"IGC" (space) message & send to 7575

ایک التماس

اجتماعات کسی بھی سماجی یا معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور افراد کو یہ سکھاتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کو کیسے منظم کیا جا سکتا ہے۔ انفرادی طور پر تو سبھی اپنی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اجتماعات ہمیں اتحاد کے ساتھ تنظیم کا سبق بھی دیتے ہیں۔ یہ مل کر رہنے اور آگے بڑھنے کا گُر سکھاتے ہیں۔ یہ باتیں میرے ذہن میں اس لیے آئیں کہ جہاں بھی بڑے اجتماعات دیکھتا ہوں‘ دل خوش ہوتا ہے‘ لیکن جب ان اجتماعات میں کچھ بد نظمی مشاہدے میں آتی ہے تو ظاہر ہے دکھ اور غم بھی ہوتا ہے۔ حال ہی میں رائے ونڈ میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ لاکھوں نیک لوگوں نے اس اجتماع میں شرکت کی۔ بڑے روح پرور‘ دل خوش کُن اور خوبصورت مناظر دیکھنے میں آئے۔ مولانا ابراہیم آف انڈیا نے اختتامی دعا کرائی‘ جو دراصل ہر مسلمان کے دل کی آواز تھی۔ لاکھوں افراد کی شرکت کی وجہ سے ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے پورا عالم اسلام ایک جگہ پہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ یقین کریں یہ دکھ کر دل خوش ہو گیا۔ رائے ونڈ کا روح پرور تبلیغی اجتماع پہلے سال میں ایک دفعہ ہوتا تھا جس میں پورے پاکستان اور دوسرے ممالک سے بھی لوگ شرکت کرنے کے لیے آتے تھے۔ مرکز کی مستعد انتظامیہ اپنے مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور ان کے قیام و طعام اور آرام کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتی تھی؛ تاہم پچھلے کچھ عرصے میں جب آنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو گیا تو اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ اب یہ اجتماع سال میں دو دفعہ ہوتا ہے تاکہ رش والے مسئلے پر قابو پایا جائے اور ایسا کرنے کے اچھے نتائج بھی سامنے آئے لیکن چونکہ تبلیغی جماعت ایک فروغ پذیر اور نمو پذیر ادارہ ہے‘ اس لیے کچھ عرصے میں اجتماعات میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد پھر لاکھوں تک پہنچ گئی۔ اس اجتماع کے دوران اگر نظم و ضبط کی بات کی جائے تو بلا مبالغہ اور پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا کے منظم ترین اجتماعات میں سے ایک ہے اور اس کا کریڈٹ بلا شبہ اجتماع کا اہتمام کرنے والی انتظامیہ کو جاتا ہے۔ لیکن یہ مشاہدے میں آیا کہ جونہی اجتماع ختم ہوتا ہے کچھ بد نظمی سامنے آتی ہے۔ اجتماع کی انتظامیہ اور تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے بھائیوں سے معذرت کے ساتھ میں اس بد نظمی کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں‘ جس کا مقصد تنقید نہیں بلکہ صرف اور صرف اصلاحِ احوال ہے تاکہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے ہمارے مسلمان بھائیوں کے بارے میں ایک اچھا تاثر قائم ہو اور ان کی عزت اور ان کے وقار میں مزید اضافہ ہو۔
کچھ دن پہلے جب یہ روح پرور اجتماع ختم ہوا تو ہم بھی اسی دن لاہور سے اسلام آباد آ رہے تھے اور ہم نے دیکھا کہ اجتماع کے اختتام پر معزز شرکا ایک ہجوم کی صورت میں باہر نکلے اور یوں شہر کے مختلف حصوں میں یک دم رش بڑھ گیا۔ لاہور سے اسلام آباد کے راستے میں کئی کلومیٹرز تک جگہ جگہ ٹریکٹر ٹرالیوں، ٹرکوں اور بہت ساری دوسری گاڑیوں کا ایک جم غفیر تھا جس میں سے شرکائے اجتماع نکل کر ٹولیوں کی شکل میں نظر آرہے تھے۔ مشاہدے میں آیا کہ عین سڑک کے کنارے بڑے بڑے دستر خوان بچھائے گئے تھے، جہاں شرکا کے لیے طعام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ قریب ہی کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوں کی گاڑیاں بھی کھڑی تھیں اور باقی ٹریفک کے لیے رکاوٹ کا باعث بن رہی تھیں۔ قیام و طعام کے لیے مختص جگہوں پر لوگوں، گاڑیوں‘ سلنڈروں، دیگچیوں کے علاوہ ہر طرف پانی ہی پانی تھا کیونکہ وہاںشرکا برتن دھو رہے تھے جن میں وہ کھانا کھا چکے تھے اور دوسری ضروریات پوری کر رہے تھے۔
پتہ نہیں اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید مولانا طارق جمیل صاحب، مولانا عبیدالرحمان صاحب اور ان کے بہت سارے ساتھیوں کو اس صورت حال کا علم ہے یا نہیں۔ تبلیغی جماعت ایک منظم جماعت ہے اور تنظیم کو پسند کرتی ہے‘ جس کا اہتمام ہمیں اجتماع کے دنوں میں وافر اور واضح نظر آتا ہے۔ سوچتا رہا کہ جس نظم و ضبط کا مظاہرہ شرکائے اجتماع کے دوران کرتے ہیں باہر نکل کر ان کا وہ جوش و جذبہ اور نظم و ضبط کیوں نظر نہیں آتا؟ اور بد نظمی کی وجہ سے شاہراہوں پر لوگوں کا ایک دو گھنٹے کا سفر چار چار پانچ پانچ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ معزز شرکا یقیناً اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوں گے کہ شاہراہوں پر ایمبولینسیں بھی ہوتی ہیں جن میں مریض ہوتے ہیں، وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو اپنی اپنی فلائٹس کے لیے ایئر پورٹ پہنچنا ہوتا ہے، سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں میں بچے اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں طویل انتظار کرنا جن کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ کیا بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان مولانا طارق جمیل صاحب اور ان کے ساتھیوں سے اس ضمن میں درخواست کی جا سکتی ہے کہ چونکہ ہمارا مذہب ہمیں نظم و ضبط کا درس دیتا ہے‘ ہمیں اسراف سے منع کرتا ہے، تو کیا معزز شرکائے اجتماع کے بعد بھی ان سنہرے اصولوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟ جب یہ شاہراہوں پر آتے ہیں تو جگہ جگہ ان کے پڑائو کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوتی ہے کیونکہ ان کی راہ میں رکاوٹ پڑتی ہے۔
اب یہ لاکھوں شرکائے جب ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں تو ان سے بات کرنا یا ان کی رہنمائی کرنا رائے ونڈ مرکز کے علمائے کرام کے لیے آسان ہوتا ہے کہ سب سے پہلے تو حاضرین کو سمجھائیں کہ جس نظم و ضبط کا مظاہرہ شرکائے اجتماع کے دوران کرتے ہیں‘ اسی نظم و ضبط کا مظاہرہ ان کو باہر بھی کرنا چاہئے بلکہ صرف اجتماع کے اندر یا اجتماع کے باہر ہی نہیں ان اصولوں کو انہیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ چونکہ لوگ علمائے کرام کی بہت بڑی تعداد میں پیروی کرتے ہیں اسی لیے یہی علمائے کرام ہی اس طرح کی رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جیسا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ علمائے کرام کا قوم کی رہنمائی میں بہت بڑا کردار ہے لیکن خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس اجتماع میں ایک باقاعدہ اور رسمی سیشن ہونا چاہئے جس میں شرکا کو بتایا جائے کہ کس طرح عام لوگوں کو شرکا کے بنائے ہوئے رش سے بچایا جائے۔ کس طرح اپنی شاہراہوں کو خالی ڈبوں، پیکٹوں اور شاپروں سے صاف رکھا جائے۔ کس طرح قیام و طعام والی جگہوں پر صفائی کو برقرار رکھا جائے اور کس طرح اپنے آپ کو اشیائے خور و نوش اسراف سے بچایا جائے اور کس طرح ان ساری باتوں‘ دینِ اسلام کے ان سارے سنہرے اصولوں کو رائے ونڈ اجتماع سے اپنے اپنے علاقوں تک پہنچایا اور ان پر عمل کیا جائے۔
اگر یہ سب کچھ ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ رائے ونڈ اجتماع پورے ملک کے سطح پر ایک بھرپور سماجی تحریک کو جنم دے سکتا ہے اور ملک و قوم اور ملتِ اسلامیہ کے لیے مزید خیر و برکت کا سبب بن سکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں