"IGC" (space) message & send to 7575

پاک چین بھائی چارے کا راز

چین کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا ہے ۔زمانہ طالبعلمی میں ہم چینی سفارتخانے کی طرف سے جاری ہونے والا اُردو ماہنامہ ''چین باتصویر‘‘پڑھ کر حیران ہوجاتے تھے‘پھر بہت بعد میں ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے چین کا سفر کیا جس کا آغاز چینی دوستوں کے ساتھ بیجنگ‘ شنگھائی‘ گوانگ ژو‘ شینزین‘ اورمچی اور تبت میں براہ راست بات چیت سے ہوا۔ ان سارے مشاہدات کا احاطہ میں نے اپنی نئی کتاب What Lies Behind the Iron Brotherhood?میں کیا ہے جس کی تقریب رونمائی گزشتہ دنوں ہوئی۔ 2009ء کے بعد سے ایک حیرت انگیز اور سبق آموز سفر جس نے مجھے یہ بھی سمجھایا کہ چینی پاکستان اور پاکستانیوں کا اتنا احترام کیوں کرتے ہیں اور ان کے دل میں پاکستانیوں کے ساتھ رشتے کی کیا اہمیت ہے۔اس احترام کا پہلی دفعہ مجھے تب اندازہ ہوا جب میں اپریل 2009ء میں دوسری دفعہ ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے بیجنگ گیا۔ اُس وقت مجھے چینیوں کے انگریزی لہجے کو سمجھنے میں دشواری بھی پیش آرہی تھی۔ کانفرنس کے بعد ایک گروپ فوٹو کا بندوبست تھا وہاں ایک چینی خاتون بار بار کسی کو بلا رہی تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا کہہ رہی ہے‘ پھرمیرے ساتھ کھڑے ایک شخصیت نے مجھے کہا کہ یہ آپ کو بلا رہی ہے‘ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ مجھے کیوں بلا رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ خاتون کہہ رہی ہے کہ سامنے والی کرسیوں میں ایک کرسی آپ کیلئے مختص ہے مہربانی کرکے آپ کھڑے ہونے کے بجائے وہاں بیٹھ جائیں تاکہ تصویر بنائی جا سکے۔ ایک دفعہ 2010ء میں ہم بیجنگ میں ایک ریستوران میں گئے وہاں ہمیں گارڈ نے روکا اور ہمارے چینی میزبان سے ہمارے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا: پاشیہ‘ مطلب آئرن برادر۔ اس طرح کا ایک واقعہ 2018ء میں پیش آیا جب ہم ایک ٹیکسی میں سفر کررہے تھے اور ہمارے ڈرائیور نے ہمارے بارے میں جب پوچھا تو جواب 2010ء والا ہی آیا جس پر اس ڈرائیور کا چہرہ چمک اٹھا اور اُس نے کہا کہ ہم آپس میں دوست ہیں‘ آئرن برادرز۔اس کے علاوہ چینی صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ پاکستان اور چین کے مابین بہترین تعلقات چین کیلئے سب سے اہم ہیں۔پاکستان اور چین ہمیشہ کی طرح علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔پوری انسانیت کے محفوظ مستقبل کیلئے پاکستان اور چین کی دوستی کو خوبصورت مثال کے طور پر دیکھا جائے گا۔ میں بہت خوش ہوں کہ اس کتاب کی رونمائی عوامی جمہوریہ چین کے اعلامیہ سے صرف دو دن پہلے اور 21 ستمبر کے آٹھ دن بعد ہوئی‘ جب چیئرمین ماؤ زے تنگ نے نئی جمہوریہ کے پیرامیٹرز پیش کئے تھے۔21 ستمبر 1949ء کو پیکنگ میں چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر چیئرمین ماؤ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی زندگی ان کے جانشینوں کیلئے مشعل راہ ہوگی۔اس موقع پر ماؤ نے اعلان کیا کہ عوامی جمہوری آمریت کا ہمارا ریاستی نظام عوامی انقلاب کی حفاظت کرے گااور یہ نظام بیرونی اور اندرونی دشمنوں کے سازشوں کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار بھی ہے۔ مستقبل میں چین سوویت یونین اور نئے جمہوری ممالک کے ساتھ دوستی کی کوشش کرے گا اور ہم دنیا میں ایک انتہائی مہذب قوم کے طور پر ابھریں گے۔
ایک وہ دن تھا جب چیئرمین ماؤ یہ سب باتیں کر رہے تھے‘ یہ ایک خواب تھا اور ایک آج کا دن ہے جس میں چین پوری دنیا میں ترقی کے لحاظ سے سب سے اوپر ہے‘ جس میں درجنوں ہائی ٹیک انڈسٹریل زونز ہیں‘ 800 ملین سے زائد لوگوں کو غربت سے نکالنے کے بعدعالمی جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ڈال کر چین باقی دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے کاروباری اور معاشی تعاون کے مواقع پیدا کرکے دنیا کو اقتصادی طور پر جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 لیکن یہ کیسے ہوا؟ یہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کی میراث کے ذریعے وجود میں آیا۔جانگ وی وے جو کہ فوڈن یونیورسٹی بیجنگ میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں ‘ کے مطابق موجودہ چین تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے جو چین کے سیاسی فلسفے کی تشکیل کرتا ہے اور سی پی سی کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔پہلا اصول:کنفیوشین نظریہ جو کہ ہن قبیلے کے بعد سے موجود ہے اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے جس کے مطابق چینی حکمران طبقے کو چین پر حکومت کا اختیار عوام کے اعتماد کا مظہر ہے جس پر پورا اترنے کیلئے حکمران جماعت کو بھرپور محنت کرنا ہوگی۔دوسرا اصول:میرٹ کا خیال رکھا جائے گا اور کسی مستحق کا حق کسی غیر مستحق کو نہیں دیا جائے گا۔تیسرا اصول: سیاسی حکمرانی کا فلسفہ جس میں دو چیزوں کا عمل دخل ہوگا یعنی عوامی رائے ‘ دل اور دماغ۔اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس تہذیبی ورثے اور قوم پرستی نے سیاسی قدامت پسندوں کو پھینک دیا ہے جس نے چین کوایک انتہائی لچکدار‘ خود کفیل اور عزتِ نفس والی قوم بنا دیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے تین رہنما جن کی کوششوں سے چین آج اس مقام پر ہے‘ ان میں چیئرمین ماؤ زے تنگ سرفہرست اس لئے ہیں کہ انہوں نے موجودہ چین کی بنیاد رکھی تھی ان کے بعد ڈینگ ژیاؤپنگ کا نام آتا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو ایک عظیم مصلح کے طور پر منوایا اور چینی نظام میں اصلاحات کیں اور آخر میں موجودہ صدر شی جن پنگ اب چین کے سیاسی منظر نامے میں ایک اور مسلسل تبدیلی کی طرف گامزن ہیں کیونکہ ان کی توجہ غربت اور بدعنوانی کے خاتمے اور حکمرانی کی تنظیم ِنو بشمول پیپلز لبریشن آرمی پر مرکوز ہے ۔ یہ چین کی خاموش ترقی ہی ہے جس نے نئے مغربی اتحادوں کو جنم دیا اور امریکہ کو پریشان کردیا ہے۔اس کے برعکس چین نے اقتصادی اور پرامن سفارتکاری کے ذریعے بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کردیا ہے۔ کورونا وباکے دوران جس طرح چین نے قائدانہ انداز اپنا کر پوری دنیا میں ویکسین کے ذریعے لاکھوں دلوں اور دماغوں کو اپنی طرف مائل کیا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
چین کی ترقی کیلئے خطے میں ایسا ماحول درکارہے جو تنازعات سے پاک ہواور جس میں ترقی کیلئے پیاس ہو ‘جس میں تعاون اور مل کر کام کرنے کی گنجائش ہو۔ ان سب باتوں کیلئے چین کو علاقائی مثبت ردعمل کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔ اتنی ترقی کے باوجود چین سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے کیوں کہ بدحال اور بدامن خطہ خود چین کے مفاد میں نہیں ہے۔دسمبر 1996ء میں پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے صدر جیانگ زیمین نے پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کشمیر کو فی الحال پس پشت پر ڈالے اور معاشی ترقی پر توجہ دے۔بقول اُن کے: جب پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا تب ہی دنیا ان کو سنے گی۔ یہ تو عام فہم ہے کہ دنیا میں طاقتور کی بات ہی سنی اور مانی جاتی ہے۔ ایک طرف امریکہ افغانستان‘ شام‘ عراق اور صومالیہ میں جنگیں لڑ رہا ہے جبکہ دوسری طرف شی جن پنگ کی قیادت میں چین تاریخی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے جیو اکنامکس پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور معاشی‘ امن اور کورونا ویکسین ڈپلومیسی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں