"IGC" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف ، قرض اور معاشی غلامی

محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اتنے دباؤ میں ہے جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ اپنے اثرورسوخ کے ذریعے عالمی قرض دہندہ روپے کی قدر کو کم ترین سطح پر لانے کو یقینی بنارہا ہے۔ یہ پاکستانیوں پر اربوں کے مزید ٹیکس ڈال کر مہنگائی کو اور بے قابو کرنا چاہتا ہے۔ معیشت کی اس تباہی کے بدلے میں پاکستان کو قرض کی رُکی ہوئی رقم سے ایک ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔
آئی ایم ایف کی سابق منیجنگ ڈائریکٹر Christine Lagarde نے یونان کے سابق وزیر خزانہ Yanis Varoufakis کو جو کہا تھا‘ اس سے حقائق ہمارے سامنے نمایاں ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ وروفاکس کے مایوس کن تجربے پر میں نے ایک قومی روزنامے کے لیے ایک مضمون فروری 2019ء میں لکھا تھا جس کا یہاں ذکر برمحل ہوگا۔ ''یقینا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں یانیس‘ یہ اہداف جن پر کام کرنے پر اصرار ہورہا ہے‘ قابل عمل نہیں ہیں‘‘ آئی ایم ایف کی سابق ایم ڈی Christine Lagarde نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب یانیس وروفاکس نے آئی ایم ایف اور یورپی سنٹرل بینک کے ساتھ ایک ہزار ارب یورو قرض کی شرائط نرم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے 2010ء میں قرض کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیگارڈ اور اُس وقت کے جرمن وزیر خزانہ وولف گینگ شوبل نے اعتراف کیا تھا کہ یہ دوا کام نہیں کرے گی لیکن بہرحال اس کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے تاہم اگر محب وطن بن کر سوچا جائے تو یہ آپ کے عوام کیلئے اچھا نہیں ہے۔ وروفاکس کا خیال تھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج میں سخت کفایت شعاری کے اقدامات، صحت اور تعلیم کے لیے سبسڈی میں کمی یونان کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہاں تک کہ یونان کے لوگوں نے بھی اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اُس وقت کے یونانی وزیر اعظم Alexis Tsipras نے برسلز کے اصل تصور کے مقابلے میں اس سے بھی زیادہ مضبوط شرائط کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ''وہ (وزیر اعظم) میری ہر بات سے متفق ہونے کا کہتا ہے لیکن اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرتا ہے‘‘ ان باتوں کا ذکر وروفاکس نے اپنے تازہ کتاب: Adults in the Room: My Battle with the European and American Deep Establishment میں کیا ہے۔
وروفاکس کی وزارت کا چھ ماہ کا دورانیہ آئی ایم ایف، یورپی اداروں اور سب سے زیادہ جرمن حکومت کے ساتھ تقریباً روزانہ محاذ آرائی کی کہانی تھا‘ جس کا اختتام بعد میں وروفاکس کے استعفا پر منتج ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ کمزور یونانی معیشت کے لیے بیل آؤٹ پیکیج دراصل فرانسیسی اور جرمن بینکوں کے لیے بیل آؤٹ ہے‘ جو انہیں دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان بینکوں نے ایتھنز کو جو قرضے دیے تھے وہ غائب ہو گئے اور یورپی سنٹرل بینک کے قوانین کے تحت حکومتوں کو مالیاتی اداروں کو بچانے کی اجازت نہیں تھی۔ وروفاکس نے مزید لکھا کہ جرمن حکومت نے نہایت چالاکی سے آئی ایم ایف کے سخت قوانین کو یونان پر مسلط کر دیا اور اس پیکیج کو یورپی یونین کے رکن ملک کے ساتھ یکجہتی کی شکل دے دی۔ وروفاکس عالمی بینکوں، کثیرالقومی کارپوریشنوں، حکومتوں اور آئی ایم ایف کو با اثر سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے چلائے جانے والے 'سپر بلیک باکسز‘ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں‘ جو پیسوں، قرضوں، ٹیکسوں اور ووٹوں کو 'ان پٹ‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘ جس کا آؤٹ پٹ منافع، قرض کی زیادہ پیچیدہ شکلیں‘ فلاحی ادائیگیوں میں کمی، صحت اور تعلیم کی پالیسیاں ہوتا ہے۔ یہ بلیک باکس طاقت ور نیٹ ورکس کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں جن میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو سسٹم کے اندر ہوتے ہیں جبکہ باہر والے سیٹی بجانے کا کام کرتے ہیں کہ کب کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔
سابق یونانی وزیر خزانہ کی اس دلچسپ کتاب کو پڑھتے ہوئے بندہ پچھلے چند مہینوں کے دوران پاکستان میں ہونے والے معاملات کے ساتھ بھی جڑ سکتا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ترقی پذیر اقوام کو مالیاتی غلام بنانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے‘ جو بالآخر ان اداروں کے واجب الادا قرض کی وجہ سے اپنی خود مختاری کھو دیتے ہیں اور ہمیں اب بھی یاد ہے کہ کس طرح سابق امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے ایک انتباہ کے ذریعے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے ملک کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ ''کوئی ابہام میں نہ رہے، ہم دیکھیں گے کہ آئی ایم ایف کیا کرتا ہے‘‘ یہ بات انہوں نے جولائی 2018ء میں امریکی ٹیلی ویژن سی این بی سی کے ساتھ انٹرویو میں ان رپورٹوں کے جواب میں کہی تھی کہ پاکستان اپنی زوال پذیر کرنسی اور مقروض معیشت کو بہتر بنانے کے لیے 12 ارب ڈالر تک کے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کا سوچ رہا تھا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے الفاظ تھے کہ اس میں کوئی منطق نہیں کہ آئی ایم ایف کے ڈالر‘ جو امریکی فنڈنگ کی وجہ سے دراصل امریکی ڈالر ہیں‘ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے دیے جائیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ سخت باتیں اُس وقت کہی تھیں جب پاکستان سخت مالی دباؤ میں تھا اور نئی حکومت کے لیے مالیاتی بندوبست کے چیلنجز غیر معمولی شدت اختیار کر چکے تھے۔
کیا پاکستان میں موجود کچھ لوگ اسلام آباد میں آئی ایم ایف سے منسلک وہ ''ہٹ مین‘‘ ہیں جن کے بارے میں جان پرکنز نے اپنے مشہور کتاب Confessions of an Economic Hit Man میں ذکرکیا تھا؟ یقینا یہ موضوع بحث کے لیے کھلا ہو سکتا ہے۔ جب ہم ان ٹیکنوکریٹس کی قیادت میں کیے گئے فیصلوں کے تباہ کن نتائج دیکھتے ہیں تو ہم بھی بحیثیت عوام ان فیصلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سرکاری کارپوریشنز سالانہ ایک کھرب روپے سے زیادہ کا گھوٹالہ کر رہی ہوں، آئی ایم ایف کو کارکردگی میں بہتری کے نام پر بننے والی کمپنیوں اور اتھارٹیز سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ درحقیقت ہوشیار بیوروکریٹس ہی ہیں جو اپنے مالکان کو نئے ادارے بنانے کی طرف راغب کرتے ہیں جو کہ انہی کو ریٹائرمنٹ کے بعد پارکنگ لاٹ کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
ملک کے اندر نظام میں بنیادی اصلاحات نافذ کیے بغیر‘ ایف بی آر کو 19ویں صدی کی ایکسٹریکٹو ٹیکسیشن ختم کرنے پر مجبور کیے بغیر، آئی ایم ایف کی زیر قیادت بلیک باکسز اپنے قرضوں کی واپسی کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ ٹیکس لگا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان کے ٹیکسیشن نظام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر نہیں بنایا جاتا اور جب تک اس سسٹم میں موجود کمزوریوں کا حقیقی معنوں میں کوئی معتبر حل نہیں ڈھونڈا جاتا آئی ایم ایف یا کوئی بھی مالیاتی ادارہ اس ملک کو مالی استحکام کے راستے پر نہیں ڈال سکتا۔
آج کل قرضوں کے ذریعے اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور اسی قرض کے ذریعے سر تسلیم خم ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ سستے اور نرم شرائط والے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چینی قرضے دستیاب ہونے کے باوجود آئی ایم ایف ہی کو حتمی علاج کے طور پر پیش کر رہے تھے‘ انہیں ان حقیقتوں کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں