"IGC" (space) message & send to 7575

بے یقینی کے سائے اور امید کی کرنیں

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس وقت خوف اور بے یقینی کے سائے میں امید کی ایک کرن ہے۔
تقریباً چار دہائیوں کے جنگ اور بدامنی سے تنگ افغان عوام صدر اشرف غنی، حامد کرزئی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور طالبان کے مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہ سارے رہنما گفت و شنید سے ایسا کوئی راستہ تلاش کر لیں‘ جس سے افغانستان میں جاری کشیدگی آخرکار اپنے اختتام کو پہنچے اور وہاں مستقل امن کی راہ ہموار ہو۔ حال ہی میں افغانستان کے تقریباً دو درجن رہنما ماسکو (روس) میں جمع ہوئے تھے۔ مقصد افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنا تھا۔ مذاکرات کا اگلا پڑائو استنبول (ترکی) میں ہو گا۔ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی کوششیں دیگر کئی سطوح پر بھی جاری ہیں۔
افغانستان کی قائم مقام وزیر برائے امورِ خواتین حسینہ صافی نے پاکستانی ٹریک 11 کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم بہت پُرامید ہیں کہ پاکستان ہمارے ساتھ مذاکرات کے اس اہم دور میں شامل ہوگا۔ حسینہ صافی تقریباً 25 سال پاکستان میں رہیں۔ یہیں پلی بڑھیں۔ ان کے دل میں اب بھی پشاور اور پاکستان کیلئے ایک خاص پیار اور عزت ہے۔ حال ہی میں پاک افغان پارلیمانی دوستی گروپ (پی اے پی ایف جی) کے چار رکنی وفد نے افغانستان کا دورہ کیا۔ حسینہ صافی سے ہماری ملاقات اور تبادلہ خیالات اسی دورے کے دوران ہوا۔ ہمارے وفد کے ارکان کابل سے مزارِ شریف تک جس سے بھی ملے، سب نے امیدوں اور خدشات کا ملا جلا اظہار کیا۔ تقریباً سبھی افغان افغانستان کی موجودہ صورتحال اور اس پر بیرونی اثرورسوخ کے بارے میں تبادلہ خیال کو سراہتے ہیں۔ ڈر اور بے یقینی کی اس صورتحال میں امید کی ایک کرن روشن ہے۔ وہ کرن بیرونی طاقتوں کا یک زبان ہوکر افغانستان میں جاری کشیدگی کے خاتمے اور بغیر ایک دوسرے پر انگلی اٹھائے امن کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی پُرامید ہیں۔ انہوں نے ذرائع ابلاع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: شاید امن افغانستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ ایسے حالات میں ہمیں اپنی ذات سے زیادہ اپنے ملک کی فکر کرنی چاہئے۔
ذیل میں ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ (قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ)، احمد جاوید جیہون (ڈپٹی سپیکر اولسی جرگہ) عمر داؤد زئی (خصوصی ایلچی برائے پاکستان)، قدرت اللہ ذکی (وزیر ٹرانسپورٹ) حنیف اتمر (وزیر برائے امور خارجہ)، انوارالحق ہادی (وزیرِ زراعت) حسینہ صافی (وزیر برائے امور خواتین) اور پارلیمنٹ کے متعدد ممبران سے ملاقاتوں کے کچھ احوال قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
افغان اکابرین کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام باتوں کا تو ذکر نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ جو باتیں شیئر کی جا سکتی ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ اور بدامنی کا شکار ہے تو دوست ممالک کو ہم سے کوئی ایسی توقع نہیں کرنی چاہئے جو ہم نہ کر سکتے ہوں۔ ایک اور رہنما نے کہا کہ ہم ایک عام معاشرہ ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں‘ لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم ہر دن موت اور تباہی کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کا اشارہ افغانستان میں ہونی والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی طرف تھا۔
ان ملاقاتوں سے ملنے والا دوسرا پیغام افغان معاشرے میں طالبان کا مستقبل میں کردار ہے کہ بے شک افغان طالبان محب وطن ہیں اور زیادہ تر افغان اور علاقائی قوتیں افغانستان میں اسلامی امارات کا نفاذ نہیں چاہتیں۔ افغان عوام سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ طالبان کے افغانستان کے موجودہ نظام پر اعتراضات کو ختم کیا جائے۔
تیسرا پیغام پاکستان کے حوالے سے ہے کہ پہلے جو (ڈو مور) کی صدا آتی تھی وہ اب خواہشات اور توقعات میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے لے کر عمر دائود زئی تک اور احمد جاوید جیہون سے لے کر حنیف اتمر تک سب سے یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کو پناہ دینے پر نہ صرف پاکستان کے شکر گزار ہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے منتظر بھی ہیں۔ احمد جاوید جیہون نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو آپ اپنا دوسرا گھر نہ کہیں بلکہ بس گھر کہیں جیسے ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے اور کہتے ہیں۔
وزیر ٹرانسپورٹ قدرت اللہ ذکی پُرجوش تھے۔ انہوں نے کہا: پاکستان نے ہمارے لئے جو کیا اس کا ہم شکریہ ادا نہیں کر سکتے ''ہم پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو کبھی آگے نہیں بڑھائیں گے، پاکستان نسلی، ثقافتی اور لسانی لحاظ سے ہمارے بہت قریب ہے‘‘ ۔
چوتھا پیغام بے یقینی اور امن عمل میں پاکستان کے کردار کی توقع سے متعلق ہے۔ ہم نے میزبانوں کو مطلع کیا کہ بیشتر طالبان رہنماؤں کے اہل خانہ ان کے ساتھ دوحہ، قطر میں ہیں‘ لیکن اگر بات کاروباری مفادات کی ہے تو کئی افغان سیاستدانوں اور معروف کاروباری گھرانوں کے پاکستان میں براہ راست اور بالواسطہ کاروبار ہیں اور وہ ان رابطوں کو پوچھ گچھ کے بغیر ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ پانچواں، انہوں نے اس عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ کسی کو بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے باہمی عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنے پر بھی زور دیا کہ ہمیں ماضی کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے اور دونوں ریاستوں کے بیچ تعلقات کو مزید وسعت دینی چاہئے۔
چھٹا، انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دشمن کے ساتھ کبھی نہیں ہوں گے جو پختونوں کو تکلیف دیتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے صدر غنی پاکستان کے راستے بھارت تک رسائی پر اصرار سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ وہ پختونوں کو ہونے والے نقصان سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسی لئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ تجارت اور معاشی تعاون کو مشروط کئے بغیر اس مقصد کو حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتواں، وہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں غیر معمولی ویزا پالیسی اور افغان ٹرانزٹ تاجروں کی لئے پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی سہولتوں پر اظہار تشکر کرتے ہیں ''عمران خان ہمارے بھی قائد ہیں جن کا وژن موجودہ سیاست سے کوسوں آگے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ وژن دوطرفہ تعلقات کو نئی سطحوں تک لے جا سکتا ہے‘‘
جن رہنمائوں سے ہم نے ملاقاتیں کیں ان میں سے بیشتر کا یہی خیال ہے۔ آٹھواں، اور یہ سب سے اہم یہ تھا کہ سکیورٹی اور سیاسی صورتحال سے قطع نظر، معاشی تعاون اور تجارت کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہ وہی باتیں ہیں جن کا آغاز (بیانڈ بائونڈریز ڈائیلاگ) نے 2016 میں کیا تھا کہ سیاست اور کاروبار کو الگ کریں اور یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ تمام افغان رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ''سیاسی اختلاف رائے کو معاشی سرگرمیوں میں خلل نہیں ڈالنا چاہئے‘‘۔ یہاں تک کہ افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ کے گورنر، محمد فرہاد عظیمی نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ مزارِ شریف میں اپنے عالیشان دفتر میں پاکستانی وفد سے ملاقات کے دوران عظیمی صاحب نے کہا کہ پائیدار امن اور تجارت، معاشی ترقی کیلئے بہت سے دروازے کھول سکتا ہے‘ ہمارے شمالی پڑوسی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں‘ انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم امن کی واپسی کا انتظار نہیں کریں گے‘ اس کے بجائے افغانستان میں معاشی منصوبوں کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ پاکستان کو بالکل یہی کرنا چاہئے۔ تجارت کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کریں اور جتنا ممکن ہو سکے معاشی تعاون کو بڑھایا جائے۔ اس سے رہنماؤں پر سیاسی تصفیے کیلئے خود بخود دباؤ بڑھے گا اور دوطرفہ خیر سگالی کو تقویت ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں