"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان… مافیا کے رحم و کرم پر

چینی، گندم بحران کے بارے میں ایف آئی اے کی رپورٹ اپنے جلو میں کوئی تحیر انگیز شے لے کر نہیں آئی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ایک بار پھر مرکزی دھارے کی تینوں جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی طرف انگشت نمائی کی گئی ہے۔ 
الزام تراشی کا یہ انداز مفاد پرستوں کے لیے بہت ہی ساز گار ہے مثلاً چینی پیدا کرنے والوں کیلئے رپورٹ کا یہ انداز یوں فائدہ مند ہے کہ اس کی وجہ سے وہ بڑی آسانی سے اپنے اس جال کو چھپا سکتے ہیں‘ جس کی بدولت وہ بڑی مہارت سے اپنا گٹھ جوڑ چلاتے ہیں‘ اور گٹھ جوڑ بھی وہ جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مل مالکان کی سیاسی وابستگی کسی صورت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح، اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں تو یہ چیز عام ہے، بہت سے مافیا ہی پاکستان کے حقیقی حکمران محسوس ہوتے ہیں۔ چینی، سیمنٹ، دوا سازی، گندم، آٹو موبائل، کپڑا، پٹرولیم مصنوعات، کھاد، بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں اور پولٹری کی صنعت میں موجود مالکان کے گٹھ جوڑ ہمارے ہاں موجود نادیدہ حکمران قوتوں کی جستہ جستہ مثالیں ہیں۔
یہ دو طرح سے عوام کا خون چوستے ہیں... براہ راست سبسڈی لے کر اور پھر اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کر کے۔ اس کام کے لیے یہ لوگ حکومت وقت میں موجود اپنے بالواسطہ اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہیں جبکہ بلا واسطہ سیاسی اثر و رسوخ کی مثالیں بھی حکومتی عہدے داروں پر ایک نظر ڈالنے سے مل جائیں گی۔ 
جب ان مافیائوں کا بیوروکریسی سے ٹکرائو ہوتا ہے تو (جیسے خوراک و زراعت کی وزارت یا وزارت خزانہ میں بیٹھے بابوئوں کے ساتھ) تو اس کے لیے بڑے کاروباری عموماً براہ راست معاملہ طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ ان وزارتوں میں موجود فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے لوگوں پر اثر انداز ہو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔
اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے ان گروہوں کے پاس سب سے موثر ہتھیار ایس آر او (Statutory Regulatory Order) کا ہے۔ انڈس کنسورشیم کے لیے ان ایس آر اوز کے ہاتھوں ملک کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں کی جانے والی کھوج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان (مستثنیات و ٹیکس کی مد میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کی صورت میں) کی وجہ سے ملک کو گزشتہ چار دہائیوں میں ایک سو ٹریلین روپوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ 
دو ہزار تیرہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ جب تقریباً دو درجن کے قریب ایس آر اوز نافذ کیے گئے تھے اور ان کا مقصد سویلین و غیر سویلین ملکیت والی مختلف نوع کی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ ڈاکٹر اکرام الحق اس حوالے سے مستقلاً اپنے کالموں میں دہائی دیتے رہے کہ کس طرح اشرافیہ عوام الناس کو چونا لگانے کے لیے ان ایس آر اوز کو اپنا اوزار بنا کر استعمال کر رہی ہے۔
چینی کی ایکسپورٹ لیکن کس لاگت پر؟
گزشتہ تین دہائیوں سے چینی جیسی مصنوعات کی ایکسپورٹ کی رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قیمتوں میں ہونے والے اضافے اور اس مد میں مختلف حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی سے فائدہ نہ صرف وہ مل مالکان اٹھاتے ہیں جو حکومت وقت یا اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے سرپرستوں کے نزدیک خیال کیے جاتے ہیں‘ بلکہ اکثر اوقات یہ فائدہ بنا کسی سیاسی قربت کے بھی ان لوگوں تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ جہانگیر ترین صاحب کا خاندان (چھ شوگر ملیں) اور خسرو بختیار صاحب کا خاندان (چار شوگر ملیں) دونوں مل کر 2015-2018 کے دوران سبسڈی کی مد میں دی جانے والی رقم کا انتیس فیصد حاصل کر چکے ہیں (تقریباً سات ارب روپے) اب آپ پر یہ حقیقت بالکل کھل چکی ہو گی کہ ایسے افراد اتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صوبے یا مرکز میں کس جماعت کی حکومت ہے۔ انہیں تو اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے جو ان تک بہر صورت پہنچ ہی جاتا ہے۔
یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں ہے کہ شریف خاندان کے دور اقتدار میں (2014-2018) چینی کی مد میں دی جانے والی پچیس ارب روپے کی سبسڈی کا تقریباً چھ فیصد حصہ حکمران خاندان نے اپنی جیب میں ڈالا تھا۔ مندرجہ بالا خاندان ہی چینی کے حالیہ بحران میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے خاندان ہیں۔ حالیہ دور میں چینی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی کا چھپن فیصد حصہ ان لوگوں کی جیبوں میں چلا گیا۔ 
1999 میں، نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں، چینی کی ایکسپورٹ پر پانچ ہزار روپے فی ٹن کے حساب سے ری بیٹ دی جاتی تھی۔ ایک بار میں نے اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے، اس حوالے سے پوچھنے کی جسارت کر لی کہ نصف ملین ٹن چینی کی مد میں دی جانے والی یہ بھاری ری بیٹ حاصل کرنے والے مل مالکان کے نام تو بتا دیں... اس پر موصوف بہت چراغ پا ہوئے۔ 
''کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے یہ ری بیٹ اپنی شوگر ملوں کو دی ہے؟‘‘ انہوں نے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا تھا۔
اس ملک میں یکے بعد دیگرے وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے والے لوگ چینی، گندم، تیل، خوردنی تیل خصوصی اجازت نامے کے ذریعے افغانستان بھجوانے کی منظوری دے کر بھی اپنی جیبیں بھرتے رہے ہیں۔
2008-2009 کے دوران جاری کیے جانے والے چینی کے ایسے پرمٹ کے ذریعے ہی تقریباً پچاس ملین روپے کا خالص منافع حاصل کیا گیا تھا۔
اب آپ کے لیے یہ اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہ ہو گا کہ ان برسوں میں ایسے ہی خصوصی پرمٹوں کے ذریعے کتنی دولت سمیٹی جا چکی ہو گی۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ہماری معاشی نگرانی کا عمل تو ہمارے لیے کسی حد تک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے کہ اس کی بدولت یہ بے یار و مددگار ملک جہاں سیاست دانوں، بیوروکریٹوں، صنعت کاروں کا گٹھ جوڑ اس کی رگوں سے خون نچوڑ رہا تھا‘ وہاں اس نگرانی کی وجہ سے اس کے وسائل کی اندھی لوٹ مار میں کچھ کمی تو دیکھنے میں آ رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیوروکریسی اور چینی پیدا کرنے والوں کا گٹھ جوڑ چینی کی امپورٹ پر بیالیس فیصد ڈیوٹی پر اصرار کیوں کرتا ہے‘ حالانکہ یہ امپورٹڈ چینی ہمیں سستی دستیاب ہو سکتی ہے؟ اس کی شاید دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی وجہ سے اس مافیا کی اس پیداوار پر اجارہ داری ختم ہو جائے گی‘ اور دوسرا‘ اس کے نام پر دی جانے والے سبسڈی کی رقم (جو ایکسپورٹ اور مقامی سطح پر دی جاتی ہے) سے اسے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
پانی و بجلی کے ماہر ارشد عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان چینی کی صنعت کو جو بھاری سبسڈی دیتی ہے تو اس طرح سے وہ در حقیقت ملک کے پانی کے وسائل کے بری طرح سے استحصال کا سبب بنتی ہے۔ 
عباسی کا کہنا ہے ''چینی ایکسپورٹ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ پانی ایکسپورٹ کر رہے ہیں‘ اور انڈیا سے لڑتے ہوئے ایک دن ایسا آئے گا جب یہی چیز ہمارے گلے کا پھندہ بن جائے گی‘‘۔
لیکن سسٹم کو توڑنے موڑنے والوں کی قوت... گٹھ جوڑ، ایس آر اوز اور خصوصی پرمٹ... ایف اے ٹی ایف کے ایکشن یا وزیر اعظم عمران خان کے اس عزم سے زیادہ طاقتور ہیں کہ وہ ان مافیائوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ خان صاحب کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانے میں سٹیٹس کو سے فائدہ اٹھانے والے کچھ لوگوں کا ہاتھ بھی شامل تھا۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک اپنا مفاد پاکستانی عوام کے مفادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں