"IGC" (space) message & send to 7575

Spoiler کون؟

امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے گیارہ ستمبر کو دوحہ سے وڈیوکانفرنس کے ذریعے امریکی صحافیوں کو بتایا''ہم نے امر اللہ صالح پر حملے کی مذمت کی ہے لیکن ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ افغانستان میں ایسے کئی شرپسند Spoilerموجود ہیں جو امن کے عمل کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے‘ ایسے لوگ جو (خانہ جنگی اور بدامنی) کی موجودہ صورتحال کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ان میں سے کئی لوگ (اور گروہ ایسے بھی ہیں) جو نہ صرف حکومت کے خلاف مصروفِ جنگ ہیں بلکہ طالبان کے ساتھ بھی برسرپیکار ہیں۔ ان میں داعش کا گروہ بھی شامل ہے جوافغانستان میں تشدد کے زیادہ تر واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ فی الوقت ہمیں نہیں معلوم کہ نائب صدر کے خلاف حملے میں کون ملوث تھا‘ لیکن ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ افغانستان میں اس وقت متعدد گروہ سرگرم ہیں اور اگر افغان حکومت اورطالبان کے مابین صلح اور امن ہو جائے تو ان کیلئے ایسے شرپسند گروہوں سے نمٹنا خاصا آسان ہو جائے گا‘‘ ۔
زلمے خلیل زاد کے اس لوڈڈ بیان کے بعد سوال یہ ہے کہ جن شرپسندوں اور بگاڑ کے خواہشمندوں کی طرف امریکی حکام اشارہ کررہے ہیں کہ وہ کہیں نائب صدر امراللہ صالح ‘جوکہ خوش قسمتی سے ایک اور قاتلانہ حملے میں بچ گئے‘کے آس پاس اور ان کے ہم خیال تو نہیں؟ وہ لوگ جو وقتاً فوقتاً سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن ایسے تنازعات کو ہوا دے کر دوطرفہ تلخیوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔خود امر اللہ صالح نے بھی حال ہی میں سرحد کے حوالے سے کچھ ایسے خیالات کا اظہار ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا کہ پشاور کبھی افغانستان کا موسم سرما کا دارالحکومت ہوتا تھا‘ اس کے جواب میں سابقہ نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ایک جوابی ٹویٹ میں کہا کہ ''ہر نقطۂ نظر کے حامل افغان سیاستدانوں کو علم ہونا چاہئے کہ ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی طور پر مسلمہ سرحد ہے ۔ان رہنماؤں کو چاہئے کہ قوم پرستانہ اور ماضی سے جڑے دعوے کرنے کے بجائے دونوں ملکوں (پاکستان اور افغانستان) کے مابین امن اور معاشی طور پر فائدہ مند تعلقات کی کوشش کریں۔ 
ایلس ویلز مارچ 2020ء میں سینیٹ کے اجلاس میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایک امریکی سینیٹر بریڈ شرمن نے بھی جولائی 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اپنی حکومت سے استدعا کی تھی کہ افغان رہنماؤں کو ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد کے طور پر تسلیم کرنے کا مشورہ دیں۔
ویسے اگر غور کیا جائے اور قوم پرست افغان اور ان کے پاکستانی ہمنوا مانیں یا نہ مانیں‘ 2001ء میں 9/11 کے دہشتگردی کے واقعات کے بعد سے اب تک پاکستان کی مقتدرہ نے بتدریج ایسے اقدامات کئے ہیں جن کے باعث بحیثیت مجموعی ملکی خارجہ پالیسی اور داخلہ امور بشمول شدت پسند گروہوں کی سرکوبی ایسے معاملات پر اکثر دوست ملکوں سے نہ صرف کلین چٹ ملی ہے بلکہ خاص طور پر دوحہ مذاکرات کے آغاز کے ذریعے پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت بھی تسلیم کر لی گئی ہے۔ پاکستانی دانشوروں‘ حکام اور ماہرین نے ابتدا ہی سے امریکہ کو جنگ سے گریز اور مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ جبکہ امریکہ مسلسل پاکستان سے افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا‘ لیکن بالآخر وہی ہوا جس کی پاکستان نے 19برس تک وکالت کی۔ اس پروسیس کا ایک اور بڑا فائدہ پاک افغان سرحد پر باقاعدہ باڑ کی تنصیب ہے‘ جس کا خاصا کام مکمل ہو چکا ہے اور جس کے لئے پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے امریکہ کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ سرحد پر جدید باڑ لگا کر پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ نہ تو یہ بارڈرمتنازع ہے اور نہ ہی اس کو دوطرفہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ الزام یا نظریہ بھی ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گا جس کے مطابق پاکستان افغانستان میں Strategic Depth کا متلاشی ہے۔فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق اگر سٹریٹیجک ڈیپتھ نام کا کوئی نظریہ کبھی موجود بھی تھا تو وہ خاصا ناپختہ اور دانشمندی سے عاری تصور تھا‘ کیونکہ جس ملک کی تاریخ غیر ملکیوں کے خلاف شدید مزاحمت سے عبارت ہو اسے بھلا کوئی دوسرا ملک اپنے مفادات کے تحفظ کا ضامن کیسے سمجھ سکتا ہے؟ان کے مطابق افغانستان ہمارے لئے صرف اُسی وقت تحفظ کا ضامن ہو سکتا ہے جب وہاں کے عوام اور خواص خوش ہوں‘ وہاں پر امن ہو اور اقتصادی استحکام و خوشحالی ہو‘ پاکستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ افغانستان کو امن و ترقی کی راہ پر ڈالا جائے۔
دوحہ میں بین الافغان ڈائیلاگ تک کے سفر میں پاکستان کی کوششوں میں بھی یہی سوچ کارفرما تھی۔اس تمام عمل سے جو چند باتیں نمایاں ہو کر سامنے آئیں ان سے روگردانی یا انہیں تسلیم نہ کرنا نہ صرف پاکستانی پالیسی بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے تقاضوں کی بھی نفی ہو گی۔اولاً یہ کہ دوحہ ڈائیلاگ کا آغاز افغان طالبان کی سیاسی حیثیت اور اہمیت پر تصدیقی مہر ثابت ہوا ہے۔دوم‘ جو حلقے اب تک پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی کا ڈھول پیٹ رہے تھے‘ انہیں امریکی‘ برطانوی‘ نارویجین اور یورپی یونین کے سینئر سفارتی اہلکاروں اور وزرائے خارجہ نے پاکستان کے کردار کی تعریف کر کے جواب فراہم کر دیا ہے۔ سوم‘ پاکستان میں برطانوی سفیر کرسچین ٹرنر نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے نہ صرف وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا شکریہ ادا کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اب افغان امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔چہارم‘ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے واضح کیا کہ افغانستان کے سیاسی مستقل کا فیصلہ افغان شراکت داروں پر منحصر ہے‘ ہم ان پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کریں گے اور توقع ہے کہ افغان شراکت دار یہ فیصلے باہمی اتفاق ِرائے سے کریں گے۔پنجم‘ سیاسی طور پر بھارت سمیت وہ ملک اور گروہ جو اب تک طالبان کو دہشتگردقرار دے کر ان کے ساتھ مذاکرات کی مزاحمت کر رہے تھے‘ وہ سیاسی طور پر‘ کم از کم فی الوقت تنہا ہو گئے ہیں بلکہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں یہ لابیاں یتیم ہو جائیں گی کیونکہ ٹرمپ نے دہائیوں سے چلنے والی غیرملکی جنگوں اور سہولت کاروں/ آلہ کاروں (Proxies)کے ذریعے سیاسی مداخلتوں کی پالیسی خاصی حد تک مسترد کر دی ہے۔بلاشبہ یہ حلقے اور افراد افغان امن عمل کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اسے سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور خود کو دوبارہ اہم بنانے کی غرض سے آلہ کاروں شرپسندی/ تخریب کاری کیلئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
آخر میں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ دوحہ میں جو کچھ ہوا‘ اس پر بھارت اور اس کے افغان ہم نوا یقینا خوش نہیں کیونکہ ٹرمپ سمیت اُن کے کلیدی یورپی اتحادیوں نے اس عمل کے آغاز کیلئے پاکستان کے کردار کوکھل کر سراہا ہے‘ تاہم واضح ہے کہ ڈائیلاگ شروع ہونے کے بعد کے حالات اور نتائج کا دارومدار اب افغان شراکت داروں پر ہے کہ وہ کس حد تک زمینی حقائق اور بین الاقوامی سیاست کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے افغان عوام کو مستقل پائیدار امن کی نوید سناتے ہیں‘ خصوصاً امریکی وزیر خارجہ کے اُس بیان کے تناظر میں جس میں انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کیلئے امریکی امداد کے حجم اور اس کے جاری رہنے کا انحصار بھی مذاکراتی عمل کے نتائج کے ساتھ مشروط ہوگا یعنی تمام افغان شراکت داروں پر مکالمے کو کامیاب بنانے کیلئے دباؤ ضرور ہوگا‘ دیکھنا یہ ہے کہ افغان قیادت کے ساتھ ساتھ امریکہ‘ روس‘ چین اور پاکستان مذاکرات کوکس حد تک افغان اور بیرونی تخریب کاروں سے محفوظ رکھ پاتے ہیں۔ مذاکراتی عمل انتہائی صبر آزما اور کٹھن ہوگا‘ مگر اسکی کامیابی ناممکن نہیں۔ طالبان پر بھی لازم ہے کہ اپنی خواہشات اور مطالبات کو اکثریت کیلئے قابل قبول بناتے ہوئے امن پروسیس کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں