"IGC" (space) message & send to 7575

ایوانِ بالا کا الیکشن اور ایک سینیٹر کی باتیں

سینیٹ آف پاکستان کو ایوان بالا بھی کہتے ہیں اور ایک پارلیمانی نظام میں سینیٹ سے بڑا اور معتبر کوئی ادارہ نہیں ہوتا۔ آزاد دائرہ المعارف کے مطابق اس ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔ ایوانِ زیریں یا قومی اسمبلی میں موجود ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں ہر ایک کی نمائندگی کا موقع اس ایوان بالا میں دیا جاتا ہے‘ مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سینیٹ کے انتخابات کاروبار کا ذریعہ اور بعض سینیٹرز کاروباری بن جاتے ہیں۔ اس دفعہ ملک میں سینیٹ کے الیکشن جتنے قریب آ رہے ہیں اتنی ہی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ آیا الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہو یا شو آف ہینڈ یعنی ہاتھ دکھانے سے۔ اور جوں جوں دن گزر رہے ہیں ان قیاس آرائیوں میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ حکومتی جماعت کہتی ہے کہ شو آف ہینڈ سے ہو کیونکہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکا جا سکتا ہے جبکہ حزب اختلاف کہتی ہے کہ نہیں یہ اب ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حکومت یہ تقاضا اس لئے کر رہی ہے کہ اس کو اپنے کچھ ارکان کی نیتوں پر شک ہے کہ وہ بیلٹنگ کے وقت اپنی مرضی کر سکتے ہیں۔ بات جو بھی ہو ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے یہی ایک طریقہ ہے کہ الیکشن اوپن ہو۔
اسی سلسلے میں سینیٹر جہانزیب جمال دینی‘ جو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں‘ کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں زیادہ تر سینیٹ کا الیکشن ہی زیر بحث رہا۔ اس سوال کے جواب میں کہ سینیٹ کا الیکشن آتے ہی یہ اتنی گہما گہمی کیوں ہو جاتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے ملک کے مال دار لوگوں کے پاس پیسہ تو ہوتا ہی ہے لیکن ٹائٹل یا سٹیٹس کے لئے وہ سینیٹر بننا چاہ رہے ہوتے ہیں‘ جس کے لئے وہ کروڑوں روپے خرچ کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو خرید کر سینیٹر بن جاتے ہیں، اب ان کے پاس رتبہ بھی ہوتا ہے تو وہ اس کا استعمال کر کے مختلف اداروں میں جا کر اپنے کام کراتا ہے اور اپنا خرچ کیا ہوا پیسہ واپس جوڑنے میں لگ جاتا ہے‘ لیکن یاد رہے کہ وہ لگاتا کروڑوں میں ہے اور پھر کماتا اربوں میں۔
سینیٹر جہانزیب جمال دینی کے مطابق وہ حکومت کے اس اقدام (شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کیلئے قانون لانے) کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس قانون کو لانے کی ٹائمنگ ساری چیزوں کو مشکوک بنا رہی ہے‘ اگر یہ قانون چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت ہوتا تو زیادہ اچھی بات ہوتی‘ اس لئے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے فائدے میں بھی ہو گا‘ لیکن حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ حکومت کو اس سے ذاتی طور پر زیادہ فائدہ ہو گا۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کو کبھی ایسی پیشکش ہوئی‘ تو انہوں نے کہا کہ میں چونکہ بی این پی کا اہم رکن ہوں تو سب کو پتا ہے کہ مشکل ہے میں پیسوں کے لئے بک جائوں‘ تو اس لئے کسی نے ایسی پیشکش نہیں کی۔ انہوں نے نام لئے بغیر ایک سینیٹر صاحب کا قصہ بیان کیا کہ وہ ساٹھ کروڑ روپے لگا سینیٹر بن گئے لیکن اپنے چھ سالہ دور میں ایک دفعہ بھی کھڑے ہو کر یہ نہیں کہا کہ میرا نام یہ ہے اور میں فلاں جگہ سے سینیٹر منتخب ہوا ہوں۔ ان کا کام صرف حاضری لگا کر مختلف دفتروں میں جانا اور اپنے کام کرانا ہوتا تھا۔
جب میں نے بلوچستان کی پس ماندگی کے بارے میں ان سے پوچھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت بلوچستان کو سالانہ جو ایک ہزار ارب روپے ملتے ہیں‘ وہ کہاں جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: اگر کسی کا خیال ہے کہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران جو سالانہ ایک ہزار ارب روپے بلوچستان کے عوام پر لگانے کے لئے وفاق دے رہا ہے وہ پیسہ عوام پر خرچ بھی ہو رہا ہے تو یہ خیال غلط ہے کیونکہ وہ پیسہ بڑے بڑے لوگوں کی جیبوں میں جا رہا ہے اور اسی لئے وہاں عوامی سطح پر احساسِ محرومی اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: ہم تو پہلے ہی سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں آنے دیا جائے اور ان کا راستہ غیر فطری اور غیر سیاسی طریقوں سے نہ روکا جائے تا کہ عوام کی صحیح نمائندگی ہو سکے اور یہی احساس محرومی ختم کرنے کا واحد طریقہ اور علاج ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی بالا دستی تب تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک منتخب نمائندے اپنی پارلیمانی طاقت استعمال نہیں کریں گے اور ظاہر ہے کہ وہی نمائندے اپنی پارلیمانی طاقت استعمال کرنے کے پوزیشن میں ہوتے ہیں جو مضبوط اعصاب کے مالک ہوں‘ جن کے کوئی دام نہ لگا سکے اور جن کا دامن ہر طرح کے کرپشن سے پاک ہو۔ سینیٹر صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک حاضر سروس جنرل صاحب کو ہم نے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی‘ جس کا میں چیئرمین تھا‘ میں بلایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے آئی ایس پی آر کے ذریعے بلائیں۔ اس پر ہم نے کہا کہ آئی ایس پی آر بھی تو اپنا ہے‘ اسی کے ذریعے ان کو بلاتے ہیں؛ چنانچہ وہ آئے اور جن سرکاری معاملات میں ان سے بات چیت ہونا تھی وہ ہوئی‘ جس کے دوران کئی ایک ارکان نے ان کے ساتھ رشتے داریاں بھی بنانا چاہیں جن کو میں نے چپ کرایا کہ بھائی آپ اپنا یہ والا کام باہر جا کر کریں یہاں سٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ نیب کے چیئرمین کو بلایا تھا۔ ان سے بھی باقاعدہ متعلقہ معاملات پر بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں ایک دفعہ این آر سی کو کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ میں اس وقت استحقاقی کمیٹی کا چیئرمین تھا تو جب یہ کیس میرے پاس آیا تو ہم نے کہا کہ ہمارے ملک میں زمین کافی ہے‘ نیا منصوبہ کہیں اور بن جائے‘ این آر سی یہیں رہے گی‘ تو اس پر مجھ پر بہت دبائو آیا‘ بہت لالچ دیا گیا اور بہت سی آفرز آئیں لیکن این آر سی آج تک وہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک بالا دست ادارہ ہے اور حاضر سروس لوگ یا چیئرمین نیب جیسے طاقتور لوگ بھی عوامی نمائندوں کو جواب دہ ہیں۔ اس سے نہ صرف پارلیمان کی نیک نامی ہوتی ہے بلکہ ان طاقت ور لوگوں کے لئے بھی عوام کی دلوں میں عزت بڑھتی ہے کہ یہ لوگ جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے منتخب نمائندے (ایم این ایز اور ایم پی ایز) اور مشیروغیرہ شارٹ کٹ کا استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اپنے وقتی فائدے کے لئے پارلیمان کی بالا دستی کے تصور کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ کچھ طاقت‘ کچھ اثرورسوخ اور کچھ محض دولت کے حصول کو اپنا مطمح نظر بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے عہدے‘ اپنی سیٹ اور خود کو منتخب کرنے والوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہی افراد کی وجہ سے آج پورے ادارے پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت کا احیا ممکن ہو سکے کہ حقیقی ترقی کا یہی راستہ ہے۔
اس پوری نشست سے یہ پتا چلا کہ سینیٹ کے آنے والے انتخابات کا طریقہ جو بھی ہو لیکن نتیجہ اس کا یہ نکلنا چاہئے کہ عوام کے حقیقی نمائندوں کو ایوان تک پہنچنے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قانون سازی کے عمل میں سرگرم حصہ لینے کا موقع ملے۔ عوامی نمائندوں کو موقع ملنا چاہئے تاکہ ان کی صحیح نمائندگی ہو سکے، یہی حقیقی جمہوریت کی روح ہے اور اسی میں ملک اور قوم‘ دونوں کی بھلائی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں