"IGC" (space) message & send to 7575

فلسطین کے بعد اب ’’کشمیریت‘‘ محاصرے کی زد میں

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں، بھارتیہ جنتا پارٹی کی کنٹرول کردہ انتظامیہ نے حال ہی میں دو بہت اہم پالیسی فیصلے کیے ہیں۔ ان فیصلوں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی حکمت عملی جاری رکھے گی اور اس بات کا بڑا اندیشہ موجود ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں سامنے آنے والی ڈیموگرافک تبدیلیاں اور ان سے جنم لینے والے سماجی و معاشی نتائج کشمیر کے خطے کے لیے اُتنی ہی بڑی تبدیلیاں اور تکالیف اپنے جلو میں لے کر آئیں گے‘ جتنی اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ہر نئی آباد کاری سکیم محصور فلسطینیوں کے لیے مصائب و آلام کا سبب بنتی ہے۔
کنٹرول آف بلڈنگ آپریشنز ایکٹ 1988 اور جموں و کشمیر ترقیاتی ایکٹ 1970 میں کی جانے والی ترمیم کے بعد ریاستی انتظامیہ کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کسی بھی علاقے کو ''سٹریٹیجک علاقہ‘‘ قرار دے سکے اور یوں انڈیا کی مسلح افواج بغیر کسی روک ٹوک کے، جہاں انہیں مناسب لگے، تعمیرات اور ان سے منسلک سرگرمیاں بنا کسی رکاوٹ کا سامنا کیے شروع کر سکتی ہیں۔ دوسرا، اور اتنا ہی خطرناک قدم جموں اینڈ کشمیر افورڈایبل ہائوسنگ، سلم ری ڈویلپمنٹ اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن اینڈ ٹائون شپ پالیسی 2020 ہے۔ اس نئی پالیسی کا مجوزہ ہدف دو لاکھ گھروں کی تعمیر ہے۔ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے اپنے لیے آئندہ پانچ برسوں میں ایک لاکھ رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا ابتدائی ہدف مقرر کیا ہے۔ اگر ان سب چیزوں کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو کشمیریوں کیلئے اس سب کا مطلب کیا بنتا ہے؟ مسلم اکثریت رکھنے والے کشمیر کو کالونی بنانے کیلئے کشمیریوں کو یہاں سے ہجرت پر مجبور کرنا اور ان کے رہائشی علاقے غیر کشمیریوں کو دینا۔ یہ بالکل وہی انداز ہے جو فلسطین میں یہودی آباد کاری کیلئے اور وسطی ایشیا کی اکثر ریاستوں میں قدم جمانے کیلئے سوویت یونین نے اختیار کیا تھا۔
اس حوالے سے پہلا قدم یہ اٹھایا جائے گا کہ وہ زمینیں جہاں اس وقت انڈین سکیورٹی فورسز نے اپنی تعمیرات کر رکھی ہیں (موجودہ عارضی کیمپ/ کنٹونمنٹ وغیرہ) اور جو مختلف علاقوں میں موجود ہیں (جنہیں اب سٹریٹیجک ایریا قرار دینے کے نوٹیفکیشن جاری کیے جارہے ہیں) یا جہاں نئے کیمپ/ کنٹونمنٹ قائم کرنا ان کے خیال میں مفید ثابت ہو سکتا ہے اس زمین کو باضابطہ طور پرحاصل کرلیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسی تمام زمین باضابطہ طور پر مستقل نوعیت کی تعمیرات کے لیے استعمال ہوگی اور ظاہر ہے اس کے بعد یہاں سکیورٹی کا بندوبست کیا جائے گا اور نئے نئے رہائشی علاقے (کنٹونمنٹ اور رہائشی محلے) جنم لیں گے۔
صورتحال یہ ہے کہ چند ایک کیمپ ہی ایسے ہیں جنہیں بطور فیملی سٹیشن استعمال کیا جاتا ہے۔ نئی ترمیم فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے نئے رہائشی بلاکس کی تعمیر کی راہ کھول دے گی۔ بہت سے موجودہ کیمپس نجی جائیدادوں مثلاً باغات، گھروں، ریاستی جائیدادوں پر قائم ہیں یعنی یہ عارضی نوعیت کے حامل ہیں؛ تاہم 18 جولائی 2020 سے پورے کا پورا علاقہ سٹریٹیجک ایریا قرار دے کر حاصل کیا جا سکے گا اور اس کے بعد اسے مسلح افواج اور ان کے اہل خانہ وغیرہ وغیرہ کے رہائشی استعمال میں لایا جائے گا۔
دوسرا قدم جموں اینڈ کشمیر افورڈایبل ہائوسنگ، سلم ری ڈویلپمنٹ اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن اینڈ ٹائون شپ پالیسی 2020 ہے۔ اس پالیسی کے تحت غیر کشمیری نجی شعبے کو کشمیر کے رئیل سٹیٹ ڈویلپمنٹ/ کنسٹرکشن سیکٹر کی جانب متوجہ کیا جا رہا ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق اس پالیسی کے تحت گھروں کے سات ماڈل سامنے لائے گئے ہیں جن میں ''مخصوص کچی آبادیوں سے لے کر مربوط ٹائون شپ‘‘ تک کے یونٹ شامل ہیں۔ یہ آبادیاں اور ٹائون شپ، نئی پالیسی کے مطابق، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کی جائیں گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ کنسٹرکشن کمپنیاں اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے بلڈرز کو اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے ٹھیکے دیے جائیں گے۔ یہاں کرائے پر دینے کیلئے گھروں کی تعمیر کا بھی ایک منصوبہ موجود ہے جس کے تحت ''معاشی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں (ای ڈبلیو ایس فیملی) کو لائسنس کی بنیاد پر مخصوص عرصہ میں استعمال کے لیے رہائشی یونٹ مہیا کیا جائے گا اور اس کے لیے انہیں ایک مخصوص بنیادی رقم جمع کرانے کے بعد ماہوار ادائیگی کرنا ہوگی‘‘۔
غیر کشمیری سرکاری و عسکری حکام، نئے آبادکار اور ان کے علاوہ وسط مدتی و طویل مدتی چھٹیاں گزارنے والے اشخاص و خاندان اس پالیسی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے متاثر انتظامیہ کے اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی بااثر کشمیری خاندانوں، تاجروں، سرمایہ کاروں اور کنسٹرکشن انڈسٹری سے منسلک افراد کو دانہ ڈال کر انہیں اپنے دام میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان لوگوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی کاوش ہے اور اس سے امید یہ کی جا رہی ہے کہ نئی دہلی مخالف سیاسی و سماجی گروپوں کو نیوٹرلائز کیا جا سکے گا۔
چوتھا، اگرچہ اس ہائوسنگ پالیسی کی زیادہ تفصیلات ابھی منظر عام پر نہیں آئیں تاہم جو معلومات دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر یہ بات بڑی حد تک یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ ہائوسنگ پالیسی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اُس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی جانب بڑا قدم ہے جس کے تحت اس نے وحشیانہ انداز میں 5 اگست 2019 کو کشمیر کا اپنے ساتھ الحاق کر لیا ، جس کے نتیجے میں کشمیر اپنی خصوصی حیثیت سے محروم ہوا۔ جہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کا تعلق ہے اس کیلئے تو اب سامنے آنے والی نئی پالیسی اس حکمت عملی کا اگلا منطقی درجہ ہے جس کے تحت آرٹیکل پینتیس اے کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس آرٹیکل کا تعلق غیر کشمیریوں کے ڈومیسائل اور جائیداد کی ملکیت سے تھا۔پانچویں بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کشمیر میںسیاسی خاموشی کے سیاق و سباق میں کیا جا رہا ہے؛ بھارتی وزیر داخلہ ، امیت شاہ کے اپنے اعتراف کے مطابق سات ہزار کشمیری، جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ اور حریت رہنما بھی شامل ہیں، حفاظتی اقدام کے طور پر جیلوں میں ہیں۔ کشمیری اپوزیشن کا منہ پوری طرح بند کیا جا چکا ہے اور عملاً سیاست اور سیاسی عمل ساکت و جامد ہے۔ یہ خاموشی اس حد تک نافذ کی جا چکی ہے کہ دہلی کی حمایتی سیاسی جماعتیں مثلاً پی ڈی پی اور مسلم کانفرنس تک کو ان کے گھروں تک محدود رکھا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی گروہ اور شخصیات مثلاً سعید مفتی وغیرہ الحاق اور قبضے کے اس منصوبے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے جموں و کشمیر میں نئی دہلی کا جھنڈا بلند کر رکھا تھا؛ تاہم پانچ اگست کے بعد جتنے بڑے پیمانے پر وادی کو فوجی استبدادی پنجے میں لپیٹا گیا اس سے یہ گروہ اور اشخاص نہ صرف خود ششدر رہ گئے بلکہ انہیں بیحد شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آخری بات یہ ہے کہ ناقدین اکثر کشمیری رہنمائوں کی خاموشی کو ذمہ داری سے فرار قرار دے رہے ہیں کہ ان لوگوں نے ہائوسنگ کے ان نئے قوانین کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔انڈیااستبدادی انداز سے کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوششوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے مغربی سرپرست جو عموماً ایران، ترکی اور پاکستان جیسے ملکوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی کے کسی معاملے پر پرزور احتجاج کرنے اور دبائو ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان ممالک کے اپنے جغرافیائی اور کمرشل مفادات ہیں۔ یہ ممالک کشمیر میں ہونے والے افسوسناک معاملات سے ایسے ہی صَرف نظر کر رہے ہیں جیسے انہوں نے اسرائیل کے معاملے میں کیا‘ جو اپنے یہودی شہریوں کو آباد کرنے کیلئے فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کر چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں