"IGC" (space) message & send to 7575

دارالحکومت اور دھرنا کلچر

کس طرح احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہزاروں افراد کی زندگی اور کاروبار کو روک کر رکھ سکتے ہیں‘ یہ جاننے کے لیے دارالحکومت اسلام آباد ایک بہترین مثال ہے۔ احتجاج اور دھرنے دراصل شہری انتظامیہ اور پولیس کی قابلیت کو بھی جانچتے ہیں۔ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے پکڑے جانے والے درجنوں کنٹینرز سے شہر کے اہم حصوں کو بند کرنا، سیاسی جماعتوں اور شہریوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے لیے بھی شہر کی کوئی حوصلہ افزا تصویر نہیں ہے۔ دھرنوں سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ کا پہلا رد عمل ہمیشہ سڑکوں کو بند کرنا اور متبادل نظام کے متعلق پیشگی اعلان کے بغیر موبائل فون سروس کو معطل کرنا ہے۔
اگر ہم ماضی قریب و بعید کے حالات و واقعات پر ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب بھی اسلام آباد کے اندر یا باہر سے کسی سرکاری، معاشرتی، مذہبی مسئلے‘ حتیٰ کہ سرکاری ملازمین کی طرف سے بھی احتجاج ہوتا ہے تو یہ شہر تقریباً آدھا مفلوج ہو جاتا ہے‘ ہر طرح کی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں اور زندگی ایک طرح سے جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔گزشتہ چند مہینوں میں کراچی، لاہور، قبائلی علاقوں سے لوگوں نے دھرنے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا۔ انہوں نے یہاں جلسے کئے اور دھرنے دیئے۔
بلا شبہ کسی معاملے پر احتجاج ریکارڈ کرانا کسی فرد یا گروہ کا جمہوری حق ہے کہ یہ آزادیٔ رائے کے اظہار کے زمرے میں آتا ہے‘ لیکن اگر اس کی وجہ سے دوسرے شہریوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو اس پر پھر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم صرف اسلام آباد کی بات کریں تو آئے روز یہاں پر دھرنے اور احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ میری تحقیق یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک دن میں تقریباً 3 چھوٹے بڑے دھرنے ہوتے ہیں اور پھر انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ 
دھرنوں اور احتجاجوں کی وجہ سے انتظامیہ کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ تین مختلف طرح کے اخراجات کا سامنا بھی کرنا پڑ تا ہے۔ پہلے اخراجات وہ ہیں جن کو ہم ڈائریکٹ اخراجات کہہ سکتے ہیں جیسا کہ کنٹینرز، پولیس کی تعیناتی، ایمبولینسز، ایمرجنسی سہولیات۔ یہ وہ سہولیات ہیں جو اسلام آباد کی انتظامیہ کو لازمی فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ صرف پٹرول، میڈیکل اور کنٹینرز کی بات کی جائے تو روزانہ کے اخراجات تقریباً 10 ملین روپے بن جاتے ہیں۔ پچھلے سال فیض آباد میں ہونے والے دھرنے میں صرف کنٹینرز کا خرچہ 60 سے 70 ملین روپے آیا تھا۔ جب پولیس کی تعیناتی ہوتی ہے تو ڈیوٹی پر کھانا اور دیگر اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں اور یہ ساری رقم حکومت کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے اخراجات وہ ہیں جن کو ہم ان ڈائریکٹ اخراجات کہہ سکتے ہیں۔ اگر فیض آباد میں دھرنا ہوتا ہے تو اسلام آباد کے جنوبی حصے جیسے روات، ڈی ایچ اے اور ٹاؤنز کی آمد و رفت مکمل بند ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹیز، کالج، سکول، ہاسپٹلز اور ہاسٹلز میں آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا ضیاع ہوتا ہے‘ تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں‘ دفاتر کا نقصان ہوتا ہے‘ وہاں حاضری کم رہتی ہے‘ کاروبار پر اثر پڑتا ہے‘ حتیٰ کہ کافی دفعہ تو ایمبولینس تک کو راستہ نہیں مل پاتا‘ جس سے مریض اور اس کے لواحقین کو مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چاہے کوئی بھی ایمرجنسی کیوں نہ ہو جو لوگ دھرنے کے نام پر راستہ بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں‘ اپنی جگہ سے ہلنا اور مسائل کو سمجھنا مناسب نہیں سمجھتے‘ جس سے عوام کو اور ریاست کو نقصان ہوتا ہے۔
راولپنڈی سے اسلام آباد روزانہ تقریباً2 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور اپنے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کے لیے میٹرو بس ایک بہت بڑی سہولت ہے اور یہ کم پیسوں میں ٹرانسپورٹ کا ایک بہترین نظام ہے۔ دھرنا چونکہ ہمیشہ فیض آباد میں ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے میٹرو بس سروس کو بند کرنا پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے جڑواں شہروں میں عوام کی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے‘ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات نہیں ہو پاتی ہیں‘ جس سے کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ دھرنوں کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ، میڈیا اور حکومت سب کی توجہ دھرنوں کی طرف ہو جاتی ہے جس کے باعث باقی شہر میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو جاتی ہے۔ چوریاں اور ڈکیتیاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے‘ سب دھرنے کے معاملات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں باقی شہر کے امن و امان کے معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ 
اس کے علاوہ بھی کئی انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ کے کام متاثر ہوتے ہیں۔ نادرا، مختلف حوالوں سے لائسنس جاری کرنے والے اداروں اور عام لوگوں کے دیگر کام متاثر ہوتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کی زندگی دھرنوں سے شدید طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اب تو ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت یا کوئی تنظیم اسلام آباد آ کر فیض آباد پر ڈیرے جما لیتی ہے اور یہ عمل پورے شہر کے نظام کو جام کر دیتا ہے۔ 
اس دھرنا کلچر کو دو طریقوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا پہلا حل تو یہ ہے کہ احتجاج اور دھرنا دینے والوں کو اسلام آباد تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔ اگر لاہور یا کراچی میں کسی مسئلے کی وجہ سے کوئی اسلام آباد دھرنا دینے آ رہا ہے تو اس مسئلے کو لاہور اور کراچی میں ختم کیا جائے تاکہ احتجاج کرنے والوں کو آگے آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ اس کا یہ حل ہے کہ مظاہرین سے بغیر کوئی دیر کیے فوری طور پر مذاکرات شروع کیے جائیں۔ یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انتظامیہ معاملات سے نمٹنا جانتی ہو‘ لیکن بد قسمتی سے کافی دفعہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اسلام آباد تک احتجاج کرنے والوں کے پہنچنے میں صوبائی انتظامیہ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جس کی تمنا ہوتی ہے کہ صوبے کی کسی شہر میں احتجاج نہ ہو اور پھر اس طرح وہ اپنے سر سے اس مسئلے کو ہٹا کر مظاہرین کو اسلام آباد کی طرف آنے دیتے ہے، اس طریقہ کار یا عمل کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ 
دوسرا حل یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت احتجاج کے غرض سے اسلام آباد پہنچ بھی جائے تو اس کا حل یہ ہے کہ انہیں احتجاج کے لیے ایک مختص جگہ سے باہر نہ آنے دیا جائے اور کسی بھی شاہراہ کے درمیان یا پھر اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر موجود فیض آباد پر آنے کی قطعی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے پورے شہر کا نظام اور زندگی‘ دونوں متاثر ہوتے ہیں‘ اور کوشش کی جائے کہ جلد سے جلد مذاکرات شروع کیے جائیں تاکہ دارلحکومت میں دھرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ دھرنوں اور احتجاجوں سے متاثر ہونے کا معاملہ محض راولپنڈی یا اسلام آباد تک ہی محدود نہیں بلکہ اگر دوسرے کسی شہر میں احتجاجی مظاہرہ ہو یا دھرنا دیا جائے تو وہ بھی اسی شدت سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے سرکاری معاملات کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے‘ اس لئے بہتر ہے کہ لوگوں کے مسائل دھرنوں اور احتجاجوں سے پہلے حل کرنے کی پالیسی اپنائی جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں