"IGC" (space) message & send to 7575

پینٹاگان کی جنگیں اور عسکری صنعت کی نفع خوری

طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات کے آغاز میں صرف مذاکرات کاروں کا لازمی قرنطینہ کا ایک ہفتہ حائل تھا۔ جیسے ہی قرنطینہ کا یہ وقت گزرا‘ فریقین کے مابین بات چیت شروع ہو گیا۔ ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ جلد پتہ چل جائے گا۔ فی الحال بین الافغان مذاکرات (انٹرا افغان نیگوسی ایشن) سے قبل ہونے والے چند اہم معاملات پر نظر دوڑانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
پہلے بات کرتے ہیں نائب افغان صدر امراللہ صالح کے ایک بیان پر جس کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ امریکی لیڈروں کی جانب سے بھی غیر معمولی سخت رد عمل مشاہدے میں آیا۔ اپنے سات ستمبر کے ایک ٹویٹ میں صالح نے لکھا ''قومی سطح کا کوئی بھی افغان رہنما ڈیورنڈ لائن کے معاملے سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ نہ صرف زندگی بھر بلکہ بعد از مرگ بھی ان کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بات چیت کرنا اور اس کا حل نکالا جانا ضروری ہے۔ اگر کوئی توقع کرتا ہے کہ ہم اسے بطور تحفہ دے دیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ پشاور کسی زمانے میں افغانستان کا سرمائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا‘‘۔
اس ٹویٹ کے جواب میں نمایاں ترین رد عمل اعلیٰ سطحی امریکی سفارت کار ایلس ویلز کے نہایت مدلل جواب کی صورت میں سامنے آیا ''قومی سطح کے افغان رہنمائوں کو بخوبی علم ہے کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔ قومیت پرستی کے بھوسے میں چنگاری پھینکنے یا ایسے دعووں کا نتیجہ نہ صرف امن مذاکرات میں رکاوٹ بلکہ دونوں ملکوں کے مابین موجود معاشی روابط میں دراڑ کی شکل میںظاہر ہو گا‘‘۔
اس کے بعد ایک افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور امراللہ صالح کے قافلے پر بدھ کی صبح حملہ ہو گیا۔ خوش قسمتی سے وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ طالبان نے اس حملے سے، جس میں بارہ لوگ جان کی بازی ہار گئے، خود کو دور ہی رکھا۔ اب اس بارے میں شکوک و شبہات اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں ٹویٹ سے اگلے روز ہی کس نے امراللہ صالح کو نشانہ بنانے کی کوشش کی؟
اس کے بعد امریکی سنٹکام کے موجودہ سربراہ جنرل کینتھ میکنزی کا افغانستان اور عراق سے فوجی نفری میں کئی ہزار نفوس کی کمی کے متعلق بیان سامنے آیا۔ مکینزی کا کہنا تھا کہ ستمبر کے آخر تک عراق میں امریکی فوج کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ اور نومبر کے آخر تک افغانستان میں پینتالیس سو فوجیوں تک محدود ہو جائے گی۔
اس بیان پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود کئی سخت گیر لوگوں کو سخت حیرت کا سامنا ہے۔ نہ صرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بلکہ افغانستان میں موجود کئی سٹیک ہولڈر بھی میکنزی کے اس بیان پر بھونچکا رہ گئے کیونکہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ دونوں ملکوں سے فوجیں نکالنے کا اعلان تو صرف ایک ''پھسلاوا‘‘ تھا۔ یہ لوگ سمجھے بیٹھے تھے کہ فوجوں میں کمی کا یہ اعلان امریکی صدارتی انتخابات کے لیے، جو اس برس کے آخر میں یعنی نومبر کے مہینے میں ہونے والے ہیں، ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اس کے بعد ایک اور جانب سے آسمانی بجلی کی مانند ایک بیان سب کے سروں پر آن گرا‘ اور ایسے بیان کی توقع آپ صرف ''سیدھے سادے کاروباری انداز میں بات کرنے والے‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کس سے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کے بارے میں بھی بالکل کھری بات کر دی جو بہت سے لوگوں کے نزدیک دہائیوں سے کسی ''سازشی تھیوری‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ سات ستمبر کو ہی کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا ''میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فوج مجھ سے پیار کرتی ہے؛ سپاہی مجھے پسند کرتے ہیں۔ شاید پینٹاگان میں موجود اعلیٰ حکام مجھے پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سوائے جنگ کے کسی اور سمت نہیں دیکھتے، ان لوگوں کا مطمح نظر صرف یہ ہے کہ وہ تمام کمپنیاں جو بم اور جہاز بناتی اور ہر قسم کی رسد بہم پہنچاتی ہیں‘ خوش رہیں‘‘۔
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے پینٹاگان کے اعلیٰ حکام... جنرلوں کو... مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ دفاعی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کو راضی رکھنے کے لیے جنگیں چھیڑتے ہیں۔
ٹرمپ نے اس معاملے پر مزید بات کرتے ہوئے کہا ''لیکن اب ہم ان نا مختتم جنگوں سے نکل رہے ہیں؛ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم ایسا کیسے کر رہے ہیں؟ ہم نے داعش کی خلافت کو سو فیصد شکست سے دوچار کر دیا... سو فیصد۔ ایک برس بعد میں نے کہا، 'یہ کہاں ہے؟‘ 'یہ سب ختم ہو چکا ہے جناب۔ آپ کی وجہ سے، سب کا خاتمہ ہو گیا ہے‘ میری سوچ کی وجہ سے۔ پھر میں نے کہا 'اچھا ہے‘ اب اپنے سپاہیوں کو گھر واپس آ جانا چاہیے۔ کچھ لوگ گھر واپسی کے خواہاں نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو مسلسل اخراجات جاری رکھنا چاہتے ہیں‘۔ دل توڑ دینے والے ایک عالمی دھوکے کے بعد دوسرا عالمی دھوکا‘‘۔ 
اس موقع پر بھی وہ اپنے انتخابی حریف جو بائیڈن کو نشانہ بنانا نہیں بھولے اور ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے (بائیڈن نے) ''ہمارے بچوں کو ان نا مختتم، احمقانہ لڑائیوں پر بھیجا‘ اور یہی وجہ ہے کہ فوج... میرا کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ فوج بطور ادارہ؛ سپاہی مجھے پسند کرتے ہیں‘‘۔
اتفاقیہ امر یہ ہے کہ جب ٹرمپ ایسی بات کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ چھ دہائیاں پہلے ان کے پیش رو صدر ڈوائٹ آئزن ہاور کی باتوں کی گونج ہے‘ جو اب بھی سنائی دیتی ہے؛ آئزن ہاور نے بھی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس (ایم آئی سی) کے ہمہ جہتی اثرورسوخ کے بارے میں نشان دہی کی تھی۔ سترہ جنوری 1961 کو اپنے الوداعی خطاب میں آئزن ہاور نے قوم کو ایم آئی سی کے بارے میں خبردار کیا اور مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے: ان کا مکمل اثر و رسوخ... معاشی، سیاسی حتیٰ کہ روحانی... ہر شہر، ہر ریاستی ادارے، مرکزی حکومت کے ہر دفتر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی کونسلوں میں، ہمیں ایم آئی سی کے اس اثر و رسوخ کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے چاہے یہ مطلوب ہو یا نا مطلوب۔ غلط ہاتھوں میں طاقت ہونے کا مطلب تباہ کن ہو سکتا ہے اور یہ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور منڈلاتا رہے گا۔
پینٹاگان کے جنرلوں کے لیے ٹرمپ کے سخت الفاظ... اور بالواسطہ طور پر پینٹاگان، فوج دفاعی صنعت، جس میں پورا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس شامل ہے، کے مابین موجود غیر رسمی اتحاد کو نشانہ بنانا... ان لوگوں کے لیے کوئی حیران کن بات نہیں ہے جو ان کی فیصلہ سازی کے ''حقیقت پسندانہ‘‘ انداز سے آگاہ ہیں۔
واضح طور پر ڈونلڈ ٹرمپ ان جنرلوں کو ناپسند کرتے ہیں جو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو راضی کرنے کے لیے جنگیں لڑنے کے خواہاں ہیں اور وہ کبھی ان جنگوں کا خاتمہ نہیں ہونے دیتے۔ ان بے معنی جنگوں‘ جو باہری دنیا میں جاری ہیں‘ کا بھگتان امریکیوں کو اپنی جانوں سے کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو اس دلدل سے باہر نکلنے کا وعدہ کیا تھا‘ اور بھلے آپ ٹرمپ کو کتنا بھی ناپسند کرتے ہوں وہ تقریباً اس وعدے کی تکمیل کے قریب قریب پہنچ چکے ہیں۔ وہ بین الافغان مذاکرات کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں اور صدر امریکہ اور اس کی انتظامیہ کی یہ کوشش بھی اچھے انجام تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ ٹرمپ کے کیمپ سے جو پیغام آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ صدر کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے اور صدر جو کچھ کہتے ہیں اس سے ان کی مراد بھی وہی ہوتی ہے۔ اس کے لفظوں میں کوئی الٹ پھیر یا اس کے عمل میں کوئی دو رخی چیز نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں