"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستانی سیاستدان بمقابلہ یورپی سیاستدان

مشہور قول ہے: کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم اور نا انصافی کا نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے اکابرین بجائے اس کام کے جس کے لئے انہیں منتخب کیا گیا ہوتا ہے‘ جب صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور صرف اپنے مفادات کا ہی خیال رکھتے ہیں تو نظام تہہ و بالا ہونے لگ جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش حالی یا بد حالی کا راز اس کے حکمرانوں کی اخلاقی اقدار میں پنہاں ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کا حکمران اپنے قوم کے ساتھ مخلص ہے تو قوم ترقی کرتی ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر قوموں کا حشر ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کا اکثر و بیشتر ایک ہی مسئلہ ہے‘ جو اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے اور وہ ان کے حکمرانوں کی کرپشن اور بد عنوانی ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں آج کل سینیٹ کے الیکشن کا دور دورہ ہے۔ تقریباً تمام جماعتیں ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہم نے ایک عجیب سی ویڈیو دیکھی کہ کیسے ہمارے کچھ کرتا دھرتا پیسوں کے لئے اپنا ایمان بیچ رہے ہیں۔ اگر ایک بندہ کروڑوں روپے لگا کر سینیٹر بن جاتا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ کب تک اپنا کیا گیا یہ خرچہ کرپشن کر کے پورا کرے گا اور کب وہ پھر اپنے عوام کے کام آئے گا یا ملک کی ترقی کے بارے میں سوچے گا؟ موجودہ دور میں اگر ہم سیاست سے کرپشن کا نام ہٹا دیں تو سیاست ختم ہو جاتی ہے اور دراصل یہی آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ حکومت کے خیال میں ملک کی دو بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنی کرپشن کے پیسوں کو بچانے اور این آر او کے چکر میں ہیں‘ جبکہ حزب اختلاف کے خیال میں حکومت نہ صرف انتقامی کارروائی کر رہی ہے بلکہ اس کا وجود ہی کرپشن اور دھاندلی کی وجہ سے قائم ہے۔
اب اس طرح کے حالات انفرادیت کو جنم دیتے ہیں کہ ہر بندہ کہتا ہے‘ ملک کو چھوڑو بس اپنی فکر کرو۔ اس دوڑ میں سماجی حتیٰ کہ مذہبی اخلاقیات بھی کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں‘ اور غالباً ان کا یہ خیال ایک حد تک درست ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ بد عنوانی سے نہ صرف ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں بلکہ انصاف کے نظام پر بھی سمجھوتہ ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اخلاقیات کے کس معیار پر ہیں، اور اپنے فرائض کی ادائیگی کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ جرمنی کے ہیلمٹ کوہل 16 سال تک چانسلر رہے‘ لیکن جب رخصت ہوئے تو ان پر کرپشن یا کسی بھی اور طرح کا الزام نہیں تھا۔ برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر تقریباً 11 سال تک وزیر اعظم رہیں لیکن ان کا دامن بھی ایسے الزام سے مکمل طور پر صاف رہا۔ جرمنی کی موجودہ چانسلر انگیلا مرکل‘ جو کہ 2005 سے یورپ کے طاقت ور ترین ملک پر حکومت کر رہی ہیں اور اسی سال اپنا چوتھا دور پورا کر کے رخصت ہونے والی ہیں، اندازہ لگائیں کہ آج بھی زیادہ تر وہ اپنے شوہر کے ساتھ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتی اور اپنا کام خود کرتی ہیں، حالانکہ میاں بیوی دونوں کیمیا دان ہیں۔ کیا کوئی پاکستان میں سوچ سکتا ہے کہ وزیر اعظم کو تو چھوڑیں کوئی وزیر یا سیکرٹری کسی فلیٹ میں رہتا ہو؟ ہمارے ہاں تو جب 'صاب‘ دفتر سے نکل رہے ہوتے ہیں تو لفٹ کو روک دیا جاتا ہے کیونکہ جب 'صاب‘ کے آنے یا جانے کا ٹائم ہوتا ہے‘ تو لفٹ پر سے دوسروں کا استحقاق ختم ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہمارا کوئی حکمران چار درجن گاڑیوں پر لادی سکیورٹی کے بغیر ہمیں نظر آ جائے گا؟ جبکہ ہم نے بارہا برطانیہ کے وزرائے اعظم بورس جانسن اور ٹریسا مے، امریکی صدر بارک اوبامہ اور بہت سے دوسرے حکمرانوں کو اپنی فائل‘ بیگ یا دوسرا سامان خود اٹھا ئے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ ملک‘ جس پر اربوں ڈالر کا قرض ہو اس کے حکمران کیسے اپنے بیرون ملک دوروں پر اربوں روپے اڑا سکتے ہیں‘ جیسے ہمارے ہاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر اور آصف زرداری نے صدر ہوتے ہوئے اڑائے۔ کیا پاکستان جیسا غیر مستحکم معیشت والا کوئی ملک ایسی فضول خرچی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ایک رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری نے‘ جب وہ صدرِ مملکت تھے‘ اپنے دور حکومت میں تقریباً 45 دورے دبئی کے جبکہ درجن بھر سے زیادہ چین کے کئے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انہوں نے تاجکستان میں 48 گھنٹوں کے دورے پر سفارت خانے کے تین مہینے کے ٹوٹل خرچے سے زیادہ خرچ کئے تھے جبکہ بارک اوبامہ نے اپنے دونوں ادوار میں اپنے دوروں پر صرف 14 ارب خرچ کئے۔
پھر یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا ایک ہی دفتر ہوتا ہے جیسا کہ وائٹ ہائوس میں اوول آفس یا جرمنی کی فیڈرل چانسلری، جبکہ ہمارے ہاں چار چار کیمپ آفسز ہوتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ یہ شاہ خرچیاں حکمران اپنے جیب سے کر رہے ہوتے ہیں؟ نہیں‘ بالکل نہیں‘ یہ عوام کے ٹیکس کے پیسے ہوتے ہیں یا پھر دوسرے ممالک سے بھاری سود پر حاصل کئے گئے قرضوں کی رقم ہوتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں جب کوئی صدر یا وزیر اعظم اپنی مدت پوری کرتا ہے تو وہ زیادہ تر اپنے اسی گھر میں چلا جاتا ہے‘ جہاں سے وہ آیا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں وہ یا تو جیل چلا جاتا ہے اور اگر کسی طرح جیل سے بچ جائے تو سیدھا امریکہ یا برطانیہ میں قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک کا وزیر اعظم یا صدر سالہا سال حکومت کرنے کے بعد علاج کے لئے دوسرے ملکوں میں جانے کی ہمت کر سکتا ہے؟ اس میں اتنی مالی استطاعت ہوتی ہے کہ دوسرے ممالک سے اپنا مہنگا علاج کرا سکے؟ کچھ عرصہ پہلے نیدرلینڈ کا وزیر اعظم اپنی پورے کابینہ سمیت صرف ایک الزام کے ثابت ہونے پر مستعفی ہو گیا اور اپنی سائیکل پر سوار ہو کر گھر چلا گیا۔ نیدرلینڈ کے وزیر اعظم والے معاملے میں اب دو باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی بات تو ان کی اپنے اخلاقی اقدار ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے مزید اس عہدے پر بیٹھے رہنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسرا‘ جو کہ بہت اہم ہے‘ یہ ہے کہ ان پر الزام ثابت بھی ہو گیا، اب اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے جوڈیشل یا کوئی اور بڑے لیول کا کمیشن نہیں بنا بلکہ ایک ڈیپارٹمنٹل انکوائری ہوئی جس کی سفارشات کی انہوں نے پوری ذمہ داری لی اور استعفا دے دیا۔ ہمارے نظام عدل نے بلوچستان کے ایم پی اے مجید اچکرئی کیا اس بات پہ بری نہیں کیا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے؟ یاد رہے کہ 2017 میں ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر گاڑی نے چوراہے پر ڈیوٹی دے رہے انسپکٹر عطااللہ زرغون کو کچل کر ہلاک کر ڈالا تھا‘ جو مجید خان اچکزئی کی تھی۔ بلوچستان ہی کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے کھلے عام 70 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے۔ کیا اب بھی وہ آزاد نہیں پھر رہے؟ ہمارے ملک میں کیا ان لوگوں نے کیسز نہیں جیتے جس کو مرے ہوئے بیس بیس سال ہو چکے ہیں؟
بس یہی فرق ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں منتخب ہونے والوں کی فوقیت عوام اور ان کی بھلائی ہوتی ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کے لسٹ میں بد قسمتی سے عوام آخری نمبر پر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں