"IGC" (space) message & send to 7575

’سٹیٹس کو‘ کے حامیوں اور مخالفین کے مابین مقابلہ

ہم حزب اختلاف کی جماعتوں کے احتجاج اور استعفوں کے بلند آہنگ شور و غل کی وضاحت کس طرح کر سکتے ہیں؟ کیا یہ اپوزیشن برائے اپوزیشن والا معاملہ ہے یا اقتدار کی تلاش میں کی جانے والی کوشش‘ جس کو پی ڈی ایم ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتی ہے‘ چاہے اس میں براہ راست غیر جمہوری مداخلت ہی شامل کیوں نہ ہو جائے؟ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ روایتی جمود(سٹیٹس کو) اور اس کے مخالفین کے مابین میچ ہے... گڈ گورننس اور احتساب کے ذریعے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا مقابلہ؟
کیا مرکزی دھارے کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 2008 میں مری میں اس بات پر اتفاق نہیں کیا تھا کہ وہ کسی بھی حوالے سے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گی اور قائم حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دیں گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ پھر اس حکومت کے گرد تنازع کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے اور واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے‘ جو اسی نظام کے تحت 2018 میں قائم ہوئی؟
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ حیثیت کی حامل قوتیں... سیاسی اشرافیہ... ایک ایسے شخص سے خوفزدہ ہیں جو ایلیٹ پر مبنی گورننس سسٹم کو چیلنج کر رہا ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی رہائش گاہ سے نظام حکومت چلاتا ہے اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اپنی خدمات کے عوض قومی خزانے سے واقعتاً کچھ وصول نہیں کرتا۔ غریب لوگوں کے اخراجات پر نہ شاہانہ کھانے اور نہ ہی کیمپ آفس۔ اگر غور سے دیکھا جائے اور حساب کتاب کیا جائے تو اس طرح وہ پچھلے دو سالوں میں وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں 70 فیصد حیرت انگیز کمی کا سبب ہے۔ اب اس بچت کو دیکھئے اور پھر یاد کیجئے کہ کیسے شریفوں، گیلانیوں اور زرداریوں نے ان سرکاری فنڈز سے کیمپ آفسز قائم کئے جو دراصل عام لوگوں کے لئے خدمات پر خرچ ہونے چاہئیں تھے۔ مغربی جمہوریتوں سے متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن میں اخراجات اور منظور شدہ فنڈز میں محض چند ڈالروں کے فرق کے نتیجے میں وزیروں کو استعفے دینے پڑے یا انہیں برخاست کردیا گیا۔ یہاں ایسی کوئی مثال ہے؟
پی ڈی ایم نہ جھکنے والے وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہے جبکہ وزیر اعظم ان تمام لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے خواہش مند ہیں‘ جنہوں نے بینکاری نظام اور حکمرانی کے ڈھانچے کو اتنا نچوڑا ہے کہ ان میں جان ہی باقی نہیں بچی۔ وزیر اعظم کو قومی وسائل کا کتنا خیال ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 19 نومبر کو کابل کا جو دورہ کیا‘ اس پر 12000 ڈالرز سے بھی کم خرچ آیا۔ اس کے برعکس ان سے پہلے کے وزرائے اعظم نے جب بھی کابل کا دورہ کیا‘ اخراجات 50000 ڈالرز سے کم نہ تھے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے نیو یارک کے دورے پر قومی خزانے سے 160000 ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ لیکن جب نواز شریف یا زرداری نیو یارک کا دورہ کرتے تھے تو پاکستان کے غریب عوام کے کم و بیش دس لاکھ ڈالر خرچ ہو جاتے تھے۔ ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر کا واضح فرق؟
کیا یہ عمل ایسے بلیک ہول کی طرح نہیں ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IFIs) کے قرضوں سمیت قیمتی عوامی فنڈز غائب ہو جاتے ہیں؟ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے حکمران بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ترقی، قانون کی حکمرانی، انصاف تک رسائی کے نام پر ہر طرح کے قرض لیتے رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال شبّر زیدی صاحب ‘ جن کے سپرد ایف بی آر کی بیوروکریسی کی گئی تھی‘ کا ایک انکشاف ہے۔ انہوں نے ایک قومی روزنامے کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان ریزز ریونیو پروجیکٹ کے لئے ورلڈ بینک کے 480 ملین ڈالر کے قرض سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کے صحیح استعمال کا جواز نہیں دے سکتے تھے‘ یعنی یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ اس پیسے کا جائز استعمال کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے برعکس سابقہ حکومتوں نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کے لئے واضح طور پر ایسے ملٹی ملین ڈالر قرضے حاصل کئے۔ ان کی جانب سے اس اقدام نے محض قرضوں کے اس پہاڑ میں اضافہ ہی کیا‘ جن کے بوجھ تلے ہمارا ملک آج دبا ہوا ہے۔ 
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ صدر زرداری نے اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور شوکت ترین کو 2010 میں ٹوکیو میں منعقدہ 'فرینڈز آف پاکستان‘ فورم میں وعدہ شدہ آدھی رقم کیش میں دینے کے لئے ڈونرز سے لابنگ کی غرض بھیجا تھا۔ اسلام آباد میں تین اہم مغربی ممالک کے سفیروں نے کچھ عرصہ بعد مجھے بتایا تھا کہ ان کی ان کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تھا جس کی دو بڑی وجوہات ہیں: (1)اس کے مقاصد غیر واضح تھے۔ (2)یہ انتہائی ناقص تجاویز تھیں۔
شبیر زیدی صاحب نے ''ریاست کی کمزور رٹ‘‘ کے بارے میں بھی بات کی‘ وزیر اعظم عمران خان جس کی بحالی کی جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ زیدی صاحب نے ایف بی آر سے اپنی علیحدگی کی متعدد وجوہات بیان کیں‘ جن میں داخلی دباؤ اور مزاحمت بھی شامل تھے۔ خان صاحب نے حال ہی میں ہمیں یہی بتایا کہ اس سے حکومت کا وزن کم ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، نظام کے اندر سے آتومیشن تک بڑے پیمانے پر مزاحمت موجود ہے‘ جبکہ ریاستی محصولات بڑھانے کے لئے آٹومیشن ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح برسرِ زمین ہونے والی بہت سی بدعنوانیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا سوال یہ ہے کہ شبر زیدی کے ایک طرف ہوجانے کے بعد یہ کام کر سکے گا؟
عمران خان تمام ''بدعنوانوں‘‘ سے نمٹنے کے اپنے عزم پر قائم ہیں لیکن وہی سوال کہ موجودہ نظام میں وہ ایسا کر سکتے ہیں جس میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بنائے اداروں میں ہی بد عنوانیوں کی بازگشت سننے میں آ رہی ہو؟دراصل انہی معاملات نے اینٹی کرپشن مہم کو بھی محدود کر رکھا ہے۔ اس ناقص پروسیس نے پوری حکومت کو بدگمانی کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس لئے زیادہ بہتر اور شاید نتیجہ خیز یہی ہے کہ کرپشن پر ضرورت سے زیادہ زور دینے اور کائونٹر پروڈکٹیوٹی کے بجائے عوامی شعبے کے کاروباری اداروں (پی ایس ایز) اور سرکاری ڈھانچوں کے اندر ''نااہلی کی جو قیمت ''ادا کرنا پڑتی ہے‘‘ اس پر توجہ مبذول کی جائے۔ پیچیدہ اور جزوی طور پر سمجھوتہ کرنے والے نظام عدل میں وائٹ کالر کرائمز کا پتا چلانے میں کامیابی‘ سرشاری سے کہیں زیادہ شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
عمران خان صاحب بھاری مشکلات کا سامنا اور مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ بجا طور پر مضبوط ترین جمود کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنی اس کہنہ ٹیم کے ساتھ کس طرح اس سٹیٹس کو کا خاتمہ کر سکتے ہیں جبکہ ان کی ٹیم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں میں ایک کے بعد ایک آنے والے حکمرانوں کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ وہ کس طرح ایسے لوگوں کے ساتھ انقلاب برپا کرنے کی امید کر سکتے ہیں جو زیادہ تر ہم خیال ہوں؟ وہ ایسے لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں‘ جو سٹیٹس کو کے اتنے ہی حامی ہیں جتنے وہ لوگ جن کے خلاف وہ سرگرم ہیں۔ ان متفقہ ساتھیوں نے ہی اصلاحات کے عمل کو روک رکھا ہے۔ کیا وزیر اعظم آئندہ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی ٹیم کو دوبارہ ترتیب دینا پسند کریں گے؟ کیا وہ اس سیاسی تعطل کو توڑنے کے لئے پارلیمانی اپوزیشن کے اندر فہم رکھنے والے عناصر کو انگیج کرنے کے لئے تیار ہیں؟ وہ تعطل جو ان کی حکومت اور حکمرانی کو بھی متاثر کر رہا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں