"IGC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم/ سپہ سالار کے نام کھلا خط

پاکستان کو اس وقت متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ان میں سے اکثر داخلی ہیں۔ ملکی نظام کو گھن کی طرح چاٹنے والے کئی ادارے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مقصد ہی کاروبار اور کارپوریٹ سیکٹر کو اوندھا کر دینا، ایماندار کاروباری اشخاص کو رُسوا کرنا اور قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کرنے والی پالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کوخوفزدہ کرنا ہے۔ ایسے ماحول میں کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ مال بردار بحری جہازوں والی کمپنیاں ایک کے بعد ایک اس ملک کو خدا حافظ کہتی جا رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیاں اور سرمایہ کار پاکستان سے دور رہنے میں ہی عافیت خیال کرتے ہیں۔ کوئی بڑی یورپی کمپنی کسی قابل ذکر بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان آنے کی طرف مائل نہیں دکھائی دیتی۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا نصف سے زیادہ کاروبار پہلے ہی یا تو ایران کی چاہ بہار بندرگاہ منتقل ہو چکا ہے یا اس کی تیاری ہو رہی ہے۔ دو ہزار گیارہ میں جس باہمی تجارت کا حجم دو اعشاریہ سات بلین امریکی ڈالر تھا وہ دو ہزار انیس میں گرتا گرتا تقریباً ایک بلین ڈالر کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ افغان ٹرانزٹ کے تحت آنے والے تقریباً ایک لاکھ کنٹینر کم ہو گئے ہیں اور اس کا سبب اچانک سامنے آجانے والے نت نئے ضوابط ہیں۔ اس کی ایک مثال 7 اپریل 2020 کو جاری ہونے والا ایک نوٹیفکیشن ہے‘ جس کے مطابق کراچی میں کسٹم حکام کوکہا گیا کہ وہ تمام افغان ٹرانزٹ کارگوکو سکین کریں... حالانکہ معاہدے کے مطابق بے قاعدہ ترتیب کے تحت ان میں سے بیس فیصد کنٹینر سکین کیے جانے تھے۔ یہ نوٹیفکیشن افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے (اے پی ٹی ٹی اے) کی روح کے خلاف ہے۔ اگرچہ ابھی اس معاہدے کا فریقین نے دوبارہ جائزہ لینا ہے‘ اس کے باوجود کراچی کی بندرگاہ سے افغان امپورٹ جاری رہنے کا مطلب یہی ہے کہ ریاست پاکستان اب بھی اس قابل ہے کہ وہ بندرگاہوں سے محروم افغانستان کو یہ سہولت مہیا کر سکے کہ وہ اپنی بیرونی تجارت کیلئے اس کی بندرگاہیں استعمال کرتا رہے۔ اب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے آنے والے سامان کی کلیئرنس کا مرحلہ وار طریقہ کار دیکھیے:
سامان کی بندرگاہ آمد
انسپکشن/ کسٹم کی طرف سے اس کا تخمینہ
انشورنس (کہ سامان کو جان بوجھ کر غائب نہیں کیا جائے گا)
جی پی ایس ٹریکر لگانا
منزل مقصود تک روانگی کیلئے بندرگاہ سے اخراج
لیکن اصل کہانی کا آغاز تو ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ کراچی سے طورخم کے راستے میں ان کنٹینرز کو سکھر، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور پشاور میں کسٹم چیک پوسٹ پر رپورٹ کیلئے رُکنا پڑتا ہے۔ یہاں ٹرک ڈرائیوروں کا سامنا کسٹمز اور پرائیویٹ پارکنگ ایریا کے نجی ٹھیکیداروں کی کارگزاریوں سے ہوتا ہے۔ 7 اپریل کے نوٹیفکیشن کے نتیجے میں کراچی کی بندرگاہ پر ٹرانزٹ ٹریڈ کے سات ہزار سے زائد کنٹینر جمع ہو چکے تھے۔ تادم تحریر کراچی و بن قاسم بندرگاہوں میں پانچ ہزار کنٹینر دو بڑی وجوہ کی بنا پر رُکے ہوئے ہیں؛ پہلی وجہ پاکستان کسٹم ہے۔کاغذوں پر تو افغان کارگو کی کلیئرنس دو سو کنٹینر فی دن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کلیئر ہونے والے کنٹینروں کی تعداد ایک سو پچاس سے بھی کم ہوتی ہے اور یہ تعداد بندرگاہ کے چار مختلف سہولیاتی مراکز کی مجموعی تعداد ہے۔
دوسرا، تمام افغان کارگو کنٹینروں پر ایک ٹریکر ڈیوائس لگائی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کنٹینر سرحد پار کرے۔ صرف انہی کنٹینروں کو بندرگاہ سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے جن پر یہ ڈیوائس لگ جاتی ہے۔ یہ جی پی ایس ٹریکر ڈیوائس بارڈر پر اتاری جاتی ہے اور اس کے بعد ہی ٹرک واپس کراچی کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر کنٹینر کی انشورنس کی جاتی ہے کہ وہ اپنا سامان پاکستان میں نہ اتاریں/ سمگلنگ نہ ہو سکے۔ لہٰذا اگر کوئی کنٹینر پاکستان کی سرحد پار کرنے سے پہلے غائب ہو جائے تو کنسائنمنٹ پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس کا تعین کسٹم حکام کرتے ہیں۔ ایک کمپنی یہ ٹریکر سپلائی کرتی ہے اور فی ڈیوائس پچاس ڈالر وصول کرتی ہے۔ پندرہ جون کو افغان ٹرانزٹ کارگو کے لیے ایک سو پچاس ٹریکر جاری کیے جبکہ سات جولائی کو سو ڈیوائسز مہیا کی گئیں۔ مجموعی طور پر اوسطاً دو سو پچاس ڈیوائسز مہیا کی گئیں۔ اسلام آباد کی جانب سے پڑنے والے بے تحاشا دبائوکے بعد گیارہ دنوں کیلئے یہ اوسط دو سو پچھتر پر پہنچی لیکن جولائی کے پہلے ہفتے میں ایک بار پھر یہ اوسط سو سے تھوڑی اوپر کی سطح پر جا پہنچی ۔ سات جولائی تک پانچ ہزار سے زائد کنٹینر قطار میں لگے ہوئے تھے، جو اس انتظار میں تھے کہ ان پر ٹریکنگ ڈیوائس لگائی جائے۔
تیسری بات یہ ہے کہ کراچی بندرگاہ پر کسٹم حکام پاکستان آنے والے تقریباً چھ سو کنٹینر روزانہ کلئیر کرتے ہیں لیکن ٹرانزٹ کارگو کی تعداد بہ مشکل ایک سو پچاس کے آس پاس ہی پہنچتی ہے اور یہ سست رفتاری اس حقیقت کے باوجود ہمارے سروں پر سوار ہے کہ جاپان نے گزشتہ برس تین سٹیٹ آف دی آرٹ سکینرز کا عطیہ دیا تھا تاکہ جلدازجلد کنٹینر کارگو کو چیک کیا جا سکے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ طورخم کے راستے میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے کارگو ٹرکوں کو لازماً چار پوائنٹس بشمول پشاور پر رپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ یہاں رپورٹ کرنے کی پابندی کا مطلب ہے کہ کارگو عملے کو ہر طرح کی پریشانی و ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہاں مختلف محکمے ہر ہر طرح سے ان کو نچوڑنے کیلئے کئی طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والوں کو باڑہ روڑ پر ٹرانسپورٹرز یونین مافیا والے روک لیتے ہیں۔
معزز وزیر اعظم و سپہ سالار صاحب!
اس وقت تقریباً پچیس سو سے زائد کارگو ٹرک پشاور کے مضافات میں باڑے میں قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ تاجر حضرات مدد کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن کسی کو ان ٹرکوں کو ٹرانسپورٹر مافیا کے چُنگل سے چھڑانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ یہ مافیا ہر ٹرک سے بھتہ وصول کرکے اپنی جیبیں گرم کر رہا ہے، اور صرف اسی مقصد کے لیے زبردستی ان کارگو ٹرکوں کی راہ کھوٹی کی جا رہی ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب معاملہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہو تو متعلقہ محکموں میں موجود کرپٹ عناصر سست رفتاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔
جو بڑے سوال بہت سے اذہان کو مبتلائے خلجان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں: ان ٹرانز ٹ کارگو ٹرکوں پر چار مختلف مقامات پر رپورٹ کرنے کی پابندی کیوں ہے حالانکہ ان پر ٹریکر ڈیوائس لگا دی جاتی ہے اور سمگلنگ اور جان بوجھ کو مال کو ادھر اُدھر کرنے کی صورت میں ٹیکس وصولی ان کارگو ٹرکوں کی انشورنس سے کی جا سکتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ محدود تعداد میں ٹریکر ڈیوائسز جاری کی جاتی ہیں‘ جبکہ اس کے باعث ہونے والی تاخیر کی وجہ سے کارگو پر اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ریاست پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ اُن تاجروں کو سزا دے جنہوں نے پہلے اپنا سامان بندرگاہ پر سکین کرانے کے سست رفتار عمل سے گزارا اور اس کے بعد ان کے ٹرک پانچ مختلف مقامات پر کلئیرنس کے سست رفتار عمل سے گزرے؟
کیا وجہ ہے کہ یہ ٹرانزٹ ٹرک عالمی سرحد کے آس پاس حکام اور مقامی ٹرانسپورٹروں کی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں؟ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ اس معاملے کو سلجھانے کے لیے اعلیٰ ترین سطح کی مداخلت کی جائے۔ دونوں مکرم و محترم حضرات کے دفاتر کو اس حوالے سے فوری کارروائی کرنی چاہیے کہ چند کالی بھیڑوں کے ہاتھوں پاکستان کی ساکھ برباد ہونے سے بچائی جا سکے۔ ان لوگوں کے کالے کرتوت پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے باہمی تجارت کے لیے بھی زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں