"IGC" (space) message & send to 7575

پی آئی اے کے ساتھ کیا ہوا؟

صلاح الدین گُل صاحب پی آئی اے کے آپریشنز میں انتہائی کلیدی عہدوں پر کام کرنے کے بعد 36 برس کی دیانت دارانہ ملازمت کے باوجود آج کل لاہور میں ایک سنگل سٹوری مکان میں خوش و خرم اور انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ پی آئی اے کے معاملات پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں‘ دبئی، منیلا، نیروبی اور ماسکو میں بھی آپریشنز اور سٹیشن منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں مگر نہ تو اپنے دوسرے ہم عہدہ افسران کی طرح ان کی کنالوں پر محیط جائیداد ہے اور نہ ہی قیمتی کاروں کا فلیٹ کیونکہ انہوں نے تمام عمر اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیئے۔
صلاح الدین صاحب پی آئی اے کے آج کل کے حالات کے باعث رنجیدہ تو نہیں مگر حیران ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب ہونا ہی تھا۔ جنرل ضیاالحق نے پی آئی اے کے ایک سٹیشن منیجر کے ساتھ دوستی کے باعث انہیں ایئر لائن کا سربراہ لگا دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ہی ایک دوست طارق کرمانی‘ جو تیل کے کاروبار سے وابستہ تھے‘ کو ایئر لائن کا ایم ڈی لگایا جبکہ اعجاز ہارون جناب آصف علی زرداری کے کلاس فیلو ہونے کے ناتے ایم ڈی بنے۔ وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے اپنے ایک ایسے کزن کو ٹورنٹو میں پی آئی اے کا سٹیشن منیجر لگوایا۔ صلاح الدین صاحب کے بقول دبئی اور سعودی عرب میں پی آئی اے کے پاس ایک ایک درجن گاڑیوں کے فلیٹ تھے جو پاکستان سے آنے والے دوست احباب، افسران اور وزرا کی خدمت پر مامور تھے۔ دبئی میں بین الاقوامی سکول میں ایئر لائن کے ملازمین کے بچے پی آئی کی پے رول پر تھے‘ یعنی ایسا ظلم کہ باپ اگر پی آئی اے میں ہے تو بچے کو بھی مقامی طور پر ملازم رکھوا کر پیسے بٹور لیے۔
پی آئی اے کے اندرونی معاملات کی بدحالی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نیویارک کے عین وسط میں عالمی مالیاتی اور تجارتی معاملات کی علامت‘ اس کا ملکیتی روزویلٹ ہوٹل ایک کمرشل ادارے کی طرح چلائے جانے کی بجائے ایئرلائن کے گیسٹ ہائوس کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ اکثر خسارے میں رہا ہے اوراس کی ایک کمرشل ادارے کے طور پر مارکیٹنگ نہ کی جا سکی‘ نہ ہی اس کا پیشہ ورانہ انداز میں انتظام چلایا جا سکا‘ بلکہ سنسنی خیز امر یہ ہے کہ پی آئی اے کے اعلیٰ افسران کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہزار سے زائد کمروں پر مشتمل یہ ہوٹل خریدنا چاہتے ہیں۔ سینیٹ کو باقاعدہ طور پر فراہم کی گئی یہ معلومات نہ صرف نجکاری کی وزارت بلکہ اکثر پاکستانیوں کیلئے بھی ایک دھچکے سے کم نہیں تھی۔ صلاح الدین گل صاحب کے بقول پی آئی اے کے فلائٹ کچن میں اربوں روپوں کی چوریاں ہوتی رہی ہیں مگر کسی نے نظام کی تبدیلی پر توجہ نہیں دی۔ مثال کے طور پر کراچی، نیویارک، کراچی فلائٹ کے اختتام پر صلاح الدین صاحب کو ضروری اشیا کی خورد برد کی خبر ہوئی۔ ذمہ دار افسر کے طور پر صلاح الدین صاحب نے مسافروں کے اترنے کے فوراً بعد جہاز پر مارشل لا لگا کر اس میں موجود سامان کا جائزہ لیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کاغذات میں جو سامان استعمال ہو چکا تھا‘ وہ وہیں موجود تھا۔ یہ سامان بقول صلاح الدین صاحب کے پانچ گاڑیوں میں بھر کر گودام پہنچایا گیا۔
پی آئی اے میں لوٹ مار کی یہ محض ایک چھوٹی سی مثال تھی جس سے اس ایئر لائن کا خسارہ مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا۔ بیرونی ممالک میں سٹیشن منیجر کی سیاسی بنیادوں پر تقرریاں تو ہوتی رہیں مگر ان کی کارکردگی کا آڈٹ کسی نے نہ کیا، نہ ہی کسی نے ان سے پوچھا کہ بالآخر اکثر پاکستانی مسافروں کیلئے پی آئی اے آخری چوائس کیوں ہوتی ہے؟ نہ ہی کسی نے یہ پوچھا کہ جن ہزاروں افراد کو ملازمتوں پر آٹھ نو سال کے واجبات سمیت بحال کیا گیا ان سے کتنے لوگ محض واجبات کی وصولی کیلئے آئے اور دوبارہ امریکہ، یورپ روانہ ہو گئے۔ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی ایک صاحبزادی بھی ایسے ہی خوش نصیبوں میں شامل تھیں جو کروڑوں نہیں تو لاکھوں وصول کرنے آئیں (2010 میں) اور ایک ہفتے کے بعد امریکہ روانہ ہو گئیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پی آئی اے ضروری سروسز ایکٹ (Essential services Act) کے تحت قائم ہے مگر یہاں جماعت اسلامی نے جنرل ضیا الحق کی قربت کے باعث ''پیاسی‘‘ کے نام سے ٹریڈ یونین کی داغ بیل ڈالی۔ اسی طرح 1985ء بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو پیپلز یونٹی کے نام سے پی پی پی کی ٹریڈ یونین اور بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف کے زمانے میں ایئر لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح پائلٹوں نے پالپا کے نام سے اپنی دکان سجائی اور چاروں نے مل کر پی آئی اے کو ہر طریقے سے برباد کرنے اور بلیک میل کرنے کا سامان کیا۔ جب ایک پائلٹ کے بیگ سے دبئی سے واپسی پر پانچ کلو سونا برآمد ہوا تو سمگلنگ کے جرم میں سزا کی راہ میں پالیا آڑے آ گئی۔ جب کبھی ٹرانسفر یا ترقیوں/ تنزلیوں یا کسی کے احتساب کی بات آتی تو دوسری یونینز سربکف ہو جاتیں۔
پی آئی اے کے تابوت میں سب سے بڑا کیل نواز شریف کے زمانے میں متعارف کی گئی اوپن سکائی پالیسی تھی جس کے تحت ہر غیر ملکی ایئر لائن کو پاکستان میں غیر مشروط داخلے کی اجازت ملی اور صلاح الدین اس حوالے سے بھی بہت رنجیدہ ہیں کہ کسی قومی ادارے نے نواز شریف سے یا بی بی سے ان نقصانات کا نہ پوچھا جو اُن کی پالیسیوں کے باعث پی آئی اے کو اٹھانا پڑے۔ جن افراد کا ہوا بازی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہ تھا‘ انہیں پی آئی اے میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بقول صلاح الدین صاحب پی آئی اے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں غالب اکثریت حکمرانوں کے چہیتے دوست احباب تھے جنہیں زندگی بھر کیلئے مفت فضائی سفر، بڑے ہوٹلوں میں قیام و طعام کی سہولتیں میسر تھیں جبکہ ایئرلائن مسلسل زوال کا شکار ہوتے ہوئے قرضوں میں ڈوب گئی۔
بنیادی سوال کہ لازمی سروس ایکٹ کے ماتحت ادارے میں ٹریڈ یونین کی اجازت کیوں دی گئی؟ ٹریڈ یونین کے کرتا دھرتا کو ناجائز بھرتیاں اور جعلی ٹی اے ڈی کی اجازت کس نے دی؟ جنرل ضیاالحق نے سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے جن 5 ہزار سے زائد لوگوں کو فارغ کیا تھا‘ انہیں بی بی کے زمانے میں بحال کر کے گزشتہ آٹھ برسوں کے مکمل واجبات ادا کر دیئے گئے۔ اسی طرح انہی کے زمانے میں دیہی سندھ سے چار ہزار افراد کو بھرتی کیا گیا، جن میں سے اکثر نے پہلی مرتبہ کراچی کی بتیاں دیکھیں بلکہ انہی کی سفارش پر ایک ایسے صاحب بطور سٹیشن منیجر نیروبی (کینیا) پہنچے جو بقول صلاح الدین صاحب انگریزی میں لکھا ایک خط تک پڑھنے سے قاصر تھے۔ انہی ہوشربا انکشافات میں یہ حقیقت بھی شامل تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں یہ بھرتیاں وزیراعظم کے لیٹر ہیڈ پر سفارشی خطوں کے ذریعے ہوئیں۔
کس قدر افسوسناک ہے کہ جس ایئر لائن نے 36 غیرملکی ایئر لائنوں کے قیام اور ان کے سٹاف کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا‘ اس کے اپنے پائلٹ مشکوک ڈگریوں، مشکوک لائسنسوں اور بین الاقوامی رُوٹ پر سمگلنگ، شراب نوشی اور ضابطے کی خلاف ورزیوں کے مرتکب پائے گئے۔ یورپین ایئر سپیس ایجنسی نے پی آئی اے کے پائلٹوں اور دیگر عملے کے خلاف دراصل 2017ء سے شکایتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا‘ مگر ہر شکایت پر خلاف ورزی پائلٹوں کی یونین اور ٹریڈ یونینز یا مصلحت کے نیچے دب کر رہ گئی۔
امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے پی آئی اے پر پابندیاں جلد یا بدیر لگنا ہی تھیں اور اس کی وجہ اس کے افسران، پائلٹوں اور دیگر انتظامیہ کے کرتوت تھے۔ پی آئی اے کو ایک کمرشل ادارے کے طور پر اور مکمل با اختیار، سیاسی اثر و نفوذ سے پاک ایئر لائن کی حیثیت سے چلانے کا یہ سنہری موقعہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں