"IGC" (space) message & send to 7575

امریکی اور بھارتی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟

2016 کے اواخر کا ذکر ہے‘ لندن میں واقع بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم (بی آئی جے) نے عراق میں امریکہ کے کم و بیش 500 ملین ڈالر کے فوجی پروپیگنڈا آپریشن کا پتہ چلایا۔ پینٹاگون نے 2004 کے دوران عراق میں پروپیگنڈا ویڈیوز تیار کرنے کے لئے ایک برطانوی پی آر فرم بیل پوٹینجر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ''جمہوری انتخابات کو فروغ دینے‘‘ کی آڑ میں اصل کام یہ تھا کہ ایسے ٹی وی اشتہار بنائے جانے تھے جو القاعدہ کو منفی رنگ میں پیش کریں‘ ایسے نیوز آئٹم بنائے جانے تھے جن سے ظاہر ہو جیسے انہیں ''عربی ٹی وی نے تخلیق کیا ہے‘‘۔ علاوہ ازیں جعلی القاعدہ پروپیگنڈا فلمیں تیار کرنا تھیں‘ جن سے یہ ظاہر نہ ہو کہ یہ کہاں بنی ہیں۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم نے پینٹاگون اور بیل پوٹینجر کے مابین مئی 2007 سے دسمبر 2011 کے دوران ان معاہدوں سے متعلق 540 ملین ڈالر (420 ملین پائونڈ) کے لین دین کی نشاندہی کی جبکہ مبینہ طور پر اسی سالانہ شرح (120ملین ڈالر‘ 93 ملین پائونڈ) کا ایک معاہدہ 2006 میں بھی زیر عمل تھا۔
بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے انکشافات کے پانچ سال بعد، یورپی یونین ڈس انفو لیب نے سینکڑوں نیوز آؤٹ لیٹس اور این جی اوز کے بین البراعظمی وسیع نیٹ ورک پر چونکا دینے والے انکشافات کا انبار کھود نکالا ہے۔ ان میں سے 10 این جی اوز اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ ہیں۔ یہ سب بھارتی خارجہ پالیسی کے مقاصد پورے کرنے کیلئے پروموٹرز اور ایکسٹینشنز کے طور پر کام کرتے تھے۔ 9 دسمبر کو جاری کیا گیا 'انڈین کرونیکلز‘ 15 سال تک جاری رہنے والی مربوط مہم کا احاطہ کرتا ہے‘ جس میں 119 ممالک‘ 750 سے زیادہ جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس اور 550 سے زیادہ ڈومینز ملوث ہیں۔ ان سب نے واضح طور پر بھارتی مفادات کو دو طرح سے فروغ دیا۔ انہوں نے نہ صرف نئی دہلی کی خارجہ پالیسی کے عزائم کو بڑھاوا دیا بلکہ پاکستان‘ اور ایک حد تک چین کو بھی‘ نقصان پہنچایا۔
اس رپورٹ کی اہم دریافتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مہم کا مقصد پاکستان کو منفی انداز میں پیش کرنا اور اس کے داخلی مسائل کو ہوا دینا ہے۔ اس کے علاوہ، اس مہم میں شناختی چوریاں بھی کی جاتی رہیں‘ جیسے سابقہ صدر برائے یورپی پارلیمنٹ مارٹن شُلز کا نام یا برطانیہ کے سابق وزیر جیمز پورنیل کی تصویر مذموم مقصد کے لئے چوری کرنا۔ ایسا ہی ایک نام پروفیسر لوئس سوہن کا ہے۔ ان کی شناخت بھی چوری کی گئی اور مذموم مقاصد کیلئے استعمال کی گئی۔ وہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون وضع کرنے والوں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔ 2006 میں وہ 92 سال کی عمر میں آنجہانی ہو گئے تھے، لیکن انہیں 2007 میں یو این ایچ آر سی کے سیشن میں کمیشن ٹو سٹڈی دی آرگنائزیشن آف پیس (سی ایس او پی) کے طور پر شریک دکھایا گیا۔ اسی طرح 2011 میں انہیں واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے ایک ایونٹ میں شامل ظاہر کیا گیا۔ یورپی یونین ڈس انفلو لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر الیگزینڈر الایفیلپ نے رپورٹ پیش کرنے کے دوران میڈیا کو بتایا، ''یہ سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جس کو ہم نے بے نقاب کیا ہے‘‘۔
یہ نیٹ ورک بنیادی طور پر ''بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے‘‘ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) اور یورپی پارلیمنٹ میں فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کیلئے مرتب کیا گیا تھا۔ ڈس انفارمیشن کے معاملات پر نظر رکھنے والی اس تنظیم نے پچھلے سال اس نیٹ ورک کو جزوی طور پر بے نقاب کیا تھا‘ لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن توقع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے معاملات کے ماہر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کلاڈ راکیسیٹس کو بھی یہ معاملہ چونکا دینے والا لگا کہ اگر بھارتی حکومت اس کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ اس طرح کی ''بدنیتی پر مبنی مہم‘‘ روکنے میں کیوں ناکام رہی۔ ڈاکٹر کلاڈ راکیسیٹس نے مزید کہا ''اگر بھارتی حکومت اس طرح کی سرگرمی میں براہ راست ملوث نہیں ہو سکتی ہے تو میرے لئے یہ حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی‘ کیا ہو رہا ہے... اس طرح کی ناجائز سرگرمی کو نہ روکنا بھارتی حکومت کے بارے میں بہت کچھ بیان کر رہا ہے‘‘۔
لندن میں مقیم ماہرِ قانون ڈاکٹر نذیر گیلانی کا خیال ہے کہ پاکستان کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ یورپی یونین، جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کے ساتھ ساتھ بڑی پارلیمنٹس (لندن، برلن، پیرس، اوٹاوا) میں یہ معاملہ پیش کرے اور بھارت کے اس ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس کے خلاف مقدمہ چلائے۔
پاکستان کو اب ان فورمز میں پاکستان مخالف قراردادیں پیش کرنے والوں سے رجوع نہیں کرنا چاہئے اور ان کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانا چاہئے، پوری دنیا میں ہر طرح کے جعلی ڈس انفارمیشن پلیٹ فارمز کے انکشافات کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ جس پر (غیر جانبداری پر) سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔اگرچہ پاکستان نے افریقہ سے تعلق رکھنے والی لیکن جنیوا میں قائم تین این جی اوز کو اقوام متحدہ کے پینل سے نکلوانے کا اہتمام کر لیا تھا‘ لیکن ڈس انفلو لیب کے اعدادوشمار کے ساتھ ایک بڑا سوال یہ جڑا ہوا ہے کہ کیسے وہ (پاکستان) نہ صرف اپنے خلاف مذموم مہم چلانے میں ملوث ان ضرر رساں نیٹ ورکس کی ساکھ کے بارے میں سوال اٹھانے میں ناکام رہا بلکہ عالمی میدان میں وہ اپنے بیانیے کی معتبریت قائم کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکا؟ دوسرے یہ کہ اگرچہ پاکستانی حکام وارفیئر کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں‘ جو ان کے مطابق بھارت نے ان کے ملک پر مسلط کر رکھی ہے، اس کے باوجود داخلی سیاست میں انکی مصروفیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے وہ ارتکاز ختم ہو چکا ہے بھارتی مہم کا مقابلہ کرنے کیلئے جو بے حد ضروری ہے۔ کیا یہ پھر اجتماعی ناکامی ہے؟ پھر اگر اعلیٰ قیادت داخلی سیاسی نظم و نسق میں مصروف ہے، تو بیرون ملک پاکستان کے مفادات پر نظر رکھنے کے ذمہ دار ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کیا یہ ان کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ملک کے سیاسی مفادات کی مسلسل نگرانی کریں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کو سنبھالنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں سرگرداں رہی اور اس معاملے پر توجہ ہی نہ دے سکی کہ کس طرح بھارتی نیٹ ورکس... اے این آئی، زی نیوز، نیو دہلی ٹائمز کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک ان کے سینکڑوں پارٹنر ان داخلی ''فالٹ لائنز‘‘ کا استحصال کر رہے تھے۔ اگر پاکستان نے اپنی توانائیاں اور وسائل پروپیگنڈا کرنے والوں اور بھارت سے جاری ہونے والی مذموم معلومات پر صرف کی ہوتیں تو یورپی یونین کی رپورٹ پاکستان کے حق میں استعمال ہوتی اور اس سے موجودہ صورتحال سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا۔
آخر میں، ایک سوال جو پہلے دو سوالوں سے ہی متعلق ہے، یہ ہے کہ انکشافات کے بعد اب پاکستان اس صورتحال سے کیسے نمٹے گا؟ اسلام آباد یا تو اسے ایک بہترین موقع جان کر اپنے سفارتی چینلز کے ذریعے بیرون ملک اپنے بیانیے کو زیادہ سرگرمی کے ساتھ تقویت بخش سکتا ہے یا اپنے سٹریٹجک اور سفارتی حلقوں میں بے عملی کی قیمت برداشت کرنا جاری رکھ سکتا ہے۔ اس افسوسناک معاملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جمہوریت قدیم ترین ہے یا بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے‘ لیکن جب اقوام متحدہ کے دیگر اراکین کی قیمت پر اپنے مفادات کی مہم چلانے کی بات آتی ہے تو دونوں کا طرزِ عمل ایک جیسا ہی ہوتا ہے‘ سرد مہر ذاتی مفادات۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کیلئے کتنے گھٹیا طریقے اور ذرائع استعمال کئے گئے۔ 'انڈین کرونیکلز‘ ان نتائج کو اخذ کرنے میں معاون ہے۔ پاکستان کے پاس اب بھارت کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کا بہترین موقع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں