"IGC" (space) message & send to 7575

افغانستان پرامریکی وزیر خارجہ اور سینیٹر کا مکالمہ

امریکی سینیٹ میں 17 ستمبر کو سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر خارجہ)اینٹونی بلنکن اور میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہولن کے مابین دلچسپ مباحثہ ہوا۔بلنکن نے ہمیشہ کی طرح سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان کے حوالے سے اپنائی گئی پالیسی کا دفاع کیا۔ بیشتر ری پبلکن اور ڈیموکریٹ قانون سازوں نے گزشتہ ماہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد انتشار اور امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار صدر بائیڈن کو ٹھہرایا تھا۔اگرچہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس‘ دونوں نے پاکستان کو جنگ کے دوران طالبان کی نظریاتی سپورٹ کیلئے نشانہ بنایا ‘تاہم سینیٹر کرس وان ہولن نے بلنکن کی دی گئی زیادہ تر دلیلوں کو مسترد کیا جس میں پاکستان کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کی منفی رائے بھی شامل ہے۔ سینیٹر نے بلنکن سے پوچھا:کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے زیادہ تر فیصلے امریکی دباؤ میں ہوتے تھے اور یہ کہ پاکستان کا مفاد پرامن اور مستحکم افغانستان میں ہے؟ یہ بات 15 اگست کو افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد دوحہ امن عمل میں پاکستان کے کردار کے اعتراف کا شائستہ اظہار ہے۔
کسی تفتیشی یا ماہر وکیل کی جرح جیسے سوالات کے ذریعے سینیٹر کرس وان ہولن نے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ اور ان کے پیش رو کے مؤقف کی کامیابی سے مخالفت کی‘ جیسا کہ زیادہ تر امریکی قانون ساز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سینیٹر ہولن نے کہا: ہمارے سامنے طالبان پر مشتمل حکومت ہے ‘ بشمول حقانی نیٹ ورک کے دو ارکان کے‘ جن میں سے ایک پرتشدد سرگرمیوں کے حوالے سے مطلوب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو پرامن اور مستحکم افغانستان میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ یہ خود اسی کے مفاد میں ہے۔اس بحث میں سینیٹر وان ہولن نے بلنکن کو دفاعی پوزیشن پرڈال دیا ۔ دونوں کا یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے اور نتیجہ اخذ کیجئے کہ امریکی انتظامیہ کی سوچ کیا ہے:
سینیٹر وان ہولن: اس کمرے اور کانگریس میں اتنی زیادہ منافقت حیران کن ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں افغانستان کے بارے میں مزید بحث کرنی چاہئے۔ امریکی فوجیوں اور وسائل کا اتنی بڑی مقدار میں عراق کی طرف موڑنا جدید امریکی تاریخ کی سب سے بڑی سٹریٹیجک غلطیوں میں سے ایک ہے۔ ایران اس غلط فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے‘ اور اب ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کی طرف آئیے جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے۔ میں نے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی‘ مجھے شک ہے کہ اس کمرے میں موجود ہر شخص نے تسلیم کیا کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں بلکہ اس کا سیاسی حل ہونا چاہئے‘ لہٰذا میں نے اس عمل کی حمایت کی۔مسٹر سیکرٹری(انٹونی بلنکن) کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ وہ اس عمل کے تسلسل کیلئے تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرے؟اس پر انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے۔ پھرسینیٹر وان ہولن نے کہا کہ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس وقت سینئر ترین رہنماؤں میں دوسرے نمبر پر ہے یعنی ملا برادر‘ ایسا ہی ہے؟ وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔
سینیٹر وان ہولن: یہ وہی شخص ہے جس کو کابل والی تصاویر میں سب نے دیکھا‘ ایسا ہی ہے؟ سیکرٹری بلنکن: یہ درست ہے۔
سینیٹر وان ہولن: ایک اور سینئر کمانڈر رہا ہوا اور طالبان نے دوحہ میں مذاکرات شروع کئے؟ انہوں نے افغان حکومت کو شامل نہیں کیا؟
سیکرٹری بلنکن: نہیں کیا۔
سینیٹر وان ہولن: طالبان نے درحقیقت حکم دیا اور افغان حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ 5000 طالبان جنگجوؤں کو رہا کرے ‘ ٹھیک ہے؟
سیکرٹری بلنکن: صحیح ہے۔
سینیٹر وان ہولن: ان میں سے بہت سے جنگجو آج کابل پر حملے میں ملوث تھے۔ سیکرٹری بلنکن: جی ہاں۔
سینیٹر وان ہولن: اب دیکھتے ہیں کہ مذاکرات اصل میں کیا تھے‘ میں نے اس کے آغاز میں اس لئے حمایت کی کہ امریکہ اس سال مئی کی ایک مقررہ تاریخ کو افغانستان سے نکل جائے گا۔ سیکرٹری بلنکن: درست۔
سینیٹر ہولن:آپ امریکی افواج پر حملہ نہیں کر سکتے‘ لیکن آپ افغان فورسز پر استثنیٰ کے باوجود حملہ کر سکتے ہیں‘ ٹھیک ہے؟‘۔بلنکن: ایسا ہی ہے۔
سینیٹر وان ہولن: اور اسی طرح ہم افغانستان سے انخلا کے لیے ایک تاریخ کا انتخاب کرتے ہیں‘ کیا ہم نے طالبان کو افغان فورسز پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دی؟ اور ایسی صورتحال میں جب افغان فورسز پر حملے ہورہے تھے تب ہم افغانستان کے مستقبل پر بات چیت نہیں کر رہے تھے؟
سیکرٹری بلنکن: ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔
سینیٹر وان ہولن: افغانستان میں ایک کہاوت ہے کہ غیر ملکیوں کے پاس گھڑیاں ہیں اور ہمارے پاس وقت اور اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے مذاکرات‘ جن میں افغان فورسز پر حملے ہوسکتے ہوں‘ کے ذریعے طالبان کیلئے کابل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کیا‘ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سابق صدر نے بائیڈن کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ پہلے ہماری افواج نہیں نکال رہے تھے؟
سیکرٹری بلنکن: آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔
سینیٹر وان ہولن: اب آپ کو تھوڑا سا مستقبل کے بارے میں بتاتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے ہمارے نیٹو شراکت داروں اور ارد گرد کے ممالک کے درمیان وزارتی اجلاسوں کو منعقد کیا ہے۔ یہ سب کچھ رائیگاں ہوگا اگر آس پاس کے ممالک اور خطے کے دیگر لوگ اس میں حصہ نہ لیں۔ آپ کے ساتھ انڈیا اور پاکستان کی معاونت بھی تھی‘ ٹھیک ہے؟
سیکرٹری بلنکن: یہ ٹھیک ہے۔
سینیٹر وان ہولن:میں نے سنا ہے کہ آج آپ نے ان میں سے کچھ شرائط کی بات کی ہے جن میں ان لوگوں کے لیے آزاد اور محفوظ راستہ فراہم کرنا بھی شامل ہے جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ‘ ٹھیک ہے؟
سیکرٹری بلنکن: ٹھیک ہے۔
سینیٹر وان ہولن: دوسرا‘ بین الاقوامی انسانی تنظیموں کی براہ راست افغان عوام تک رسائی‘ تیسرا‘ خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ‘ چوتھا‘ آپ افغانستان کی سرزمین کو مستقبل میں دہشت گرد حملوں کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے‘ چاہے وہ القاعدہ ہو یا کوئی اور۔
سیکرٹری بلنکن: یہ ٹھیک ہے۔
سینیٹر وان ہولن: اب آپ کے پاس تمام شراکت داروں کو بتانے کے لیے کیا ہے جس پر ہم یکجا ہوکر رہیں؟
سیکرٹری بلنکن: ہمارے پاس وہ بیانات ہیں جن پر کئی ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد میں ہے جو ہم نے شروع کی ہے اور ہم نے ان ممالک اور اداروں کا ایک گروہ قائم کیا ہے جو اس ضمن میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ ایسے ممالک بھی ہیں جن کا حوالہ دیا گیا ہے۔ چین‘ روس اور پاکستان اور اس کے بارے میں ہم بہت محتاط بھی ہیں۔
سینیٹر وان ہولن: ٹھیک ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم پاکستان افغانستان میں انتشار اور خانہ جنگی کو روکنے میں دلچسپی رکھتا ہے‘ کیونکہ مضبوط اور پرامن افغانستان ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ ہمسایہ ملک کو انتشار کا شکار ہونے سے بچائے۔
یہ انکشافات امریکہ مخالف کسی شخص کے نہیں بلکہ خود امریکی سینیٹر کے ہیں۔آئیے ہم سب مل کر ایک خوشحال افغانستان کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کریں جو اپنے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں