے ۔ یہ مذاکرات تمام کلیدی حصہ داروں کے لیے ایک تاریخی موقع ہیں کہ وہ موجودہ گنجلک صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک جامع اورداخلی لائحہ عمل تیار کر سکیں۔افغانوں کو بتا دیا گیا ہے کہ ہمارے بس میں جو کچھ ہوا وہ ضرور کریں گے‘ لیکن چونکہ پاکستان خود بھی بہت سے گنجلک اور پیچیدہ قسم کے معاملات میں پھنسا ہوا ہے‘ اس لیے افغان عوام اور حکام کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوجانا چاہیے کہ ہمارے پاس صلاحیتوں کا فقدان ہے یا افغانستان میں امن و ترقی کے عمل کے بارے میں ہماری نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔امن عمل کو تہہ و بالا کرنے کی خواہشمند تمام قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں یکجان ہونا پڑے گا۔ یہ افغانستان پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ کون سی قوتیں/ممالک ہیں جو دوستوں کے بھیس میں اس سارے عمل کو نیست و نابود کرنے کی خواہاں ہیں۔ افغانوں کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ قلیل مدتی فائدے کی بجائے طویل مدتی فوائد کی حامل دوستی کے لیے وہ ملک'' اے‘‘ یا'' بی‘‘ میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں؟
جب افغان حصہ دار اپنے مسائل کے حل کے لیے باہمی مذاکرات میں مصروف ہوں گے تو پاکستان اس حوالے سے جو بھی مدد فراہم کر سکے گا ضرور کرے گا۔
عالمی قوتوں کو بھی نہ صرف مفاہمتی عمل کی کامیابی میں مثبت حصہ ڈالنا چاہیے بلکہ افغانستان کے ان مسائل کے حل کے لیے کاوشیں بھی کرنی چاہئیں جن کا سامنا ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان کو ہو گا۔یہ بات اس تناظر میں کہی جا رہی ہے کہ فروری 1989ء میں افغانستان سے روسی انخلا کے بعد امریکہ/مغرب نے افغانستان کی جانب سے بالکل ہی منہ موڑ لیا تھا اور اس بے رُخی کے نتائج بہت بھیانک نکلے تھے۔
افغان مسائل کے لیے صرف خارجی عوامل پر ذمہ داری ڈال دینے سے بات نہیں بنے گی‘ نہ ہی پاکستان کو اس سارے عمل سے بیک بینی و دوگوش باہر کر دینا مسئلے کے حل میں مدد گار ثابت ہوگا۔ خصوصاً اس صورتحال کے تناظر میں کہ خود امریکہ‘ روس‘ چین‘ ترکی اور ایران جیسے ممالک بھی افغان طالبان کو امن عمل میں ایک جائز حصہ دار کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔ اور اس سے بھی کہیں اہم بات یہ ہے کہ ایک مستحکم‘ پر امن اور ترقی پذیر افغانستان ان تمام ممالک کے اپنے مفاد میں ہے۔ غیر ریاستی عناصر کے لیے حمایت کے بارے میں طعنہ زنی اب ختم ہو جانی چاہیے‘ خصوصاً جب خطے کے کلیدی ممالک اور خود امریکہ بہادر نے افغان طالبان سے معاہدہ کر کے انہیں افغانستان میں جائز شراکت دار کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ 
پاکستان اس بات کا شدت سے متمنی ہے کہ انتہائی عرق ریزی کے بعدعمدگی سے تیار ہونے والے''افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی‘‘ (APAPPS) پر دوبارہ عملدرآمد شروع ہو اور اس بات کے امکانات بہت روشن ہیں کہ کابل میں اقتدار کی لڑائی کا فیصلہ ہونے کے بعد اس پر دوبارہ عملدرآمد کا آغاز ہو سکے گا۔اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہیں گے کہ ہمارے افغان دوست پاکستان کے بارے میں اپنے بیانیے پر نظر ثانی کریں...ویسے بھی اب اس بیانیے میں کوئی جان تو رہی نہیں‘ کیونکہ پاکستان خود اپنی غلطیوں اور جیو پولیٹیکل تنازعات کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور اصل بات تو یہ بھی ہے کہ ان مسائل کی جڑیں بڑی حد تک خود افغانستان میں ہی پوشیدہ ہیں۔ 
پاکستان نے کابل سے آنے والے منفی بیانات کے ایک پورے سلسلے کے باوجود اور ان میں خود افغان صدر اشرف غنی کے بیانات بھی شامل ہیں‘ حتیٰ کہ 29فروری کو دوحہ امن معاہدے پر دستخط سے ایک دن پہلے بھی ان کی جانب سے ایسا ہی ایک بیان سامنے آیا تھا...بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے‘ کیونکہ یہ ماضی کو جواز بنا کر الزام تراشیوں کی بجائے مثبت طریقے سے ساتھ مل کر چلنے پر یقین رکھتا ہے۔پاکستان توقع رکھتا ہے کہ افغان رہنما اپنے مخالفانہ بیانیے میں نرمی پیدا کریں گے‘ تاکہ مثبت شراکت داری کے لیے جگہ پیدا ہو اور سرحد کے دونوں جانب کروڑوں لوگوں کو متاثر کرنے والے مسائل کو مثبت انداز میں مل جل کر حل کرنے کے لیے کاوشیں کی جا سکیں۔
ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر آپ بہتر حال یا اچھے مستقبل کے لیے راہ نہیں تلاش کر سکتے۔ ماضی کی قیل و قال میں الجھے رہنے سے صرف وقت‘ زندگی اور وسائل کا ضیاع ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ بھٹکنے کے علاوہ کچھ اور نہیں نکل سکتا۔ آئیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کورونا وائرس‘ سرحد کے دونوں اطراف ہونے والے جرائم‘ غربت اور فطرت کی تباہ کاریوں جیسے ان چیلنجز کا مقابلہ کریں‘ جن کا سامنا دونوں ممالک کو ہے۔
ان سب پیغامات کا نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان اور اس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اگر آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بہر صورت پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ توازن قائم کرنا ہوگا‘اور اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ تمام خود مختار ممالک کے ساتھ حقیقت پسندانہ متوازن تعلقات دونوں ملکوں کے باہمی مفاد میں ہیں۔
پاکستان اور اس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اگر آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بہر صورت پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ توازن قائم کرنا ہوگااور اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ تمام خود مختار ممالک کے ساتھ حقیقت پسندانہ متوازن تعلقات ناگزیر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں