"IGC" (space) message & send to 7575

ٹیکس سسٹم اور عالمی اداروں کا قرض

ملک کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں؛ پہلا یہ کہ یہ معاشی ماہرین ہی ہیں جو ہمارے ملک کے لئے معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں؟ اگر یہ پالیسیاں بیورو کریٹس بناتے ہیں تو پھر تو معاملہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ مذکورہ دونوں طبقات کا مجموعہ ہے جس نے پاکستان کو مالی طور پر غلام بنانے کے لیے کئی دہائیوں سے ہٹ مین کے طور پر کام کیا ہے؟
یہ سوالات موجودہ دو بڑے مسائل کے بارے میں ہیں‘ ملک میں ٹیکس کا نظام اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ۔ پاکستان اس وقت 6 ارب ڈالر کے پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس قسط کو حاصل کرنے کے لیے جس قدر پاپڑ بیلے گئے ہیں وہ تو ایک الگ باب ہے‘ اصل بات یہ ہے کہ اس قسط کی عوام کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے‘ پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی‘ جسے موجودہ دورِ حکومت میں کم کیا گیا تھا‘ کو تیس روپے فی لیٹر تک لے جانے کا حکومتی مشیر اعلان کر چکے ہیں‘ 200 ارب روپے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہو گی جبکہ 350 ارب روپے کی مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نئے ٹیکسز کتنے لگتے ہیں‘ یہ اس منی بجٹ میں واضح ہو جائے گا جسے بعض حلقے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر کی مجوزہ قسط کا موازنہ ٹیکسٹائل کی برآمدات سے کریں‘ جس سے ہمیں اس مالی سال کے صرف پہلے چار مہینوں میں اب تک تقریباً چھ ارب ڈالر حاصل ہوئے ہیں‘ تو یہ قسط اور یہ پورا پیکیج ہیچ معلوم ہوتے ہیں مگر آئی ایم ایف کی قسط کی خاطر جو اقدامات کیے جا رہے ہیں‘ ان سے معیشت اور عام آدمی کے حالات میں بہتری آنا تو دور‘ ان کے مزید دگرگوں ہونے کے خدشات تقویت پکڑتے جا رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم کیوں صرف ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کیلئے اتنے بیتاب ہیں جس کی قیمت ہمیں روپے کی قدر کو 14 فیصد مزید گرانے کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی؟
حال ہی میں امریکی ماہر معاشیات ڈاکٹر آرتھر لافرز نے پرائم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام پاکستان پراسپیریٹی فورم 2021ء میں کہا کہ پاکستانی اکابرین کو چاہیے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو پاکستان پر حکم چلانے کی اجازت ہرگز نہ دیں‘ کیونکہ آپ ان کے غلام نہیں ہیں۔ ڈاکٹر لافرز نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے ہر وہ حربہ اپنایا جس میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال خراب سے خراب تر ہو۔ ڈاکٹر لافرز کے الفاظ ہمیں یونان کے سابق وزیر خزانہ یانیس وروفاکس (Yanis Varoufakis) کی یاد بھی دلاتے ہیں جو قرض میں ہیرا پھیری کی مخالفت کی وجہ سے بمشکل چھ ماہ تک ہی اپنا عہدہ برقرار پایا تھا۔
یانیس وروفاکس کا دور آئی ایم ایف‘ یورپی اداروں‘ اور سب سے بڑھ کر جرمن حکومت کے ساتھ تقریباً روزانہ تصادم کی ایک کہانی تھی۔ وروفاکس ان عالمی اداروں اور ملٹی نیشنل کارپورینشنوں کو بلیک باکس کے طور پر دیکھتے ہیں جن کو عالمی بیورو کریٹس اور سیاست دان اپنے فائدے کے لئے چلاتے ہیں‘ جس میں پیسہ اور قرض کے ذریعے معاشی طور پر کمزور ممالک سے بے تحاشا منافع کمایا جاتا ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے اکثر اوقات ان ممالک کے عوام پر ٹیکسوں کا ایک پہاڑ لاد دیا جاتا ہے اور ان کے تعلیم اور صحت جیسے ادارے بھی بجٹ میں کٹوتیوں کے سبب تباہی سے نہیں بچ پاتے۔
وروفاکس کے مطابق ان بلیک باکسسز کو طاقتور اداروں کے اکابرین کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے اور قرض لینے والے ممالک کے اندر ہی ان اداروں کے ہٹ مین یا کارندے موجود ہوتے ہیں جو ایک دم سے طاقت میں آ جاتے ہیں اور معاشی پالیسیاں ترتیب دینے لگ جاتے ہیں۔ اب جب یہ پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہوتی ہیں تو ان میں زیادہ تر خیال ان عالمی اداروں کے منافع کا رکھا جاتا ہے جنہوں نے قرض دیا ہوا ہوتا ہے‘ نہ کہ ان غریب عوام کا‘ جن کے نام پر اور جن کی فلاح و بہبود کی خاطر قرضہ لیا گیا ہوتا ہے۔
اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ 2019ء میں وروفاکس کی تقلید کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں خاموشی سے دوسری وزارت میں بھیج دیا گیا۔ اب ہمارے پاس شوکت ترین اور رضا باقر جیسے لوگ موجود ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف ان سے خوش ہے۔
اب آئیے ٹیکس کے مسئلے کو دیکھتے ہیں۔ معروف ٹیکس ماہرین حزیمہ بخاری اور ڈاکٹر اکرام الحق ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے قوانین کو آسان بنانے اور ٹیکس کی شرح کو کم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انکم ٹیکس کی شرح کو اوسطاً 10 فیصد تک لایا جائے۔ سیلز ٹیکس کی شرح کو 5 سے 6 فیصد تک کم کر دیا جائے‘ کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو ایک ہندسے تک کم کیا جائے اور براہ راست ٹیکسوں کے تناسب کو 66 فیصد تک بڑھایا جائے تاکہ امیر طبقے پر ٹیکس کا بوجھ منتقل کیا جا سکے۔ اس سے ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس بیس میں توسیع ہو گی۔ اسی طرح ڈاکٹر لافر نے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے چند اہم نکات پر زور دیا:
حکومتی ضابطے ٹیکسوں میں رکاوٹوں کا باعث بنتے ہیں‘ اور منفی طور پر پر کام کرتے ہیں۔
ٹیکسوں کا استعمال برے رویوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا جاتا ہے جیسے ٹیکس لگا کر تمباکو نوشی کو محدود کرنا‘ لیکن زیادہ آمدنی پر ٹیکس لگانے کا مطلب ہے کہ کمائی کو غیر پُرکشش بنانا۔
کم شرح ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے میں مدد دیتی ہے اور ملک تیز رفتاری سے ترقی کرتا ہے۔ امریکہ کو اس وقت بہت فائدہ ہوا
جب اس نے ذاتی انکم ٹیکس کو 11 بریکٹ سے کم کر کے صرف 2 بریکٹ کر دیا۔ پرسنل انکم ٹیکس 56 فیصد سے کم کر کے 28 فیصد جبکہ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 36 فیصد سے کم کر کے 34 فیصد کر دی گئی۔ ڈاکٹر اکرام اور ڈاکٹر لافرز بنیادی طور پر ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی کے لیے کم ٹیکس کے شرح کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دونوں بڑے پیمانے پر نجکاری کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ حکومتوں کا کام کاروبار چلانا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر لافرز کہتے ہیں کہ صدر اردوان کے دور میں ترکی نے زیادہ تر سرکاری اداروں کو فروخت کر دیا تھا بشمول ٹرکش ایئر لائنز کے‘ جو اس وقت دنیا بھر میں پرواز کرنے والی بہترین ایئر لائنز میں سے ایک ہے۔
ایک طرف گردشی قرضہ ہے اور دوسری طرف ریلویز‘ پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے بڑے ادارے‘ جو شدید خسارے سے دوچار ہیں اور جن کی نبضیں بحال رکھنے کے لیے ہر سال اربوں روپے دریا برد کر دیے جاتے ہیں۔ صرف یہی ادارے خسارے کا شکار نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو سرکاری شعبے کے تقریباً 134 غیر فعال اداروں کو چلانے کے لیے سالانہ 4 بلین ڈالر تک کے پیکیجز کیوں ادا کرنا چاہئیں؟ نجکاری کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ حکومت کے ماتحت مزید اتھارٹیز کون بنا رہا ہے اور کیوں؟ ذرا سوچئے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں