"IGC" (space) message & send to 7575

افغان صورتحال ، جیو پولیٹیکل گیم پلان

زیادہ تریورپی ممالک افغانستان میں جاری موجودہ حالات سے پریشان اور ندامت کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ اہم عہدوں پر فائز لوگوں کے لئے موجودہ حالات ناقابلِ یقین ہیںکیونکہ ان پر ان کے اپنے عوام کا بھی شدید دباؤ ہے۔ سب سے پہلے‘ عوام کا خیال ہے کہ ان لوگوں کی سرزنش کی جائے جنہوں نے امریکہ کی اندھی تقلید میں کرزئی اور بعد میں ان کے جانشین اشرف غنی کی حکومتوں کو بے تحاشا فنڈز جاری کئے۔دوسرا‘ اتحادی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ ان تمام لوگوں کو افغانستان سے بحفاظت باہر منتقل کیا جائے جنہوں نے وہاں نیٹو فورسز کی مدد کی تھی۔تقریباً تمام اتحادی تو افغانستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن وہ لوگ ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں جو میڈیا اور این جی اوز کے نام پر وہاں کام کر رہے تھے یا وہ لوگ جو ترجمان بن کر اتحادی افواج کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگوںکے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہیں۔
اگرچہ یورپی یونین نے افغانستان کے لئے اپنی امداد میں کئی گنا اضافہ کیا ہے (ایک بلین یورو تک) لیکن یہ امداد بھی سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے رکی ہوئی ہے اور افغانستان میں حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ امداد ٹائم پر نہ پہنچنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نقطۂ نظر میں فرق دکھائی دے رہا ہے۔20سال سے زیادہ عرصے تک امریکی قیادت میں عالمی برادری نے افغان سیاسی اشرافیہ اور اس کے ساتھیوں سے یہ سوال کیے بغیر کہ 100 ارب ڈالر کہاں جا رہے ہیں‘ ان پر امداد کی بارش جاری رکھی۔ دونوں صدور یعنی حامد کرزئی اور اشرف غنی دو دہائیوں تک عطیہ دہندگان کی طرف سے بغیر کسی سوال جواب کے اپنے اپنے کاروبار کرتے رہے۔یہ دونوں حضرات یورپ اور امریکہ کی لاتعلقی کا بھر پور فائدہ اٹھا کراپنا ذاتی مفاد اور کاروبار تو چمکاتے رہے لیکن افغانستان کی خراب صورتحال کے لئے انہوں نے اپنے توپوں کا رخ پاکستان اور طالبان کی طرف موڑ لیا اور ان دونوں (پاکستان اور طالبان) کو افغانستان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اب تقریباً وہ سب لوگ جو پاکستان اور طالبان کو برا بھلا کہتے تھے اس وقت امریکہ اور یورپ میں بیٹھ کر مزے سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction (SIGAR) کے ایک سینئر اہلکار نے 2016ء میں واشنگٹن میں ہماری میٹنگ کے دوران ایک بار چونکا دینے والا اعتراف کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ کس افغان رہنما کے کتنے فنڈز کہاں رکھے گئے ہیں‘ لیکن سیاسی تجربہ ہمیں ان باتوں کو منظرِ عام پر لانے سے روکتا ہے۔ اس اہلکار نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ جغرافیائی سیاست میں حقیقت کو کس طرح چھپایا جاتا ہے‘اور جان ایف سوپکو‘ جو اس وقت امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن ہیں‘کا تازہ ترین بیان اس تضاد کو ایک بار پھر اجاگر کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کیوں گر گئی‘ آیا اس کی وجہ بدعنوانی‘ گھوسٹ سولجرز‘ افغان فوج کا امریکی فضائی طاقت پر انحصار‘ امریکی کنٹریکٹرز یا نااہل افغان قیادت ہے؟ سوپکو نے یہ باتیں 29اکتوبر 2021ء کو ملٹری رپورٹرز اینڈ ایڈیٹرز ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس آرلنگٹن ورجینیا سے خطاب کرتے ہوئے کی تھیں۔انہوںنے کہا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی ایجنسیوں نے SIGARیا آپ کے لیے امریکہ کی طویل ترین جنگ کے بارے میں ایماندارانہ رپورٹنگ کو آسان نہیں بنایا۔ ہمارے پاس اس بیوروکریٹک جھکاؤ کی تازہ ترین مثال ہے جو عوامی معلومات کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔جان سوپکو نے ایک اور بڑے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا جو امریکہ نہیں تو کم از کم یورپ کے لئے ضرور شرم کا باعث ہے۔ USAIDاور محکمہ دفاع جیسی امریکی ایجنسیوں نے SIGARسے کہا کہ وہ اپنی 53سہ ماہی رپورٹوں سے سابق صدر اشرف غنی اور بہت سے دوسرے لوگوں کے حوالے ہٹائے‘ جن میں ان کی کرپشن اور باقی بدعنوانیوں کا ذکر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ SIGARنے مسلسل افغان حکومت کے اندر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی نشاندہی کی ہے اور انہی کارستانیوں کو کابل کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے‘ لیکن امریکی ادارے اب بھی سابق صدر اشرف غنی اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو ممکنہ خطرات سے بچانا چاہتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ یورپی ممالک کے لئے طالبان حکومت کو محدود طریقے سے تسلیم کرنے میں یا ان سے براہِ راست بات چیت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس ساری صورتِ حال میں واشنگٹن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نے افغانستان کے 9ارب ڈالر کو بھی روک رکھا ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں بینکنگ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔چوتھا‘امریکی پالیسیوں میں تضادات ہیں جن میں بائیڈن انتظامیہ نے انسانی ہمدردی کے نام پر افغانستان کے امداد کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس اعلان پر عمل درآمد نہیں ہورہا‘ جس کی وجہ سے افغان ریاستی ادارے بحران کا شکار ہیں۔
اس سب نے پورے یورپ میں جرم اور شرمندگی کا احساس پیدا کیا ہے‘ کم از کم یورپی یونین کی سرکردہ اقوام میں یہ احساس ہے کہ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے‘ یورپ اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ حال ہی میں ایک مایوس یورپی سفارت کار نے مجھے بتایا کہ ہم ناکام رہے اور کابل کے حالات سے ہم نے نظریں ہٹا لیں۔امریکہ کے برعکس یورپی یونین کے بڑے رکن ممالک اب بھی انسانی بحران کو روکنے کے لیے قدم بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ روس اور چین کو بھی افغانستان کے مدد کے لئے اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ یہ توقع اس وقت برسلز میں گونج رہی ہے۔ افغانستان میں پیدا سماجی اور اقتصادی بحرانی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے G20 کے ورچوئل سمٹ کے دوران یورپی یونین نے ایک بلین یورو (1.2 بلین ڈالر) کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے امدادی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی اُس امداد سے ہٹ کر ہے جس کا تعلق یورپی یونین ڈیویلپمنٹ فنڈ سے ہوتا ہے‘ کیونکہ یہ فنڈ افغانستان کے لیے کسی اگلے فیصلے تک منجمد رہے گا۔
ان یورپی ممالک کے ایجنڈے میں سب سے اہم نقطہ غیر منظم امیگریشن‘ داعش کی قیادت میں ہونے والے پُرتشدد واقعات اور اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے آس پاس کے علاقوں میں عدم تحفظ کے بارے میں تشویش ہے۔ یہ صورتِ حال واشنگٹن کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یورپی سفارت کار حیران ہیں کہ کیا یہ چین اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک جیو پولیٹکل گیم پلان ہے ؟ کیا یہ چین اور اس کے اتحادیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے کوئی منصوبہ تو نہیں ہے ؟ افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ کیا یہ سب خود بخود ہوا یا قصداً ہونے دیا گیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں